فرانس کا برطانیہ سے فلسطینی ریاست کو مشترکہ طور پر تسلیم کرنے کا مطالبہ

   

پیرس ؍لندن۔ 11 جولائی (ایجنسیز) فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون نے لندن سے ایک بیان میں فرانس اور برطانیہ کی جانب سے فلسطینی ریاست کو مشترکہ طور پر تسلیم کرنے کی اپیل کی ہے۔انہوں نے کہا کہ یہی واحد راستہ ہے جو اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن کے کسی افق کی طرف لے جاتا ہے۔ انہوں نے یہ بات برطانوی وزیراعظم کئیر اسٹارمر کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کی۔انہوں نے کہا میں دو ریاستی حل کے مستقبل پر یقین رکھتا ہوں جو اسرائیل کو اپنے ہمسایوں کے ساتھ امن اور سلامتی سے جینے کا موقع دے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں پیرس، لندن اور دنیا بھر میں اپنی آوازوں کو یکجا کرنا چاہیے تاکہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا جا سکے اور اس سیاسی عمل کا آغاز ہو جو واحد راستہ ہے امن کی جانب۔یوکرین اور روس کی جنگ کے حوالے سے میکرون اور اسٹارمر نے جمعرات کو روسی صدر ولادیمیر پوتین پر دباؤ مزید بڑھانے اور ماسکو پر نئی پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کیا تاکہ یوکرین میں فائر بندی تک پہنچا جاسکے۔ اسٹارمر نے کہا کہ ہمیں اپنی کوششوں کو امن کے قیام پر مرکوز کرنا ہوگا اور پوتین کو مذاکرات کی میز پر بیٹھنے پر مجبور کرنا ہوگا، یہ ہم آہنگ دباؤ فرق پیدا کرے گا۔ میکرون نے بھی کہا کہ واضح ہے کہ ہمیں کچھ نیا درکار ہے تاکہ روس پر دباؤ مزید بڑھایا جا سکے۔اس اجلاس میں اٹلی کی وزیراعظم جارجیا میلونی، یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی اور امریکی سینیٹرز لنڈسی گراہم اور ریچرڈ بلومینتھل نے بھی شرکت کی۔ دیگر یورپی رہنماؤں نے بھی مختلف مقامات سے اجلاس میں شرکت کی۔ زیلنسکی نے کہا کہ تمام شراکت داروں کیلئے یہ واضح ہے کہ روس تمام امن کوششوں میں رکاوٹ ڈال رہا ہے۔ انہوں نے ماسکو پر مزید پابندیاں عائد کرنے کی اپیل کی۔
دونوں رہنماؤں نے لندن کے شمال مغرب میں نورث ووڈ میں واقع نیٹو کے کمانڈ سنٹر سے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے رضاکار اتحادی ممالک کے اجلاس کی صدارت کی۔ یہ ممالک مستقبل میں کیف اور ماسکو کے درمیان فائر بندی کو یقینی بنانے کیلئے تیار ہیں۔ اسٹارمر اور میکرون نے اعلان کیا کہ یوکرین میں فائر بندی کے بعد امن فوج کی تعیناتی کے منصوبے مکمل ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا ہمارے پاس ایک مکمل منصوبہ موجود ہے جو فائر بندی کے بعد کے چند گھنٹوں میں نافذ کیا جا سکتا ہے۔ اسٹارمر نے وضاحت کی کہ یہ منصوبے مکمل تیار ہیں اور ہم انہیں طویل مدتی بنیادوں پر مرتب کر رہے ہیں۔