اپورو آنند
گجرات، ہماچل پردیش اسمبلی انتخابات اور دہلی بلدی الیکشن کے نتائج کے ساتھ ہی انتخابات کا ایک دور اپنے اختتام کو پہنچا۔ سب سے اچھی اور اطمینان بخش بات یہ رہی کہ یہ نتائج ملے جلے رہے۔ پوری طرح یکطرفہ یا کسی ایک پارٹی (حکمراں پارٹی بی جے پی) کے حق میں نہیں رہے۔ اگرچہ گجرات کے نتائج حسب توقع رہے اور وزیراعظم نریندر مودی کی پارٹی کو توقع سے کہیں زیادہ نشستوں پر کامیابی ملی اور اس نے 182 میں سے 156 نشستیں حاصل کرکے ریاست کی انتخابی تاریخ کا ریکارڈ قائم کیا۔ ریاست میں بی جے پی نے ریکارڈ کامیابی درج کرائی لیکن ہماچل پردیش میں وہ اقتدار سے محروم ہوگئی۔ دہلی بلدی انتخابات میں بھی حکمراں بی جے پی کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ عاپ نے وہاں اس کے 15 سالہ اقتدار کا خاتمہ کردیا۔ ان انتخابات نے ایک بات کو یقینی بنادیا کہ بی جے پی ناقابل تسخیر نہیں ہے۔ مثال کے طور پر ہماچل پردیش میں کانگریس نے بی جے پی کو شکست دے کر بی جے پی کو چیلنج کرنے سے متعلق اپنی صلاحیت پر یقین کو باقی رکھا ہے۔ گجرات اور دہلی بلدی انتخابات کے نتائج نے عام آدمی پارٹی کو ایک نئی طاقت کے طور پر ابھرنے کا موقع فراہم کیا۔ عاپ نے جہاں گجرات میں اپنی طاقتور موجودگی کا احساس دلایا (13% ووٹ حاصل کرکے) وہیں دہلی میں بی جے پی کو شکست کی ذلت سے دوچار کردیا۔ جہاں تک دہلی بلدی انتخابات کا سوال ہے، بی جے پی اپنی شکست کے باوجود میئر کا عہدہ حاصل کرنا چاہتی ہے، جو اس بات کا اشارہ ہے کہ عوام چاہے اس کے خلاف ووٹ کیوں نہ دیں، وہ عوامی رائے کو بھی بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ (عام آدمی پارٹی نے بی جے پی پر اس کے کونسلروں کو دھمکانے اور کروڑہا روپیوں کا لالچ دینے کے الزامات عائد کئے ہیں)۔ ہماچل پردیش کے بارے میں بھی یہی کہا جارہا ہے کہ بے شک وہاں کانگریس نے کامیابی حاصل کرکے حکومت بناتی ہے لیکن آنے والے دنوں میں بی جے پی، کانگریس کے ارکان اسمبلی کو خریدکر دوبارہ اقتدار حاصل کرے گی جس کا مطلب یہ ہوا کہ اقتدار حاصل کرنے بی جے پی کا ہر طریقہ جائز ہے۔ منی پور، کرناٹک، مدھیہ پردیش اور مہاراشٹرا جیسی ریاستوں کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ جہاں اقلیت میں ہونے کے باوجود بی جے پی نے بڑی مہارت سے اقتدار حاصل کرلیا۔ اس کی سیاسی چال کو عوامی قبولیت نے کہیں بھی دہرانے کا حوصلہ عطا کیا۔ اگر عوام ارکان اسمبلی کی خرید و فروخت کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوتے تو بی جے پی کو اس طرح کا کھیل کھیلنے کا موقع ہی نہیں ملتا اور جمہوریت کمزور نہیں ہوتی۔ موجودہ حالات سے تو ایسا ہی لگتا ہے کہ انتخابات کو جنگ میں تبدیل کردیا گیا ہے اور یہ مانا جارہا ہے کہ جنگ میں سب کچھ جائز ہے اور اب انتخابی نتائج کو اُلٹ دینے کی ہر چال کو جائز سمجھا جارہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اقتدار اب صرف بی جے پی کا حق ہے اور عوام نے کسی اور پارٹی کو منتخب کرنے کی غلطی کا ارتکاب کیا ہے تو اس غلطی کو درست کرنے کا حق بی جے پی کو حاصل ہے۔ اس لئے گجرات اسمبلی کے نتائج کو ہماچل پردیش، دہلی اور دوسری ریاستوں میں دوسری جماعتوں کی حکومتوں کو بے دخل کرنے کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔ ایک بات ضرور ہے کہ 2014ء اور 2019ء کے عام انتخابات میں عوام نے بی جے پی کو اس لئے اقتدار سونپا تھا کہ عوامی مسائل کو حل کرے گی۔ حد تو یہ ہے کہ تعلیمی اداروں کی خودمختاری بھی ختم کردی گئی۔ مہنگائی نے تو ماضی کے سارے ریکارڈس توڑ دیئے۔ ان تمام ناکامیوں بلکہ بربادیوں کا ذریعہ صرف وہ رائے دہندے ہیں جنہوں نے بی جے پی کو ووٹ دیا۔ حد تو یہ ہے کہ بی جے پی کو جن لوگوں نے ووٹ دیا، ان کے ووٹوں کی وجہ سے ہی حقوق انسانی کے جہدکاروں اور طلبہ لیڈروں کی گرفتاریاں عمل میں آئیں۔ بی جے پی ہر مسئلہ کو اپنی مرضی کے مطابق پیدا کرتی ہے اور اس کا فائدہ بھی اٹھاتی ہے۔ مثال کے طور پر کیا کسی نے سوچا تھا کہ گجرات اسمبلی انتخابات میں میدھا پاٹکر ایک انتخابی موضوع بن سکتی ہے؟ ہرگز نہیں! لیکن بی جے پی نے میدھا پاٹکر کو بھی انتخابی موضوع بنادیا۔ دوسری طرف ملک کے وزیر داخلہ نے تمام حدود پھلانگ دیئے اور 2002ء کے مسلم کش فسادات کو منصفانہ قرار دیا جو دراصل ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف متحد کرنے کے نام پر بی جے پی کے حق میں ووٹ حاصل کرنا تھا۔ دیکھا جائے تو بی جے پی کیلئے یہ مجرب سیاسی نسخہ ہے۔ اگر دیکھا جائے تو حقیقت میں بی جے پی نے فرقہ وارانہ زبان و بیان کے بل بوتے پر انتخابات جیتے ہیں اور یہ ایسی حقیقت ہے جس سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا۔ ان انتخابات میں بلقیس بانو اجتماعی عصمت ریزی اور ان کے ارکان خاندان کے وحشیانہ قتل کیس کے ملزمین کی رہائی میں اہم کردار ادا کرنے والے بی جے پی امیدوار کو دوبارہ کامیابی مل گئی۔ اسی طرح موربی کیبل برج جس علاقہ میں منہدم ہوا اور جس میں 130 سے زائد افراد مارے گئے، وہاں سے بھی بی جے پی نے کامیابی حاصل کی۔ نروڈا پاٹیہ قتل عام کے ایک کلیدی ملزم کی بیٹی کو بھی کامیابی ملی۔ ان تمام چیزوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ رائے دہندوں کو روزی روٹی ، بڑھتی مہنگائی، فرقہ وارانہ تشدد، بدعنوانی کی کوئی فکر نہیں بلکہ وہ مذہب کی بنیاد پر ووٹ دے رہے ہیں۔ اس طرح کے ووٹوں کے ذریعہ اقتدار حاصل کرنے والی پارٹی کیا کرے گی، اس بارے میں بی جے پی نے شکوک و شبہات کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی۔ اگر دیکھا جائے تو ملک کیلئے گجرات کے انتخابی نتائج کے نظریاتی نتائج بہت سنگین بلکہ بھیانک ہوں گے۔ مخالف مسلم اور عیسائی نفرت اور تشدد گجرات کے باہر بھی شدت اختیار کرجائیں گے اور مسلم و عیسائی مخالف قوانین بناکر انہیں ہراساں و پریشان کیا جائے۔ حد تو یہ ہے کہ مزدور کسان، طلبہ اور معاشرے کے دوسرے طبقات کے حقوق محدود کرنے، انتظامی اور قانونی طریقہ اپنانے کا عمل تیز ہوگا۔ ہاں سب سے خطرناک بات یہ ہوگی کہ دستوری اداروں پر بھی دباؤ میں اضافہ ہوگا اور وہ ہندوتوا قوم پرستی کیلئے کام کرنے پر مجبور ہوں گے۔ ایسے میں مہذب سماج کی سوسائٹی اور دانشوروں و صحافیوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ مسلمانوں اور عیسائیوں کو احساس دلائیں کہ وہ اکیلے نہیں ہیں یعنی مزاحمت بہت کرنی ہوگی۔