پاکستان سمیت سلامتی کونسل کے 13 ارکان نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا ، روس اور چین کی غیر حاضری
اقوامِ متحدہ، 18 نومبر (یو این آئی) اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل رائے شماری کے ذریعے امریکہ کی تیار کردہ اُس قرارداد کو منظور کرلیا جس میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ جنگ بندی منصوبے کی توثیق کی گئی ہے اور فلسطینی علاقے کے لیے ایک بین الاقوامی استحکام فورس کی اجازت دی گئی ہے ۔ گزشتہ ماہ اسرائیل اور حماس ٹرمپ کے 20 نکاتی منصوبے کے پہلے مرحلے پر متفق ہو گئے تھے ، لیکن اقوامِ متحدہ کی یہ قرارداد ایک عبوری انتظامی ادارے کو جائز حیثیت دینے اور ان ممالک کو یقین دلانے کے لیے اہم سمجھی جا رہی ہے جو غزہ میں اپنے فوجی بھیجنے پر غور کر رہے ہیں۔ پاکستان سمیت سلامتی کونسل کے 13 ارکان نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا، جبکہ روس اور چین نے غیر حاضری اختیار کی، جو قابلِ ذکر بات ہے کیونکہ اس سے قبل اشارے مل رہے تھے کہ ماسکو شاید اس متن کو ویٹو کر دے گا۔ قرارداد کے متن میں کہا گیا ہے کہ رکن ممالک ‘بورڈ آف پیس’ میں حصہ لے سکتے ہیں، جو ایک عبوری اتھارٹی کے طور پر تصور کیا گیا ہے جو غزہ کی تعمیرِ نو اور معاشی بحالی کی نگرانی کرے گی۔ اس میں بین الاقوامی استحکام فورس (آئی ایس ایف) کے قیام کی بھی منظوری دی گئی ہے ، جس کا مقصد غزہ کو غیر عسکری بنانا ہے ، جس میں ہتھیاروں کو جمع کرنا اور عسکری ڈھانچے کو تباہ کرنا شامل ہے ۔ ٹرمپ کا 20 نکاتی منصوبہ قرارداد کے ساتھ ایک ضمیمے کی صورت میں شامل ہے ۔ سلامتی کونسل میں ویٹو کا اختیار رکھنے والے روس نے پہلے قرارداد کی مخالفت کے اشارے دیے تھے ، لیکن ووٹنگ کے دوران غیر حاضر رہ کر اس کی منظوری ممکن بنا دی۔ ووٹنگ کے بعد امریکہ کے سفیر مائیک والز نے سلامتی کونسل کے ارکان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس فیصلے کو ‘تاریخی اور تعمیری قرارداد’ قرار دیا، جو خطے کے لیے ایک نیا راستہ طے کرتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ‘ہم آپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ آپ اس کوشش میں ہمارے ساتھ شامل ہوئے ، جس کا مقصد مشرقِ وسطیٰ، اسرائیلیوں اور فلسطینیوں، اور پورے خطے کے لوگوں کے لیے ایک نیا راستہ متعین کرنا ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس قرارداد کی منظوری پُرامن اور خوشحال غزہ اور اسرائیل کو محفوظ زندگی گزارنے کا ماحول فراہم کرنے کی جانب ایک اور اہم قدم ہے ۔ انہوں نے زور دیا کہ آئی ایس ایف اور نئے سرمایہ کاری کے طریقہ کار ایک ساتھ کام کریں گے ، اولذکر کا مقصد خطے کو حماس کے اثر سے آزاد کرنا ہے ، اور موخر الذکر کا مقصد غزہ کی تعمیرِ نو اور ترقی کو یقینی بنانا ہے ۔ تاہم، حماس نے اس قرارداد کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ فلسطینیوں کے حقوق اور مطالبات پوری نہیں کرتی اور غزہ پر ایک بین الاقوامی سرپرستی مسلط کرنے کی کوشش ہے ، جسے فلسطینی عوام اور مزاحمتی دھڑے قبول نہیں کرتے ۔ حماس نے مزید کہا کہ ‘بین الاقوامی فورس کو غزہ کے اندر دیے گئے کام، جن میں مزاحمت کو غیر مسلح کرنا بھی شامل ہے ، اس کی غیر جانبداری کو ختم کر دیتے ہیں اور اسے تنازع کا حصہ بنا دیتے ہیں، جو بالآخر قبضے کے حق میں جاتا ہے ۔غزہ کی پٹی دو سالہ لڑائی کے بعد تقریباً کھنڈر بن چکی ہے ، جو 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد شروع ہوئی تھی۔ قرارداد کے متن میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ‘اب شاید وہ حالات پیدا ہو گئے ہیں’ جن کے تحت فلسطینیوں کے حقِ خود ارادیت اور ریاستی درجہ کے لیے ایک قابلِ اعتبار راستہ ہموار ہوسکتا ہے ، لیکن یہ اس وقت ممکن ہوگا جب فلسطینی اتھارٹی اصلاحاتی پروگرام مکمل کرے اور غزہ کی تعمیرِ نو میں پیش رفت ہو۔ اس امکان کو اسرائیل پہلے ہی صاف طور پر رد کر چکا ہے ۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے اتوار کو کابینہ کے اجلاس میں کہا کہ ‘ہمارا کسی بھی علاقے میں فلسطینی ریاست کے قیام کی مخالفت کا موقف تبدیل نہیں ہوا۔