انقرہ ۔ 31 اکٹوبر (ایجنسیز) ترک صدر طیب اردغان نے غزہ میں اسرائیل کے ہاتھوں جاری نسل کشی پر جرمنی کی طرف سے خاموشی پر کڑی تنقید کی ہے۔ اہم بات یہ ہیکہ طیب اردغان کی یہ تنقید اس وقت سامنے آئی جب ان کے ملک کا سرکاری دورہ کرنے آئے ہوئے جرمن چانسلر فیڈرک میرز اور وہ مشترکہ پریس کانفرنس کر رہے تھے دونوں نیٹو رکن ملکوں کے درمیان پریس کانفرنس کے دوران ہی غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی اور اسرائیلی بمباری پر کھلا اختلاف سامنے آگیا۔طیب اردغان کی طرف سے تنقید سے پہلے جرمن چانسلر نے کہا کہ وہ 7 اکتوبر 2023 سے اس وقت سے اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں جب حماس نے اسرائیل پر حملہ کیا تھا اور وہ سمجھتے ہیں کہ اسرائیل جوابا اپنا حق دفاع استعمال کر رہا ہے۔جرمن رہنما نے مزید کہا کہ ان غیر ضروری اور بے شمار ہلاکتوں سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ حماس اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرے اور خود کو مکمل غیر مسلح کرے۔ چانسلر کو یہ بھی امید ہیکہ جنگ آنے والے دنوں میں ختم ہوجائے گی۔اس پر طیب اردغان نے کہا کہ اسرائیل نسل کشی کے ذریعے فلسطینیوں کو دبانا چاہتا ہے۔اردغان جو غزہ میں اسرائیلی جنگ کے بہت بڑے ناقد ہیں۔ انہوں نے حالیہ جنگ بندی کیلئے ہونے والے مذاکرات میں غیر معمولی کردار ادا کیا ہے۔ تاہم وہ واضح طور پر کہہ رہے تھے کہ ان کا جرمن چانسلر سے غزہ جنگ کے بارے میں اتفاق نہیں ہے۔ طیب اردغان نے اپنا مؤقف جاری رکھتے ہوئے کہا حماس کے پاس بم نہیں ہیں اور نہ ہی نیوکلیئر ہتھیار ہیں جن سب کو غزہ میں اسرائیل استعمال کر چکا ہے۔ حتیٰ کہ پچھلی رات بھی اسرائیل نے غزہ پر بمباری کی ہے۔ کیا آپ جرمن ریاست کو یہ سب کچھ نظر نہیں آرہا۔ کیا آپ اس کو دیکھ نہیں رہے ہیں کہ اسرائیل اب بھی غزہ میں حملے کر رہا ہے۔ کیا آپ دیکھ نہیں رہے کہ اسرائیل انسانی ساختہ قحط کے ذریعہ بھی فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک انکوائری میں یہ ثابت کیا جا چکا ہے کہ اسرائیل غزہ میں نسل کشی کا ارتکاب کر رہا ہے۔
مسلسل قتل عام جاری ہے۔
زیر محاصرہ غزہ کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ فلسطینیوں کی غزہ میں زندگی موت کے مترادف ہے۔ حتیٰ کہ اس بارے میں کئی اسرائیلی اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے ادارے بھی یہی رائے رکھتے ہیں جو اقوام متحدہ کی رپورٹ میں سامنے آتی ہیں۔ دوسری طرف اسرائیل نسل کشی کی اس حقیقت کا انکار کرتا ہے۔ جرمن چانسلر نے جوابا کہا کہ انہوں نے کچھ عرصہ پہلے نسل کشی کے الزامات سامنے آنے کے بعد اسرائیل کی حمایت میں کمی کر دی تھی۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس کے بعد یہود دشمنی کے واقعات نہیں ہونے چاہییں۔ بعد ازاں طیب اردغان نے کہا وہ اب بھی سمجھتے ہیں کہ جرمنی اور ترکیہ دونوں مل کر کام کر سکتے ہیں قحط کے خاتمے کیلئے بھی اور امداد پہنچانے کیلئے بھی۔