رام پنیانی
بی جے پی انتخابات میں کامیابی کیلئے ہر وہ حربہ استعمال کرتی ہے جو دوسری سیاسی جماعتوں کی نظر میں ناجائز ، غیرقانونی اور ملک دشمن و عوام دشمن ہوتا ہے۔ اس ضمن میں کئی ریاستوں کے گورنر کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ستیہ پال ملک نے واضح طور پر کہا ہے کہ 2019 کے عام انتخابات میں مودی۔ بی جے پی کی فتح میں پلوامہ اور بالا کوٹ دہشت گردانہ واقعات کا اہم کردار رہا۔ ستیہ پال ملک نے یہ بھی پیشن گوئی کی کہ 2024 کے عام انتخابات میں بھی کامیابی کو یقینی بنانے کیلئے پہلے سے بھی کوئی بڑا تماشہ ہوسکتا ہے۔ مودی نے رام مندر کی افتتاحی تقریب کے ذریعہ جو ہسٹیریا کی کیفیت پیدا کی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کس اعلیٰ ترتیب کا یہ تماشہ تھا۔ انہوں نے رام مندر کی افتتاحی تقریب کے ذریعہ اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل کی کوشش کی اور یہ سب جانتے ہیں۔ مودی اینڈ ٹیم نے سارے ملک میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ وہ ہی مذہب کے نجات دہندہ ہیں اور انہوں نے صدیوں پرانا خواب پورا کردیا حالانکہ بابری مسجد سولہویں صدی کی مسجد ہے۔ ایک طرف مودی ایودھیا میں ( شہید بابری مسجد پر تعمیر کردہ رام مندر ) کی افتتاحی تقریب کے ذریعہ عوام کے مذہبی استحصال میں مصروف رہ کر اپنے سیاسی ایجنڈہ کو آگے بڑھا رہے تھے تو دوسری طرف ایک قانون داں اور مصنفہ سرانیا ایئر نے برت رکھتے ہوئے توبہ و ندامت کا اظہارکیا، اپنے 72 گھنٹوں کے اس عمل کو انہوں نے اپنے ہم وطن مسلمانوں کے تئیں پیار و غم کا جذبہ قراردیا۔ انہوں نے پرزور انداز میں یہ بھی کہا کہ انہیں مغلیہ دور کے تہذیبی ورثہ پر فخر ہے۔
ویسے بھی موجودہ حالات میں کوئی بھی اپنے اِرد گرد تفرقہ بازی کی ایک گھٹن زدہ فضاء کی تخلیق دیکھ سکتا ہے جو یقینا بہت خوفناک دکھائی دیتی ہے۔ اگر ہم اپنے ملک کی تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ایسی کئی منادر کی افتتاحی تقاریب منعقد ہوئیں جو ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور بھائی چارگی کے فروغ کے مواقع ثابت ہوئے۔ مثال کے طور پر 1935 میں مہاتما گاندھی نے دہلی کی لکشمی نارائن مندر ( برلا مندر) کا افتتاح کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ یہ ہندو عقیدہ کے ماننے والے یا اس عقیدہ کے پیروکار کی روزانہ کی دعا ہونی چاہیئے کہ دنیا کا ہر جانا پہچانا مذہب روز بہ روز ترقی کرے اور خدمت خلق کا فریضہ انجام دے، ساری انسانیت کی خدمت کرے‘‘ ۔ گاندھی جی نے یہ بھی کہا تھا : ’’ میں اُمید کرتا ہوں کہ یہ مندر مذاہب کے یکساں احترام کے خیال کو آگے بڑھائے اور فرقہ وارانہ حسد کو جھگڑوں کو ماضی کی داستاں یا قصۂ پارینہ بنادیں۔‘‘ کم و بیش اسی طرح کے خطوط پر سوامی ویویکا نندا نے بہت پہلے کہا تھا : ’’ یہاں ہندوستان میں ہندوؤں نے عیسائیوں کیلئے گرجا گھر اور محمڈنس ( مسلمانوں ) کیلئے مساجد تعمیر کئے اور اب بھی تعمیر کررہے ہیں۔‘‘ اپنی کتاب ’’ لکچرس فرام کولمبو ٹو المورہ ‘‘ میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ سوامی جی نے لکھا ہے ’’ مزید نہیں ‘‘ یہ سمجھنے کیلئے ہمیں نہ صرف دریا درل (وسیع القلب اور وسیع الذہن ) ہونا چاہیئے بلکہ مثبت انداز میں ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہیئے تاہم ہمارے مذاہب، ہمارے نظریات الگ الگ ہوسکتے ہیں اور مختلف کیوں نہ ہوں اور یہ بالکل وہی ہے جو ہم ہندوستان میں کرتے ہیں جیسا کہ میں نے ابھی آپ سے متعلق کچھ عرض کیا ہے اور یہی کرنے کی چیز ہے۔
اگر ہم ملک کی موجودہ فضاء کو دیکھیں تو یہ فضاء ہمیں مہاتما گاندھی اور سوامی ویویکانند نے جو کچھ کہا اور لکھا اس کے برعکس دکھائی دیتی ہے جیسا کہ سرانیا کے برت سے اس کی عکاسی ہوتی ہے۔ اس کی عکاسی ان واقعات سے بھی ہوتی ہے جہاں ثقافتی کارکنوں کو ہراساں کیا جارہا ہے۔ آنند پٹوردھن کی فلم ’’ رام کے نام ‘‘ کی اسکرین روکی جارہی ہے، اس کی اسکریننگ کا اہتمام کرنے والوں کو گرفتار کیا جارہا ہے، ان کے خلاف ناقابل ضمانت گرفتاری کے وارنٹس جاری کئے جارہے ہیں۔ 20 جنوری کو حیدرآباد میں ایسا ہوا ہے ، کچھ جہد کاروں نے فلم ’’رام کے نام ‘‘ کی نمائش کا اہتمام کیا لیکن پولیس نے انہیں گرفتار کرلیا۔ آر ایس ایس کے ترجمان’’ آرگنائزر ‘‘ کے ایڈیٹر پرفلا کپتکر جیسے لوگوں کا دعویٰ ہے کہ پران پرتیشٹھا ( مورتی نصب کرنے ) ایودھیا میں رام للا کی مورتی نصب کیا جانا صرف کئی دہوں سے جاری رام جنم بھومی تحریک کا خاتمہ نہیں بلکہ قومی شعور و قومی ضمیر و آگاہی کا آغاز ہے یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ سماجی تبدیلی کا جو سارا عمل ہے اور جو آئیڈیا آف انڈیا کا عمل جس نے تحریک آزادی کا ساتھ دیا تھا اب اس کی نفی کی جارہی ہے اور جسے موٹے طور پر ہندو انڈیا کہا جاسکتا ہے اور فرقہ پرست طاقتوں نے اسے پہلے سے ہی تھام رکھا ہے اور ان طاقتوں نے ہندو راشٹرا کی طرف متعدد قدم آگے بڑھائے ہیں۔
واضح رہے کہ جو چیز آئیڈیا آف انڈیا کے ساتھ تھی وہ نوآبادیاتی طاقتوں ( انگریزوں ) کے خلاف لڑنے کیلئے سماج کے مختلف طبقات کامتحد ہونا تھا، جس میں آزادی، مساوات، اُخوت اور سب کیلئے انصاف کی جدوجہد کرنے کی خواہش تھی۔ اس بڑے پیمانے پر تحریک آزادی میں آئیڈیا آف انڈیا تھا جو دستور ہند کے اقدار پر ختم ہوا۔ ہندوستان کے اس نظریہ (آئیڈیا آف انڈیا ) کیلئے کئی چیلنج تھے جن کی جڑیں بادشاہت یا سلطنتوں کے اقدار میں بڑی گہرائی تک پیوست تھیں اور جسے تقریباً جاگیردارانہ معاشرہ کہا جاسکتا ہے، ان اقدار کی بنیادوں کو ان طاقتوں نے تھام رکھا ہے جو مندر کی افتتاحی تقریب کے اِرد گرد ہسٹیریا کی کیفیت پیدا کررہی ہیں جہاں ذات پات، طبقات، جنس کی زمرہ بندی کی بنیادوں پر ان کی جڑیں مختلف مذاہب کے ماننے والے بادشاہوں، جاگیرداروں اور ان کے نظریات میں پیوست ہیں اور یہ طاقتیں مسلم لیگ، ہندو مہا سبھا اور آر ایس ایس کی شکل میں آئیں جبکہ مسلم فرقہ پرست طاقتیں اپنے جاگیردارانہ اقدار کے نظریہ پر پاکستان میں عمل آوری کررہی ہیں اور ہندو فرقہ پرست طاقتیں اب خوشیاں منارہی ہیں اور بتدریج ان کے اس عمل میں شدت پیدا ہورہی ہے، ہندو فرقہ پرستوں کی سرگرمیاں رام مندر کی افتتاحی تقریب کے ساتھ ہی نقطہ عروج پر پہنچ گئی ہیں۔ تحریک آزادی کا ہندوستانی نظریہ بھگت سنگھ، ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر اور گاندھی جی کے اقدار میں ظاہر ہوا جو آزادی، مساوات، اُخوت یا امن و دوستی پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔
بابائے قوم مہاتما گاندھی سے چند اختلافات کے باوجود نیتا جی سبھاش چندر بوس بھی اسی نظریہ ہندوستان پر مضبوطی سے کاربند تھے۔ اگر دیکھا جائے تو اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے جاگیردار اور منوسمرتی کی آئیڈیالوجی ہندو راشٹرا کی سماجی بنیاد ہے۔ یہ طاقتیں اور یہ آئیڈیا لوجی دن بہ دن مضبوط ہوگئی ہے خاص طور پر گذشتہ چار دہوں کے دوران اس نظریہ کو بہت زیادہ فروغ حاصل ہوا ، اور وہ فرقہ واریت کا جشن منارہے ہیں۔ مندر کے بارے میں گاندھی جی اور سوامی ویویکانند نے جو موقف اختیار کیا یہ فرقہ پرست طاقتیں اس بارے میں کوتاہ ذہنی اور تنگ نظری کا مظاہرہ کررہی ہیں۔ فرقہ پرست مخصوص تہذیبی اقدار کو مزید گہرا کرنے میں مصروف ہیں اور یہ تہذیبی اقدار منوسمرتی میں موروثی برہمنیت کہلاتی ہے۔ اب جو لوگ منوسمرتی کے اقدار کے خلاف کھڑے ہیں جو لوگ تمام ہندوستانیوں کو ہندوستانیت کے ایک ہی چھتری تلے جمع کرنے کیلئے کھڑے ہیں وہ لوگ جو طبقہ ، ذات پات اور جس کی حدود کو توڑ کر ایک ساتھ کھڑے ہیں فی الوقت مختلف قسم کی دھمکیوں کی زد میں ہیں، اور یہ طاقتیں ایسی ہیں جو ہندو ہندوستانی اور مسلم پاکستان کے متوازی اور متضاد اُبھررہے ہیں۔ بہرحال آئیڈیا آف انڈیا کیلئے اُمید کی واحد کرن سماج کے وہی طبقات ہیں جنہوں نے تحریک آزادی کے دوران آئیڈیا آف انڈیا کو ایک ساتھ آگے بڑھایا لیکن اب ان طاقتوں کو کمزور کرنے کی زبردست کوشش ہورہی ہے اور یہ کوششیں مذہب کے نام پر کی جارہی ہیں۔ یہ لڑائی دراصل دستوری ااقدار کے تحفظ کے حامیوں اور دستوری اقدار کو پامال کرنے کا منصوبہ رکھنے والوں کے درمیان ہے آج دستور اور آئیڈیا آف انڈیا کو بچانے کی ضرورت ہے۔