رافیل معاہدہ پر ایک نئی خبر سامنےا ٓ رہی ہے جس سے مودی حکومت کی نیند اڑ سکتی ہے۔ منگل کو اس طرح کی خبریں منظر عام پر آئیں کہ فرانس حکومت نے رافیل بنانے والی کمپنی دسالٹ کے ساتھ 28 رافیل طیاروں کا معاہدہ کیا ہے۔ اس ڈیل کی کل قیمت 2.3 ارب یورو بتائی گئی ہے۔ رپورٹ کے سامنے آنے کے بعد ملک کی مودی حکومت پر رافیل طیارہ معاہدہ کو لے کر نئے سرے سے سوال اٹھنے شروع ہو گئے ہیں۔ مودی حکومت نے اسی کمپنی سے 36 رافیل طیارہ خریدنے کے لیے 7.8 ارب یورو کا سمجھوتہ کیا ہے۔ یعنی مودی حکومت کہیں زیادہ پیسے ’دسالٹ‘ کو دے رہی ہے۔ اس خبر کے سامنے آتے ہی سوشل میڈیا پر حکومت کی تنقید کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ لوگ پوچھ رہے ہیں کہ آخر حکومت نے کس طرح یہ معاہدہ کیا تھا۔
رافیل معاہدہ پر سپریم کورٹ میں عرضی داخل کرنے والے شہری حقوق کارکن اور سینئر وکیل پرشانت بھوشن نے اس خبر پر حیرانی ظاہر کی ہے۔ انھوں نے ایک ٹوئٹ کر کہا ہے کہ ’’فرانس حکومت نئے اور بہتر تکنیک والے 28 رافیل طیارے 2 ارب یورو میں خرید رہی ہے جب کہ اس کے برعکس مودی حکومت نے 36 طیارہ 7.8 ارب یورو میں خریدا ہے۔ یہ تو فرانس کے مقابلے فی طیارہ ڈھائی گنا زیادہ قیمت ہوئی۔ امبانی کو آفسیٹ ٹھیکہ دینے کے لیے ہم سے 30 ہزار کروڑ لوٹ لیے گئے۔‘‘
حالانکہ سپریم کورٹ نے رافیل معاہدہ کو چیلنج دینے والی عرضی کو خارج کر دیا تھا، لیکن اس معاہدہ پر تنازعہ جاری ہے اور اپوزیشن سیاسی پارٹی لگاتار مودی حکومت پر رافیل طیارہ کے لیے تین گنا زیادہ قیمت دینے کا الزام عائد کر رہی ہے۔ اپوزیشن پارٹیوں کا کہنا ہے کہ قبل میں جس قیمت پر معاہدہ کی بات طے ہو رہی تھی اس سے تین گنا زیادہ قیمت میں مودی حکومت رافیل خرید رہی ہے۔
کانگریس صدر راہل گاندھی نے بھی سابق وزیر دفاع اور گوا کے موجودہ وزیر اعلیٰ منوہر پاریکر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ پاریکر نے اپنی کابینہ کے ساتھیوں کو بتایا کہ رافیل معاہدہ سے جڑی سبھی اہم فائلیں ان کے پاس ان کے بیڈ روم میں رکھی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ پاریکر نے کہا کہ اسی بنیاد پر مرکزی حکومت انھیں وزیر اعلیٰ عہدہ سے ہٹانے کی ہمت نہیں دکھا سکتی۔ حالانکہ پاریکر بے حد بیمار ہیں۔
لیکن اس دوران بی جے پی اکثر کانگریس پر الزام عائد کرتی رہی ہے کہ اس نے ایک چھیڑ چھاڑ کیے ہوئے آڈیو ٹیپ کی بنیاد پر الزام لگائے ہیں۔ اس ٹیپ میں گوا کے وزیر وشوجیت رانے کہتے سنے گئے تھے کہ پاریکر نے رافیل کی فائلیں ان کے پاس ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ دلچسپ یہ ہے کہ اس معاملے میں نہ تو کوئی ایف آئی آر درج ہوئی اور نہ ہی کوئی جانچ شروع کی گئی جب کہ ایسے معاملوں میں فوراً ہتک عزتی جیسے مقدمے درج کرا دیے جاتے ہیں۔
ان سب کے درمیان اب یہ خبر آ گئی ہے کہ فرانس حکومت نے سستے میں رافیل خریدا ہے تو رافیل کے تنازعہ کی آگ نئے سرے سے بھڑکنے کے آثار ہیں۔ ڈیفنس نیوز ڈاٹ کام میں شائع خبر میں کہا گیا ہے کہ ’’فرانس حکومت نے آج دسالٹ ایوی ایشن کے ساتھ 2 ارب یورو میں معاہدہ کیا ہے۔ اس معاہدہ میں فرانس کو 28 رافیل طیارہ ملیں گے۔ حکومت نے ساتھ ہی کمپنی کو ان طیاروں کو ایپ-4 درجہ میں اَپ گریڈ کرنے کو کہا ہے جو کہ 2024 تک تیار ہو جائیں گے، لیکن کچھ اَپ گریڈیشن کیے ہوئے طیارے 2022 تک ملنے کے امکان ہیں۔‘‘
خبروں کے مطابق 28 رافیل ایپ-4 درجہ کا ہوگا اور فرانس کی فضائیہ کو 2023 تک ان کی سپلائی کر دی جائے گی۔ فرانس کی وزیر دفاع فلورنس پارلی نے اعلان کیا کہ ایف-4 درجہ کے 30 مزید رافیل طیارہ کا معاہدہ 2023 میں کیا جائے گا اور ان کی ڈلیوری 2027 سے 2030 کے درمیان ہوگی۔ ایف-4 درجہ کے طیارہ راڈار سنسر اور فرنٹ سیکٹر آپٹرونکس سے لیس ہوتے ہیں اور اس میں ہیلمٹ پر بہتر سہولیات ہوتی ہیں۔ اس طیارہ میں نئے اسلحے بھی استعمال ہو پائیں گے، جن میں ایم بی ڈی اے کی ہوا سے ہوا میں مار کرنے والی میکا میزائل، ہوا سے زمین پر مار کرنے والا 1000 کلو کا اے اے ایس ایم بھی ہوگا۔ اس کے علاوہ یہ طیارہ ٹیلیوس ملٹی فنکشن آپٹرونکس پاڈ کے ساتھ ہی اسکالپ میزائل سے بھی لیس ہوگا۔
What?!! The French govt is buying an improved version of the Rafales at 2 B Euro for 28 aircraft. As against this, Modi bought 36 Rafales for 7.87 B! That is > 2.5x/aircraft paid by France. We have been looted to pay 30KCr Commission to Ambani as offset! https://t.co/TRdASdCrb5
— Prashant Bhushan (@pbhushan1) January 15, 2019