’غزہ ہمارا ہے‘ آباد کاروں کا غزہ پر دوبارہ قبضہ کا نعرہ

,

   

غزہ : غزہ کی پٹی پر جنگ آج اپنے 84ویں دن میں داخل ہو گئی ہے۔ دوسری طرف اسرائیل کے آباد کار ایک بار پھر غزہ کی پٹی پرقبضے اور وہاں پر دوبارہ آباد کاری کا خواب دیکھ کر اس کے لیے نعرے بھی لگا رہے ہیں۔ ویسے تو اسرائیلی آباد کاروں نے فلسطینیوں سے نفرت اور فلسطین پر قبضے کے کئی نعرے مشہور ہیں مگرایک نیا نعرہ آج کل اس جنگ کے ساتھ ساتھ سامنے آیا ہے۔اسرائیلی آباد کاروں نے یروشلم کے گوش کتیف میوزیم میں “غزہ ہمارا ہے” کے عنوان سے ایک نمائش کا انعقاد کیا۔نمائش میں ان 25 اسرائیلی بستیوں کی تصاویر اور باقیات شامل ہیں جنہیں 2005 میں غزہ کی پٹی سے الاقصیٰ انتفاضہ کے بعد ہٹا دیا گیا تھا۔ نمائش میں نوادرات اور ٹی شرٹس جن پر ’’ہم گھر جا رہے ہیں‘‘ فروخت ہورہے ہیں۔ میوزیم کا نام جس میں یہ نمائش منعقد کی گئی تھی ایک سیٹلمنٹ بلاک کے نام سے رکھا گیا جو 2005ء سے پہلے غزہ میں ایک کالونی تھی۔عبرانی اخبار ’یدیعوت احرونوت‘ کی طرف سے کرائے گئے تازہ ترین رائے عامہ کے جائزے سے ظاہر ہوتا ہے کہ 44 فیصد اسرائیلی غزہ میں آباد کاری اور غزہ میں رہنے کی حمایت کرتے ہیں۔ تاہم اسرائیلی حکومت نے ابھی تک غزہ کے مستقبل کے بارے میں واضح طور پر کوئی بات نہیں کی ہے۔
غزہ جنگ پر مذاکرات: حماس کا اعلیٰ وفد قاہرہ پہنچ گیا
قاہرہ : حماس کا اعلیٰ سطح کا وفد آج دوبارہ مصر پہنچ گیا تاکہ غزہ میں جنگ بندی، اسرائیلی فوج کے انخلا اور یرغمالیوں کے ساتھ ساتھ فلسطینی اسیران کی رہائیوں کے لیے پیش کردہ مصری تجاویز پر اپنے مؤقف کا اظہار کرسکیں۔قطر کے دارالحکومت دوحہ میں قائم اپنے سیاسی دفتر سے حماس قائدین کا یہ وفد باہمی تبادلہ خیال کے بعد قاہرہ پہنچا ۔ اس سے پہلے بھی حماس کی اعلیٰ ترین قیادت نے پچھلے ہفتے قاہرہ کا دورہ کیا ہے اور مصری حکام کے ساتھ غزہ کی صورتحال اور مستقبل کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا ہے۔
مصر کے حکام نے حماس کے علاوہ اسلامی جہاد کی قیادت کو بھی اپنی تجاوز کے سلسلے میں اعتماد میں لینے کی کوشش کی۔ تاہم جمعرات کے روز مصر کے اسٹیٹ انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ دیا راشون کا کہنا تھا کہ ابھی تک کسی فریق نے مصری تجاویز کا جواب نہیں دیا ہے۔راشون نے یہ بھی کہا تھا کہ جب تک مصر کی تجاویز کے بارے میں متعلقہ فریقوں کی طرف سے باضابطہ جواب نہیں آجاتا۔ ان تجاویز کو منظر عام پر نہیں لایا جائے گا۔تاہم مصری دفاعی حکام کے ذرائع سے یہ چیزیں کسی حد تک سامنے آئی ہیں۔ دیا راشون کے مطابق مصر کی طرف سے پیش کردہ یہ تجاویز بنیادی طور پرغزہ میں خونریزی رکوانے، جارحیت کی روک تھام اور خطے میں امن و استحکام کے مقاصد کے لیے ہے۔ اس کے لیے تمام متعلقین کے نقطہ نظر کو سمجھا اور سنا جائے گا۔ تاکہ ایک دوسرے کے قریب آسکیں۔