رام پنیانی
حماس نے 7 اکٹوبر کو پاگل پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسرائیل پر حملہ کیا ( تقریباً 75 برسوں سے اسرائیل نے غزہ کو ایک کھلی جیل میں تبدیل کردیا اور بار بار فلسطینیوں کی نسل کشی کرتا رہا ہے۔ ان حالات میں حماس کیا کرے گی اس کا جواب خود اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹوینو گوٹیرس نے دیا ہے ) حماس کے حملوں کے بعد جس میں تقریباً 1200 اسرائیلی مارے گئے اور 240 سے زائد یرغمال بنائے گئے صیہونی ریاست اسرائیل نے انسانیت کے خلاف سنگین جرائم کا ارتکاب کرتے ہوئے غزہ پر مسلسل فضائی حملے کئے بموں اور مزائیلوں کی بارش کی۔ حد تو یہ ہے کہ فلسطینی اسپتالوں، رہائشی علاقوں، پناہ گزین کیمپوں اور اسکولوں کو چُن چُن کر نشانہ بنایا نتیجہ میں تاحال زائد از 14300 فلسطینی جاں بحق ہوئے جن میں ایک بڑی تعداد بچوں کی ہے۔ جیسے ہی جنگ شروع ہوئی یعنی 7 اکٹوبر کو اسرائیل پر حماس کا حملہ ہوا، انڈیا فوری اسرائیل کی تائید وحمایت میں کود پڑا۔اسی طرح جس طرح مغربی طاقتوں نے اسرائیل کی تائید وحمایت شروع کی۔ ساری دنیا نے دیکھا کہ کس طرح امریکہ اور برطانیہ کے رہنما دوڑے دوڑے اسرائیل پہنچے اور صیہونی ریاست کی بھرپور تائید کی۔ مغربی طاقتوں کی جانبداری، تعصب اور فلسطینیوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اقوام متحدہ میں جب جنگ بندی کیلئے قرارداد پیش کی گئی بعض مغربی طاقتوں نے اس کی شدید مخالفت کی جبکہ شرم کی بات یہ ہے کہ انڈیا نے غیر حاضر ہوکر بالواسطہ طور پر اسرائیل کی تائید اور فلسطینیوں کی مخالفت کی۔ہاں! یہ سچ ہے کہ انڈیا نے فلسطینیوں کو علامتی طور پر انسانی امداد روانہ کی۔
دوسری طرف ہمارے ملک میں کئی کالم نگاروں نے اسرائیل۔ فلسطن میں جاری خوفناک رجحان پر ڈھیر سارے تبصرے کئے اوراکثر کالم نگاروں نے اس المیہ کیلئے حماس کو ذمہ دار قرار دیا۔ کئی کالم نگاروں نے تو حماس کو ایک جہادی دہشت گردانہ تنظیم قرار دیا اور بڑی بے شرمی کے ساتھ اسرائیل کی یہ کہتے ہوئے تائید و حمایت کی کہ دہشت گردی کے تئیں صفر برداشت کی پالیسی اپنائی جانی چاہیئے حالانکہ دہشت گردی کا ارتکاب کون کرتا ہے اور کررہا ہے وہ اس بارے میں اچھی طرح جانتے ہیں۔ ہمارے ملک میں حسب توقع گودی میڈیا نے جو مودی حکومت کے ہر حکم پر سر جھکانے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتا ہے مظلوم و نہتے فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی کارروائیوں کا نہ صرف خیرمقدم کیا بلکہ اس کی تعریف و ستائش کی۔ ساتھ ہی حماس کی مذمت کے معاملہ میں خود کو سب سے آگے رکھا اور اسے دہشت گرد قرار دینے میں ذرہ برابر تامل نہیں کیا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انڈیا میں جہاں اسرائیل کی حمایت میں گودی میڈیا نے تمام اخلاقی حدود پھلانگ دیئے وہیں مختلف مقامات پر فلسطینیوں کے حق میں احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے لیکن فلسطینیوں پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف احتجاجی مظاہروں کی دہلی اور یو پی یہاں تک کہ اپوزیشن کی زیر اقتدار ریاست کرناٹک کے بنگلورو اور مغربی بنگال کے کولکتہ میں پولیس نے اجازت نہیں دی۔
جہاں تک اُتر پردیش کا سوال ہے چیف منسٹر یوگی آدتیہ ناتھ نے پولیس والوں سے کہا کہ اسرائیل۔ حماس جنگ میں حکومت ہند کا جو سرکاری موقف ہے اس کی مخالفت کی کوئی اجازت نہیں ہوگی، کسی احتجاجی مظاہرے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس کے برخلاف مغربی دنیا کی حکومتوں نے اگرچہ اسرئیل کی حمایت کی ہے لیکن ان ملکوں میں عوام‘ فلسطین اور فلسطینیوں کی حمایت میں زبردست احتجاجی مظاہرے کررہے ہیں ، ایسا لگ رہا ہے کہ ان ملکوں میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف احتجاجی مظاہروں کی ایک لہر چل پڑی ہے اور دلچسپی اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اُن احتجاجی مظاہروں میں بے شمار یہودی بھی بڑھ چڑھ کرحصہ لے رہے ہیں۔اگر آپ ہمارے ملک کی سوشل میڈیا کا جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ انڈین سوشل میڈیا حماس کے حملہ کی پوری شدت کے ساتھ مخالف کررہا ہے اور اسرائیل کو حماس کے ظلم کا شکار اور متاثرہ کے طور پر پیش کرنے میںکوئی کسر باقی نہیں رکھ رہا ہے۔ 7 اکٹوبر کو حماس نے اسرائیل پر اچانک حملے کئے تب سے سوشل میڈیا پر زیادہ سے زیادہ اسلامو فوبیا پوسٹس دیکھے جارہے ہیں۔ اس بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ بی جے پی آئی ٹی سل کی رہنمائی میں اکثر اس قسم کے نازیبا اور تکلیف دہ پوسٹس دیکھنے میں آرہے ہیں۔ یہ سوشل میڈیا فلسطینی کاز کو اسلام پسندوں کے کاز کے طور پر پیش کررہا ہے اور کھلے طور پر یہ کہہ رہا ہے کہ ہمیں اسرائیل کی تائید و حمایت کرنا ضروری ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ انڈین سوشل میڈیا کی ان حرکتوں سے ملک میں پہلے ہی سے موجود اسلامو فوبیا میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔ یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ غزہ کے مکینوں کے خلاف اسرائیل کی جنگ اور اس کے مظالم کی مذمت کرنے کی بجائے انڈین سوشل میڈیا اسے مذہبی رنگ دینے میں مصروف ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کی مسلسل بمباری اور فضائی حملوں میں ہزاروں کی تعداد میں فلسطینی اپنی زندگیوں سے محروم ہوچکے ہیں، 30 ہزار سے زائد زخمی ہیں۔ مہلوکین اور زخمیوں میں فلسطینی بچوں کی اکثریت ہے۔
اگر آپ اسرائیل ۔ فلسطین جنگ کے آغاز سے اب تک جتنے بھی خطرناک اسلاموفوبیا پوسٹس کا جائزہ لیں گے تو باآسانی پتہ چل جائے گا کہ سب سے زیادہ رکیک پوسٹس انڈیا سے آئے اِن پوسٹوں میں فلسطینیوں کو حماس کے برابر قرار دیا جارہا ہے ساتھ ہی حماس کو ایک دہشت گرد جہادی تنظیم کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔حال ہی میں آئی آئی ٹی ممبئی میں ہیومانٹیز ڈپارٹمنٹ کے ایک فیکلٹی ممبر نے کلاس میں فلسطین اور اسرائیل کی تاریخ کے علاوہ حماس کے قیام پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ اسی شعبہ سے وابستہ سدھاتوا دیشپانڈے نے جو جن ناٹیہ منچ کے تہذیبی و ثقافتی ورکر ہیں ایک دستاویزی فلم دکھائی جس میں فلسطین میں اسرائیلی قبضہ کے خلاف مزاحمت پر روشنی ڈالی گئی تھی۔’’ٹائمس آف انڈیا ‘‘ کی اشاعت (مورخہ 12 نومبر 2023 ) کے مطابق آر ایس ایس کی حمایت یافتہ ویویک وچار منچ نے اس کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے فیکلٹی ممبرس کی معطلی کا مطالبہ کیا۔ وی وی ایم سے وابستہ طلبہ نے آئی آئی ٹی ممبئی کیمپس کے باہر کے لوگوں کے ساتھ ملکر ایک احتجاجی جلوس بھی نکالا جس میں’’ گولی مارو ‘‘ جیسے نعرے بھی لگائے۔ ان لوگوں نے فیکلٹی ممبر اور دیشپانڈے کے خلاف دہشت گردوں کی تعریف و ستائش کرنے کے الزامات عائد کرتے ہوئے مرکز ایجنسیوں کے ذریعہ اس سارے واقعہ کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ اگر ہم اس واقعہ پر غور کریں تو آزادی تعلیم پر سوال اُٹھنے کے ساتھ ساتھ کئی اور سوالات بھی پیدا ہوتے ہیں جن میں ایک سوال یہ بھی ہے کہ اسرائیلی قبضہ اور فلسطینی مزاحمت کو کیسے دیکھا جارہا ہے؟ یقینا یہ دلوں کو چھولینے والا معاملہ ہے کہ انڈیا نے غزہ میں یہودی بستیاں بسانے سے متعلق اسرائیل کے خلاف اقوام متحدہ کی قرارداد کے حق میں ووٹ دیا۔ چنانچہ غزہ پر اسرائیل کی موجودہ جارحیت و مظالم کو اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیئے۔ اس ضمن میں اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹوینو گوٹیرس نے بہت خوب کہا کہ حماس یوں ہی وجود میں نہیں آئی۔
دوسری طرف شہرۂ آفاق دانشورو مصنف نوم چومسکی نے اسرائیل کے غزہ پر حملوں کے بارے میں کچھ یوں لکھا:غزہ میں ایک ضعیف العمر شخص اپنے ہاتھوں میں ایک پلے کارڈ تھاما ہوا تھا جس پر لکھا تھا ’’ تم نے مجھ سے پانی چھین لیا ، میرے زیتون کے درختوں کو آگ لگادی، میرے گھر کو تباہ و برباد کردیا، مجھ سے میرا روزگار چھین لیا ، میری زمین ہڑپ لی، میرے باپ کو قید کردیا، میری ماں کا قتل کیا، میرے وطن عزیز ارض مقدس پر بمباری کی ، ہم تمام کو بھوک سے نڈھال کردیا، ہماری توہین و تضحیک کی لیکن اس سب کیلئے مجھے ہی ذمہ دار قرار دیا جارہا ہے‘‘۔ واضح رہے کہ اسرائیل نے غزہ کا گذشتہ 16 برسوں سے محاصرہ کر رکھا ہے جبکہ مغربی کنارہ اورغزہ پر56 برسوں تک اس کا قبضہ رہا ہے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ 1948 سے پہلے یہودی فسلطین میں آکر آباد ہوئے اور پھر مغربی طاقتوں کی سازش کے باعث فلسطینیوں کو ان کی اپنی ارض مقدس سے بیدخل کیا گیا، انہیں ان کے گھروں سے نکالا گیا، ملک سے نکالا گیا پھر ارض مقدس فلسطین پر اسرائیل کا قیام عمل میں لایا گیا ، تب سے اب تک فلسطینیوں کی مزاحمت مختلف مراحل سے گذرتی رہی۔1972 میں میونخ اولمپکس میں اسرائیلی اتھیلیٹس کے قتل کا واقعہ پیش آیا جسے بلیک ستمبر بھی کہا جاتا ہے۔ یہ واقعہ 14 لاکھ فلسطینیوں کو ان کی اپنی سرزمین سے نکالے جانے کے بعد پیش آیا۔ یاسر عرفات نے پُرامن انداز میں آزاد فلسطین کی تحریک چلائی جو صرف اور صرف مغربی طاقتوں کی توہین آمیز شرائط عائد کرنے کی کوششوں کے نتیجہ میں ناکام ہوگئی۔ اگر دیکھا جائے تو حماس فلسطینیوں کی پسند نہیں ہے لیکن فلسطینیوں کو جمہوری انداز میں مزاحمت سے کیا ملا ؟ کچھ بھی تو نہیں بلکہ اسرائیل نے غزہ کو کھلی یا اوپن جیل میں تبدیل کردیا۔
اسرائیل کے بارے میں صرف اتنا کہنا بھی کافی ہے کہ امن و انصاف کیلئے اقوام متحدہ میں جتنی قراردادیں پیش کی گئیں اور منظور کی گئیں اس نے ان تمام کی خلاف ورزیوں کا ارتکاب کیا اور اب اس کی ساری نظریں غزہ میں ساحل سے دور قدرتی گیس کے ذخائر پر مرکوز ہیں اور گیس کے ان ذخائر کی مالیت 64 ارب ڈالرس ہے۔ ویسے بھی اسرائیل نے امریکہ اور یوروپی کمپنیوں سے توانائی ( اِنرجی ) برآمد کندہ بننے کیلئے معاہدات کئے ہیں لیکن انڈیا میں حماس کا جہادی دہشت گردی سے جس طرح موازنہ یا تقابل کیا جارہا ہے وہ القاعدہ، طالبان اور آئی ایس کو اسلامی جہادی دہشت گردی کی نمائندگی کرنے والی تنظیمیں کہا جاتا ہے جو حالیہ تاریخ کا سب سے بڑا جھوٹ ہے۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ امریکہ نے بنیاد پرست گروپوں کو فروغ دیا۔ پاکستان کے مدرسوں میں نوجوانوں کو تربیت دی، اسلحہ سے لیس کیا۔ ہلاری کلنٹن اپنی کتاب میں اس کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ ’’ ہم نے مجاہدین کو افغانستان میں روس سے مقابلہ کیلئے تربیت دی۔‘‘