غداری کے الزامات پر چارج شیٹ ، ناکامیوں کی پردہ پوشی کیلئے داخل ہوئی ہے

,

   

مسلمان ملک کے سکیولر اتحاد کو ابھی سے جوابدہ بنائیں ، کرناٹک کی سیاسی صورتحال پر اظہارِ تشویش ،سیاست کو عمر خالد کا خصوصی انٹرویو

بنگلورو۔ 15 جنوری (عبدالحلیم منصور) اسٹوڈنٹ لیڈر عمر خالد نے آج بتایا کہ مودی حکومت کے پاس اب چونکہ کوئی انتخابی موضوع بچا نہیں ہے، اسی لئے تین سال پرانے معاملے پر کل کنہیا کمار اور ان کے علاوہ 8 افراد پر غداری کا الزام عائد کرتے ہوئے چارج شیٹ داخل کی گئی ہے، اور اس کے لئے وہ 56 انچ کے سینے والی حکومت کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ دورہ بنگلورو کے موقعے پر ’’سیاست‘‘ کو دیئے گئے خصوصی انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ پورے تین سال بعد اور لوک سبھا انتخابات سے تین مہینے قبل چارج شیٹ داخل کرنے کے مقصد سے عوام اچھی طرح واقف ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اب تک انہوں نے چارج شیٹ نہیں دیکھی ہے۔ ایسے میں وہ اس معاملے پر ردعمل ظاہر نہیں کریں گے، تاہم انہوں نے کہا کہ انہیں دستور اور قانون پر مکمل بھروسہ ہے اور امید ہے کہ وہ ضرور بے گناہ ثابت ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ سالانہ دو کروڑ روزگار فراہم کرنے کا وعدہ ہوا تھا، مگر نوٹ بندی، اور جی یس ٹی سے بے روزگاری میں اضافہ ہوگیا ہے، اس حکومت کے دور میں ملزمین کو پناہ دی جارہی ہے۔ 9 سالہ آصفہ کی آبروریزی کے ملزمین کی بی جے پی کے منتخب نمائندے برسر عام حمایت کررہے ہیں، اور عام انسان مسائل سے دو چار ہے، ان کے مطابق اب مندر، مسجد پر بھی بی جے پی کو فائدہ نہیں ہو رہا ہے تو اسٹوڈنٹ لیڈروں پر غداری کے الزام میں تین سال بعد چارج شیٹ دکھا کر عوام کی توجہ ہٹانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ریاست میں بی جے پی کے ذریعے پیدا کئے جارہے سیاسی بحران پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے عمر خالد نے کہا کہ پہلے ہی سے بی جے پی کی پالیسی رہی ہے کہ انتخابات میںکامیاب ہوں یا نہ ہوں اقتدار ان کے پاس رہنا چاہئے۔ کئی ریاستوں میں اس کی مثال بھی دیکھنے کو ملتی ہے،

جن لوگوں کو دستور پر بھروسہ نہیں ہے، وہی اس طرح کی حرکتیں کرسکتے ہیں، مگر اس کا خمیازہ بی جے پی کو لوک سبھا انتخابات میں ضرور بھگتنا پڑے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسمبلی انتخابات کے بعد ہی سے سیکولر حکومت کے قیام کو روکنے کے لئے بی جے پی کی کوششیں چل رہی ہیں، انتخابی نتائج کے بعد گورنر کے ذریعے حکومت تشکیل بھی دے دی گئی اور سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد کرناٹک میں سیکولر حکومت کا قیام ممکن ہوسکا تھا۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ بی جے پی پیسے اور طاقت کے بل پر جمہوریت کو خریدنا چاہتی ہے۔ بہار کی مثال دیتے ہوئے انہوں ے کہا کہ وہاں کے عوام اب بی جے پی سے زیادہ نتیش کمار سے نفرت کررہے ہیں، جنہوں نے انتخابات سے قبل بی جے پی کو اقتدار سے دور رکھنے کا وعدہ کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اب عوام مودی سے سوال کررہے ہیں کہ 15 لاکھ روپئے ان کی بینک کھاتوں میں کب جمع ہوں گے۔ روزگار کا کیا ہوا، اور کسانوں کے مسائل کس حد تک حل ہوئے۔ عنقریب ہونے والے لوک سبھا انتخابات ملک دشمنی او ر حب الوطنی کی بنیاد پر ہوں گے، اب تک کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ حکومت کی مخالفت کرنے والوں کو ملک کا غدار قرار دیا گیاہو۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی اور مودی کے خلاف مہم چلائیں گے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے واضح کیا کہ انہیں بی جے پی سے نفرت نہیں ہے، بلکہ بی جے پی کو جمہوریت سے نفرت ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز سینٹ جوزف کالج میں انہوں نے ’’جمہوریت کے تحفظ میں نوجوانوں کے رول‘‘ کے موضوع پر خصو صی لکچر دیا۔

جس میں پہلی مرتبہ ووٹ دینے والوں کی اکثریت نے شرکت کی، اور انہوں نے محسوس کیا کہ نوجوانوں میں بیداری کے ساتھ سیاسی شعور بھی بیدار ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مودی حکومت نے اپنی ناکامیوں کے ذریعے ملک کے عوام کو بیدار کرنے کا کام کیا ہے، اور نوجوانوں میں موجود عزم و حوصلہ دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ اب فرقہ پرست طاقتوں کے منصوبے کامیاب نہیں ہوں گے۔ اعلیٰ ذات کے غرباء کو دس فیصد ریزرویشن دینے کے فیصلے کو غیر دستوری قرار دیتے ہوئے عمر خالد نے کہا کہ ریزرویشن غریبی ہٹاؤ مہم کا حصہ نہیں بلکہ سماجی انصاف کا معاملہ ہے۔ ریزرویشن کا مطلب عدم مساوات کے شکار طبقات کو جو روزگار، تعلیم اور دیگر شعبوں سے محروم ہیں۔ سماجی انصاف فراہم کرنا ہے، اب اعلیٰ طبقوں کو مراعات فراہم کرکے ریزرویشن کے مقاصد کو ہی تبدیل کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ جبکہ بی جے پی ہمیشہ ریزرویشن مخالف رہی ہے، اور ریزرویشن نظام کو ختم کرنا ہی اس کا مقصد تھا، اب بی جے پی حکومت کا عدم مساوات کی جگہ معاشی بنیادوں پر ریزرویشن فراہم کرنا غیر دستوری عمل ہے۔ انہوں نے دلائل کے ساتھ بتایا کہ گزشتہ تین سالوں سے جے ین یو میں ریزرویشن کے تحت داخلے نہیں ہوئے ہیں، اور یہ حکومت تعلیمی اداروں کو بند کررہی ہے۔ روزگار کے مواقع محدود ہوچکے ہیں، ایسے میں اعلیٰ ذات کے غریبوں کو ریزرویشن فراہم کرنے کا فیصلہ سیاسی شعبدہ ہے، تاکہ ووٹ بینک کو محفوظ رکھا جائے، خود بی جے پی کو معلوم ہے کہ ریزرویشن کے معاملے پر اسے قانونی جنگ میں شکست ہوگی، اس کے باوجود وہ یہ ثابت کرنا چاہتی ہے کہ اس نے پوری کوشش کی تھیں، مگر مخالفین نے انہیں کامیاب ہونے نہیں دیا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اگر حقیقی معنوں میں سماجی انصاف فراہم کرنا ہوتو ونگناتھ مشرا کمیٹی کی سفارش کے مطابق اقلیتوں کو پندرہ فیصد ریزرویشن دیا جائے، جس میں دس فیصد مسلمانوں کے لئے مختص ہو،اور جسٹس راجیندرا سچر کمیٹی سفارشات پر عمل کیا جائے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ سچر کمیٹی رپورٹ سے یہ ثابت ہوگیا کہ کسی بھی سیاسی جماعت نے دیانتداری کے ساتھ مسلمانوں کی فلاح کے لئے کام نہیں کیا ہے۔ جناب عمر خالد نے کہا کہ لوک سبھا انتخابات عوام کے درداور بی جے پی کے غرور کے درمیان ہوں گے۔ بی جے پی کے دور میں سی بی آئی، آر بی آئی،

جیسے دستوری اداروں کے علاوہ عدلیہ کا بھی غلط استعمال ہورہا ہے، اور دستوری اداروں کو ختم کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ کا نعرہ لگانے والی بی جے پی کے دور میں غنڈوں کا ساتھ اور صنعت کاروں کا وکاس ہوا ہے۔ ایسے میں ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ فرقہ پرستوں کو اقتدار سے دور رکھنے کی کوشش کریں، اگر مودی کو دوسری مرتبہ اقتدار مل گیا تو ملک کے حالات مزید بدتر شکل اختیار کرلیں گے، اور ملک کا دستور تباہ و برباد ہوجائے گا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے واضح کیا کہ ان کا کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں ہے، اور اس مرتبہ وہ ایسے امیدواروں کی حمایت کریں گے جو بی جے پی کو شکست دے سکیں۔ ان کے مطابق مودی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف گزشتہ چار سال سے نوجوان بار بار سڑکوں پر اترے ہیں اور حکومت کے خلاف آواز بلند کی ہے، اگر کل کوئی دوسری حکومت بھی قائم ہوجائے، اور وہ بھی عوام مخالف پالیسیاں اختیار کرے تو نوجوان تب بھی خاموش نہیں بیٹھے گا۔ انہوں نے کہا کہ مودی حکومت کے خلاف کسان، نوجوان، خواتین اور عوام چارج شیٹ تیار کررہے ہیں، اور لوک سبھا انتخابات میں اسے دائر کریں گے۔ جناب عمر خالد نے کہا کہ ملک کی تاریخ میں گزشتہ ساڑھے چار سالوں سے جس طرح منافرت کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ اس سے ہر کوئی خوف میں مبتلا ہے۔ بالخصوص مسلمانوں میں احساس عدم تحفظ پیدا ہوگیا ہے۔ اب مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ بھی دلتور کی طرح اپنے حقوق کے لئے تحریک چلائیں۔ روٹی،کپڑا اور مکان کے مسائل اٹھائیں، سچر کمیٹی اور رنگناتھ مشرا کمیٹی سفارشات کے نفاذ کا مطالبہ کریں، اور قومی سطح پر تشکیل شدہ سکیولر اتحاد کے روبرو ابھی سے اپنے مسائل پیش کریں اور مسلمانوں کے تئیں اسے جوابدہ بنانے کی کوشش کریں۔