غلام نبی آزاد سے بی جے پی کو فائدہ !

   

عمر مقبول
کانگریس کے سینئر لیڈر غلام نبی آزاد نے بالآخر اپنی پارٹی کو خیرباد کہہ دیا ہے، نہ صرف انہوں نے کانگریس سے استعفیٰ دیا بلکہ نئی پارٹی قائم کرنے کا اعلان بھی کردیا۔ بے شمار کانگریس قائدین نے ان کی تائید و حمایت کا عہد کیا ہے جبکہ سیاسی مبصرین اور تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ آزاد کی مجوزہ پارٹی جموں و کشمیر میں ایک بڑی سیاسی طاقت بن کر ابھرے گی یا نہیں لیکن ایک بات تو ضرور ہے کہ اگر غلام نبی آزاد اپنی سیاسی جماعت قائم کرتے ہیں تو کانگریس پر اس کا یقینا منفی اثر مرتب ہوگا۔
ویسے بھی غلام نبی آزاد جنہوں نے جمعہ 26 اگست کو کانگریس سے استعفیٰ دیا، نئی پارٹی قائم کرنے بالکل تیار ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ ان کی نظریں جموں و کشمیر اسمبلی انتخابات پر مرکوز ہیں۔ یہ انتخابات آئندہ سال کے اوائل میں ہوں گے، تاہم غلام نبی آزاد نے تاحال یہ واضح نہیں کیا کہ ان کی پارٹی علاقائی ہوگی یا کل ہند سطح پر قائم کی جائے گی۔ غلام نبی آزاد نے جیسے ہی ملک کی قدیم ترین سیاسی جماعت کو خیرباد کہنے کا اعلان کیا۔ جموں و کشمیر میں کانگریس قائدین میں ہلچل پیدا ہوگئی، وہیں کانگریس ایک طرح سے دہل کر رہ گئی ہے جو اب عملاً عمودی طور پر تقسیم ہوگئی ہے۔ پارٹی میں ان کے جو وفادار ہیں، وہ مسلسل استعفے دیئے جارہے ہیں۔ ایسا لگتا رہا ہے کہ جموں و کشمیر کے کانگریسیوں میں استعفوں کی لہر چل پڑی ہے۔ غلام نبی آزاد کی جانب سے ایک نئی سیاسی جماعت کے آغاز کا منصوبہ ریاست میں کانگریس کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگا لیکن موجودہ حالات سے تو ایسا ہی لگتا ہے کہ اس کا سب سے زیادہ فائدہ بی جے پی کو ہوگا جو ایک ایسے چیف منسٹر کو ریاست میں اقتدار کی گدی پر بٹھانے کی بھرپور کوشش کررہی ہے جو ایک ہندو یا اکثریتی مسلم کمیونٹی سے تعلق رکھ سکتا ہے اور جو نریندر مودی حکومت کے اشاروں پر کام کرسکے۔ اس کی ہدایات پر عمل کرسکے۔ جہاں تک ریاست جموں و کشمیر میں غلام نبی آزاد کے سیاسی حریفوں کا سوال ہے، اس مرکزی زیرانتظام علاقہ میں وہ یہ دیکھ رہے ہیں کہ غلام نبی آزاد آگے کیا کرتے ہیں۔ اب تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ غلام نبی آزاد کی جانب سے قائم کی جانے والی سیاسی جماعت بڑی سیاسی طاقت بنے گی یا پھر جموں بالخصوص اس کے مسلم اکثریتی علاقوں جیسے پیرپنچل اور چناب کے علاقوں میں مخالف بی جے پی ووٹ تقسیم کرے گی۔
ایک بڑی سیاسی طاقت یا ووٹ کٹوا؟
غلام نبی آزاد کو کانگریس نے بہت کچھ دیا، انہیں پہچان، شہرت، عزت، دولت، سب کچھ دلائی، یہاں تک کہ آزاد ، کانگریس بالخصوص گاندھی خاندان کی مہربانی سے ریاست کے چیف منسٹر بھی بنائے گئے اور انہوں نے 2005ء اور 2008ء کے درمیان عہدہ چیف منسٹری پر خدمات انجام دیں۔ غلام نبی آزاد کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ تمام برادریوں میں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں اور ریاست میں تمام سیاسی جماعتوں میں یکساں مقبولیت رکھتے ہیں اور دوسری جماعتوں میں بھی ان کے دوستوں کی اچھی خاصی تعداد ہے تاہم ان کا جموں کے موچناب اور پیر پنچال علاقوں کے باہر زیادہ اثر و رسوخ نہیں ہے۔ ان خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے کہ غلام نبی آزاد کی نئی سیاسی جماعت پیر پنچال اور چناب علاقوں میں مخالف بی جے پی ووٹ تقسیم کرسکتی ہے جہاں اسمبلی انتخابات میں دائیں بازو کی بی جے پی چیلنجس کا سامنا کرسکتی ہے۔ جموں یونیورسٹی میں پالیٹیکل سائنس کی ایک سابق پروفیسر ریکھا چودھری نے ’’دی وائر‘‘ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ غلام نبی آزاد کی سیاسی جماعت جموں میں مخالف بی جے پی فورس کو کمزور کرے گی اور موجودہ صورتحال سے تو ایسا ہی لگ رہا ہے کہ علاقہ جموں میں بی جے پی کو فائدہ ہوگا کیونکہ نئی سیاسی پارٹی کانگریس ووٹ بینک کو متاثر کردے گی۔ ریکھا چودھری کے مطابق آزاد کی نئی پارٹی جموں کے حق میں کام کرے گی۔ ہاں بی جے پی کو صرف اسی وقت جموں میں کچھ چیلنج کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا اگر آزاد کانگریس میں ہی رہتے۔ اس سے اپنا رشتہ ناطہ نہ توڑتے۔ ریکھا چودھری مزید بتاتی ہیں کہ غلام آزاد کی پارٹی دودا پٹی میں اثر مرتب کرسکتی ہے۔ اسی طرح پونچھ ۔ راجوری اور جموں مین لینڈ کی چند نشستوں پر وہ اپنا اثر دکھا سکتی ہے۔ کشمیر میں اس کا زیادہ اثر نہیں پڑے گا کیونکہ وہاں پہلے ہی سے مضبوط و مستحکم علاقائی سیاسی جماعتیں موجود ہیں۔ سینئر صحافی اور سیاسی تجزیہ نگار ظفر چوہدری کے مطابق غلام نبی آزاد کی نئی سیاسی پارٹی میں جموں و کشمیر کی سیاست میں اہم حصہ دار کا کردار ادا کرسکتی ہے۔ ایک سیاسی لیڈر نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ آزاد کی سیاسی پارٹی کی کامیابی کا انحصار جموں و کشمیر میں کانگریس قائدین کے انحراف پر ہوگا۔ اگر وہاں کانگریس میں انحراف ہوگا، کانگریس قائدین سیاسی وفاداری تبدیل کریں گے، ساتھ ہی غلام نبی آزاد دوسری سیاسی جماعتوں کے قائدین کو اپنی پارٹی کی جانب راغب کریں گے تو پھر انہیں کچھ کامیابی مل سکتی ہے لیکن موجودہ مرحلہ میں کچھ کہنا یا کسی قسم کی پیش قیاسی کرنا مشکل ہے کہ ان کی پارٹی جموں و کشمیر انتخابات میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں؟ اگر آزاد دوسری جماعتوں کے سیاسی قائدین کو اپنی پارٹی میں لانے میں کامیاب ہوتے ہیں تو انہیں کامیابی مل سکتی ہے، غلام نبی آزاد کی تائید میں کانگریس سے استعفے دینے والے سلمان نظامی کے مطابق آزاد صاحب ایک قومی سطح کے لیڈر ہیں اور جموں و کشمیر کے دونوں علاقوں کیلئے قابل قبول ہیں۔ یہ پوچھے جانے پر کہ نئی سیاسی جماعت جموں میں مخالف بی جے پی ووٹ تقسیم کرے گی؟ نظامی نے بتایا کہ نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کا علاقہ میں کوئی اثر نہیں ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ نئی سیاسی جماعت اندرون ہفتہ قائم کردی جائے گی اور جلد ہی جموں و کشمیر کیلئے پارٹی یونٹ کے کنوینر کا اعلان کردیا جائے گا۔ (یہ سطور پڑھنے تک شاید پارٹی کنوینر کے نام کا اعلان بھی ہوچکا ہوگا)۔ غلام نبی آزاد نے ایک ایسے وقت اپنی علیحدہ پارٹی قائم کرنے کا اعلان کیا جب جموں و کشمیر میں پی اے جی ڈی میں اختلافات اُبھر کر سامنے آئے ہیں، یہ دراصل ان سیاسی جماعتوں کا ایک اتحاد ہے جو آرٹیکل 370 کی بحالی کی خواہاں ہیں۔ 24 اگست کو نیشنل کانفرنس نے اشارہ دیا کہ وہ جموں و کشمیر اسمبلی انتخابات کیلئے PAGD میں شامل جماعتوں سے اتحاد نہیں کرے گی۔ واضح رہے کہ دوسرے دن 25 اگست کو مرکزی وزیر داخلہ نے جموں و کشمیر میں سکیورٹی صورتحال کا جائزہ لینے اعلیٰ سطحی اجلاس طلب کیا اور ان کی صدارت میں اجلاس اپنے اختتام کو پہنچا۔ 26 اگست کو امیت شاہ نے دہلی میں جموں و کشمیر بی جے پی یونٹ کے اہم قائدین سے بات کی۔ ان تمام واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ ریاست میں آئندہ سال کے اوائل میں انتخابات ہوسکتے ہیں۔