محمد مبشر الدین خرم
کوروناوائرس ! اس صدی کا یہ نام کوئی فراموش نہیں کرپائے گا اور رہتی دنیا تک اسے یاد کیا جاتا رہے گا لیکن عالمی سطح پر اس وباء کی دہشت نے جہاں حکومتوں پر لرزہ طاری کیا ہوا ہے وہیں اس وباء نے شہریوںکی زندگی کو وبال بناکررکھا ہوا ہے۔ کورونا وائرس کے سبب دنیا بھر میں کئے جانے والے لاک ڈاؤن کے سبب جو صورتحال پیدا ہورہی ہے اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے حکومتوں کی جانب سے متعدد اقدامات کئے جا رہے ہیں لیکن مجموعی اعتبار سے ان اقدامات کو ناکافی قرار دیا جا رہاہے اور کہا جا رہا ہے کہ جب تک عوام خود اپنے تحفظ کے اقدامات کو یقینی نہیں بناتے اس وقت تک حالات کو معمول پرلایاجانا ممکن نہیں ہے ۔ عالمی سطح پر جاری لاک ڈاؤن کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ جن ممالک میں عوام حکومت کی جانب سے جاری کئے جانے والے احکامات پر پابندی سے عمل کرتی ہیںاب وہ بھی حکومت کے خلاف باغیانہ تیور اختیار کرنے لگی ہیں اور شہریوں کو گھرو ںمیں بند رکھنے کیلئے حکومتوں کو طاقت کا استعمال کرنا پڑرہا ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں جہاں مہذب اور قانون کے پابند عوام کی مثالیں دی جاتی ہیں ان ممالک میں بھی حکومتوں کی جانب سے گھروں سے نکلنے والوں پر بھاری جرمانے عائد کرنے کے علاوہ ان کو محروس رکھنے کیلئے طاقت کا استعمال کیا جانے لگا ہے اور تمام قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے وباء کو پھیلنے سے روکنے کیلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں ۔ دنیا کے چند ایک ممالک کے علاوہ بیشتر تمام ممالک میں مکمل یا جزوی لاک ڈاؤن جاری ہے اور کسی کو اس بات کی خبرنہیں ہے کہ یہ لاک ڈاؤن کب ختم ہوگا کیونکہ اس لاک ڈاؤن نے نہ صرف ذہنی تناؤ میں اضافہ کیا ہوا ہے بلکہ دنیا بھر سے مریضوں کی تعداد میں ہونے والے اضافہ کی تفصیلات کی خبریں مزید تشویش میں مبتلاء کرنے کا باعث بن رہی ہیں۔ دنیا بھر میں کورونا وائرس کے مصدقہ مریضوں کی تعداد جاریہ ہفتہ 10لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے اور امریکہ میں یہ تعداد 2لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے اور اس وباء کے شکار ہلاکتوں کا سلسلہ بھی تیزی سے بڑھتا جا رہاہے اور اس پر قابو پانے کیلئے اب تک بھی سوائے قرنطینہ میں رہنے کے کوئی حل دریافت نہیں کیا گیا ہے۔ کورونا وائرس نامی اس وباء کے سلسلہ میں اب کئی سازشی نظریات کو فروغ حاصل ہونے لگا ہے اور کئی نظریہ سازوں کی جانب سے کئی امور پر بحث کی جا رہی ہے جس میں قرب قیامت کے آـثار اور نشانیوں کا بھی تذکرہ اور وبائی امراض کے فروغ میں دجالی فتنوں کو بھی پیش کیا جا رہاہے ۔بعض مبصرین جو کہ کیمیائی ہتھیار کے معاملات پر تبصرے کرتے ہیں وہ اسے کیمیائی ہتھیار قرار دینے سے گریز نہیں کر رہے ہیں لیکن وہ بھی کھل کراس بات سے اتفاق کرنے سے اجتناب کررہے ہیں کیونکہ دنیا کی موجودہ حالت میں ان نظریات کو ملک دشمنی کے طور پر دیکھاجانے لگا ہے اسی لئے اس نظریہ کو فروغ حاصل نہیں ہورہا ہے اور ان حالات کو پیدا کرنے کے لئے جس انداز میں عوام میں خوف کا ماحول پیدا کیا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ اس وباء کے متعلق منفی تبصرہ یا سازشی نظریہ پر کوئی گفتگو کرنے تیار نہیں ہے لیکن دبے الفاظ میں اس بات کو سب تسلیم کررہے ہیں کہ دنیا New World Order کی راہ پر گامزن ہے اور اس راہ پر دنیا کو لانے کی کوشش کرنے والی اقوام و ممالک پر کورونا وائرس کے اثرات کا باریک بینی کے ساتھ جائزہ لیا جانے لگا ہے ۔
سازش کیا ہے اور مقصد کیا!
دنیا کو خوف میں مبتلاء کرنے کے لئے کی جانے والی اس سازش کے سلسلہ میں اب تک کوئی نظریہ سامنے نہیں آیا ہے لیکن اب جبکہ دنیا میں 10لاکھ افراد کورونا وائرس سے متاثر ہوچکے ہیں اور یومیہ اساس پر امریکہ ‘ اٹلی ‘ فرانس‘ ہندستان‘ ایران اور دیگر ممالک کے اعداد و شمار سامنے لائے جارہے ہیں تو دنیا کی وہ آبادی جو اس بیماری سے متاثر نہیں ہے اس میں بھی خوف پیدا ہونے لگا ہے اور یہ تاثر دیا جا رہاہے کہ امریکہ جیسا ترقی پذیر ملک وباء پر قابو پانے سے قاصر رہا ہے تو ہم کیسے اس وباء پر قابو پائیں گے!جی ہاں عام طور پر ہندستان اور امریکہ کے متعلق بات چیت ہوتی ہے تو ہندستان کبھی خود کو امریکہ سے کمزور تصور نہیں کرتا بلکہ ہندستان کو حالیہ عرصہ میں یہ ناز رہا ہے کہ دنیا کی تمام مملکتوں میں ہندستان واحد ملک ہے جس کی 67 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ حکومت ہند کی جانب سے بار بار یہ دعوے کئے جاتے رہے ہیں کہ ہندستان ہر اعتبار سے دنیا کے کسی بھی ترقی یافتہ ملک سے پیچھے نہیں ہے بلکہ دنیا کے بیشتر ترقی یافتہ ممالک میں ہندستانیوں کا اہم رول ہے اور ہندستانی ہی دنیا کی کئی اہم کمپنیوں کے اہم عہدوں پر فائز ہیں لیکن کورونا وائرس نے ہندستان کو یہ کہنے پر مجبور کردیا کہ ’’ہندستان میں صحت عامہ کے معاملہ میں وہ وسائل موجود نہیں ہیں جو دیگر ترقی یافتہ ممالک کے پاس ہیں‘‘ اس اعتراف کے ساتھ حکومت کی جانب سے یہ کہا جا رہاہے کہ اس وباء سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت ہے اور ہندستان کے پاس بچنے کے لئے احتیاط کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے بلکہ اگر مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے تو اس پر قابو پانا مشکل ہوجائے گا۔ کورونا وائرس سے مرنے والوں کی تعداد کو شمار کیا جا رہاہے اور اس میں اضافہ سے دنیا میں دہشت پیدا ہورہی ہے جبکہ دنیا میں روزانہ اتنی تعداد میں انسانوں کا فوت ہونا معمول کی بات ہی لیکن اس کے باوجود اس بات کو اس حد تک فروغ دیا جارہاہے کہ اس وائرس کو بہت بڑے قاتل کے طور پر پیش کیاجانے لگا ہے ۔ امریکہ یا ہندستان ہی نہیں بلکہ دنیا کے بیشتر ممالک اس صورتحال کو اب بھی ایک وبائی مرض کے طور پر ہی دیکھنے پر آمادہ ہیں جبکہ اس مرض نے دنیا کی معیشت کو تباہ کرتے ہوئے عالمی معاشی فورم کے منصوبوںکو بظاہر خاک میں ملا دیا ہے اور دنیا کی تیز رفتار ترقی پذیر معیشتیں دم توڑرہی ہیں اور حسن اتفاق یہ کہ کورونا وائرس نے اب تک کسی بھی غریب ملک کا دروازہ نہیں کھٹکھٹایا ہے بلکہ وہ ان ملکوں کو پہنچ رہا ہے جن کی معیشت مستحکم ہونے کی سمت گامزن ہے یا مستحکم تصور کی جاتی ہے۔
عالمی ادارۂ صحت W.H.O
دنیا بھر کے ممالک کی سرحدیں اور قوانین عملی اعتبار سے ختم ہوچکے ہیں اور دنیا کی تمام حکومتیں عالمی ادارۂ صحت کے احکام پر عمل آوری میں اپنی عافیت تصور کرنے لگی ہیں ۔ عالمی ادارۂ صحت کی جانب سے جاری کئے جانے والے احکامات کو قابل عمل بنانے کے لئے مملکتی حکومتیں ایگزیکیٹیو کا کردار اداکررہی ہیں اور عالمی ادارۂ صحت کی سفارشات کو عمل کرتے ہوئے اپنے شہریوں کے لئے رہنمایانہ خطوط جاری کرنے لگی ہیں۔ عالمی ادارۂ صحت دنیا کے ان تمام ممالک پر اس حد تک اثر انداز ہوچکا ہے کہ حکومتیں اپنے ملک میں زچہ اور پیدا ہونے والے بچہ کے متعلق جاری کردہ رہنمایانہ خطوط سے کورونا وائرس کے مریض کی تدفین کے سلسلہ میں جاری کردہ ہدایات پر عمل کر رہی ہیں بلکہ اپنے محکمہ جات کو بھی WHOکی جانب سے جاری کردہ سفارشات کے مطابق عمل کو یقینی بنانے کی تاکید کی جارہی ہے۔ حکومت ہند ہویا امریکہ ہر حکومت اپنے ان اداروں کے زیر اثر آچکی ہے جو کہ WHOکے رہنمایانہ خطوط کے مطابق خدمات انجام دینے کے مدعی ہیں اور اپنے اپنے ممالک میں وبائی امراض یا متعدی امراض کو پھیلنے سے روکنے کے لئے ٹیکہ اندازی و ٹیکہ سازی کے کام کرتے ہیں۔ حکومتیں WHOکے آگے بے بس ہیں اور کسی حکومت کی جانب سے ادارہ پر کوئی سوال نہیں کیا جارہا ہے بلکہ جو احکام موصول ہورہے ہیں ان پر عمل آوری میں اپنی عافیت تصور کی جانے لگی ہے ۔ امریکہ میں صدر ڈونالڈ ٹرمپ سے زیادہ لوگ اب CDC سنٹرس فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن کے متعلق گفتگو کرتے ہیں اور انہیں اب تو ان کے انتخابات کی بھی پرواہ نہیں ہے ۔ اسی طرح ہندستان میں وزیر اعظم سے زیادہ لوگ ICMR انڈین کونسل برائے میڈیکل ریسرچ کے متعلق گفتگو کر رہے ہیں اور کئی اہم امور کو نہ صرف نظر انداز کیاجانے لگا ہے بلکہ ان کے تذکرہ کو بھی توجہ ہٹانے کی سازش قراردیا جانے لگا ہے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ اقوام متحدہ کو عام طور پر ناکام ادارہ قرار دینے والے ممالک بھی اقوام متحدہ کے تحت خدمات انجام دینے والے WHO کے رہنمایانہ خطوط اور اعداد و شمار کا اس قدر انہماک سے جائزہ لے رہے ہیں جیسے وہ خود ایک ڈاکٹر یا ایسے ریسرچ اسکالر ہیں جنہیں WHO کی سفارشات مستقبل میں کام آنے والی ہیں اور کئی ممالک جو اقوام متحدہ کو تسلیم نہیں کرتے وہ بھی WHO کے احکام پر سر تسلیم خم کرتے نظر آرہے ہیں۔
کورونا وائرس اور ادویات سازی کی صنعت
ادویات سازی کی دنیا کی سب سے بڑی صنعت ہے اور ادویات اشیائے ضروریہ کا وہ حصہ بن چکی ہیں کہ دنیا میں ان کے بغیر جینا محال ہے اور ہر دوسرے شخص کو ادویات درکار ہیں اسی لئے اس صنعت کو ابتداء ہی سے بدنام کیا جاتا رہا ہے اور ادویات سازی کی صنعت پر ہمیشہ یہ الزام رہا ہے کہ وہ دولت کمانے کے لئے مہنگی ادویہ بناتی ہیں لیکن کورونا وائرس کی وباء کے پھیلنے کے بعد ادویہ سازی کی صنعت کو مافیا کے طور پر پیش کیا جانے لگا ہے اور کچھ عناصر کی جانب سے یہ تاثر دیا جا رہاہے کہ کورونا وائرس دراصل ادویہ سازی کی صنعت کو بہترین منافع بخش صنعت بنانے کیلئے اس کواتنی ہوا دی جا رہی ہے لیکن اس بات کو ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ کسی ایک صنعت کو بڑھاوا دینے کے لئے دنیا کی تمام صنعتوں کو تباہ نہیں کیا جاسکتا اور دنیا کے بیشتر تمام ممالک کی معیشت سے کھلواڑ کی جرأت نہیں کی جاسکتی اس لئے اس بات کو خارج از امکان قرار دیا جانا چاہئے کہ یہ کوئی ادویہ سازی کا کھیل ہے۔
ہاں یہ بات درست ہے کہ جب کبھی اس مرض کی دوا منظر عام پر آئے گی اس کے بعد اس ادویہ ساز کمپنی اور جس ملک سے یہ بازار میں لائی جائے گی اس ملک کی معیشت دونوں پر ہی اس کے مثبت اثرات ہوں گے لیکن یہ کہنا درست نہیں کہ یہ صرف ادویہ سازی صنعت کے فروغ کیلئے جاری ہنگامہ ہے بلکہ یہ ہنگامہ تو دنیا پر حکومت کے خواب کو پورا کرنا ہے اور اس خواب کی تعبیر کیلئے ان لوگوں نے جو قربانیاں دی ہیں ان میں سب سے اہم ہجرت اور ظالمانہ مملکت کو آباد کرنے کے علاوہ مسلمانوں کی نسل کشی اور اس پر دنیا کو خاموش رہنے کی تربیت دینا ہے۔
اسرائیل میں کورونا وائرس
اسرائیل میں کورونا وائرس کے مصدقہ مریضوں کے متعلق عالمی ادارۂ صحت کی جانب سے فراہم کردہ تفصیلات کے مطابق 4 اپریل تک ان کی تعداد 6211 تھی اور 29 اموات کی توثیق کی گئی ہے۔اسی طرح فلسطین میں مصدقہ مریضوں کی تعداد 165 بتائی جارہی ہے اور ایک موت کی توثیق ہوئی ہے ۔اسرائیل میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد سے نمٹنے میں حکومت اسرائیل کو کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے جن میں سب سے اہم مشکل انہیں ہریدی یہودیوں سے نمٹنے میں آرہی ہے کیونکہ ہریدی یہودی ایک ایسا شدت پسند طبقہ ہے جو کہ قیام اسرائیل کے وقت سب سے پہلے نقل مکانی کے لئے تیار ہواتھا اور اس طبقہ کو اسرائیل میں کئی مراعات حاصل ہیں ۔یہودیوں کی متاثر ہونے والی آبادی میں سب سے بڑی آبادی ہریدی یہودیوں کی ہے اور ان ہریدی یہودیوں میں بھی اب تک فوت ہونے والوں میں 6 ربی بھی شامل ہیں۔اسرائیل نے بھی کوروناو ائرس سے نمٹنے کیلئے مملکت میں لاک ڈاؤن کا اعلان کیا ہوا ہے لیکن ہریدی طبقہ سے تعلق رکھنے والے یہودی اس لاک ڈاؤن کی پابندی اور سرکاری احکام سے انحراف کا اعلان کرچکے ہیں بلکہ جب یہودی فورسس اس قوم کو لاک ڈاؤن کا پابند بنانے کے لئے سختی کی کوشش کر رہی ہے تو وہ ان پر کھانسنے اور چھینکنے کے ساتھ انہیں ’نازی نازی ‘ کہہ کر پکار رہے ہیں جو کہ اسرائیلی فورسس کے لئے مشکل کا سبب بن رہا ہے لیکن وہ اسے ہریدی یا یہودی جہاد قرارنہیں دے رہے ہیں ۔اسرائیل میں جہاں ہر نوجوان کو فوج میں لازمی خدمات انجام دینا ہے اور انہیں اسرائیل ڈیفنس فورس IDF کا حصہ بننا پڑتا ہے لیکن ہریدی طبقہ ایک ایسا طبقہ ہے جسے اس شرط سے استثنی حاصل تھا اور اس کے باوجود بھی وہ حکومت کے احکامات کا پابند نہیں ہے بلکہ ان کا ادعا ہے کہ وہ اپنی جگہ درست ہیں اور انہیں اس وبائی مرض سے مقابلہ کیلئے لاک ڈاؤن کی پابندی نہیں کرنی ہے۔اسرائیلی میڈیا میں ان شدت پسند یہودیوں کے خلاف ایسا کوئی پروپگنڈہ نہیں چلایا جارہاہے کہ ان کی وجہ سے کورونا وائرس زیادہ پھیلے گا۔
دنیا میں نسلی اعتبار سے افضلیت کے دعویدار
ہندستان اور اسرائیل میں موجود موافقت میں ایک اہم یہ ہے کہ ہندستان میں برہمن واد کو جو مقام حاصل ہے یہودی بھی خود کو اسی طرح تصور کرتے ہیں اور خود کو منتخبہ قوم قرار دینے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ہندستان میں گھر واپسی کی مہم کے دوران کسی نے استفسار کیا تھا کہ اگر اس کی گھر واپسی ہوتی ہے تو اسے کس طبقہ میں شمار کیا جائے گا تو سب نے مشترکہ طور پر یہ وضاحت کردی تھی کہ وہ کچھ بھی ہو سکتا ہے لیکن برہمن نہیں ہوسکتا ۔اسی طرح یہودی نسلی یہودی ہیں اوروہ یہودیت کے فروغ کے لئے کوئی تبلیغ نہیں کرتے بلکہ دنیا کے کسی بھی کونہ میں ایک بھی یہودی خاندان ہے تو اس کو شمار کرتے ہیں اور ان کے مقاصد سے دنیا بخوبی واقف ہے۔یہودیوں کی جانب سے مذہبی تبلیغ نہ کئے جانے کے سلسلہ میں بھی دنیا واقف ہے اور ان کے علاوہ دنیا میں کچھ اور مذاہب و عقائد ہیں جن میں تبلیغ جائز نہیں ہے بلکہ اگر کوئی اس مذہب اور عقیدہ کے برخلاف شادی کرتا ہے یا کرتی ہے تو وہ اپنے شریک حیات کو اس قوم کا حصہ نہیں بنا سکتی ۔اسی طرح کوئی برہمن کی کسی دوسری قوم میں شادی ہوتی ہے تو وہ برہمن رہتا یا رہتی ہے لیکن شریک حیات کو برہمن قرار نہیں دے سکتے ۔ہندستان حالیہ عرصہ میں اسرائیل کے اچھے دوست کی حیثیت سے دنیا میں اپنی شناخت بنانے لگا ہے اور دونوں ممالک کی حکومتوں کے نظریات کا بھی اگر جائزہ لیا جائے تو دونوں ہی مسلم دشمنی پر منحصر ہیں۔اسی لئے دونوں ممالک کے نظریات اور مفادات کے ساتھ معیشت اور دشمنوں کی فہرست کا جائزہ لیا جائے تو یکساں ہی ہوتی جائے گی کیونکہ دونوں کو ہی مقابلہ ان قوتوں سے ہوگا جو دنیا میں امن کی پیامبر ثابت ہوتی رہی ہیں کیونکہ ان کے مقاصدمعاشی برتری کے ساتھ سوپر پاؤر بننے کی کوشش اور سوپر پاؤر کے ساتھ اپنی ساجھے داری بھی ہے ۔اسرائیل نے حالیہ عرصہ میں یروشلم کو اسرائیل کا درالحکومت بنانے کے بہت بڑے مقصد میں کامیابی حاصل کرلی ہے ۔
عالمی کا معاشی نظام
کورونا وائرس کی وباء نے جہاں عالمی معاشی نظام کو تہس نہس کردیا ہے وہیں کئی ممالک کو اپنی کرنسی میں تجارت کرنے کے لئے آمادہ کرلیا ہے اور بنیا کے کئی ممالک کی جانب سے اپنی ذاتی کرنسی میں عالمی تجارت پر توجہ دینے لگے ہیں اور کئی ممالک ڈالر کی حالت زار سے خوف کے عالم میں ڈالر کو قبول کرنے سے انکار کرتے جارہے ہیں جو کہ ڈ الر کے مستقبل کو تاریک کرنے کا سبب بن سکتا ہے ۔ڈالر دنیا کے بیشتر ممالک سے تجارت کا ذریعہ اور تمام ممالک میںقابل قبول کرنسی ہے لیکن کورونا وائرس کی وباء نے اس کے موقف کوکمزور کرنا شروع کردیا ہے۔ڈالر کی قدر میں گراوٹ کی صورت میں روپئے کی حالت کیا ہوگی اس کا اندازہ کرتے ہوئے بھی ہندستانی معاشی ماہرین کی روح کانپ جائے گی کیونکہ اگر ڈالر کی قدر میں گراوٹ آتی ہے تو ایسی صورت میںروپئے کی حالت بھی ایرانی کی کرنسی کی طرح ہوسکتی ہے ۔دنیا میں کسی بھی ملک کو اپنا اقتدار اور خود کو سب سے زیادہ طاقتور ثابت کرنے کیلئے لازمی ہے کہ وہ معاشی اعتبار سے مستحکم ہونے کے ساتھ ساتھ دفاعی اعتبار سے با صلاحیت ہو ۔ہندستان دنیا کے ان چنندہ ممالک میں شمار کیا جاتا ہے جو نیو کلئیر قوت کے حامل ہیں اس اعتبار سے وہ طاقتور ضرور ہے لیکن دفاعی صلاحیتوں میں اب اسرائیل کو ہر مملکت تسلیم کررہی ہے ۔اسرائیل کی کرنسی کے نام سے ہی بہت کم لوگ واقف ہیں اسرائیلی کرنسی کو’’ شیکل‘‘ کہا جاتا ہے جس کی قدر میں گذشتہ 15یوم کے دوران 4ہندستانی روپئے کا اضافہ ہوا ہے جبکہ امریکی ڈالر کی قدر میں گذشتہ 15یوم کے دوران کوئی استحکام نہیں ہے بلکہ ڈالر کی قدرمیں اتار چڑھاؤ دیکھا جا رہاہے۔گذشتہ 10 برسوں کے دوران امریکی ڈالر کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو اس میں کبھی گراوٹ نہیں دیکھی گئی بلکہ اس میں مجموعی اعتبار سے 10 سال کے دوران قدر میں 40 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔اسرائیلی شیکل کی قیمت میں گذشتہ 10برسوں کے دوران 80 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے ۔سال 2010میں اسرائیلی شیکل کی قدر 12روپئے 56پیسے تھی اور آج20روپئے 98 پیسے ریکارڈ کی گئی ہے۔اسی طرح امریکی ڈالر کی قیمت سال 2010میں 44روپئے 96پیسے ریکارڈ کی گئی تھی اور آج کی تاریخ میں عدم استحکام کے ساتھ 76روپئے 57 پیسے ریکارڈ کی گئی ہے اور ماہ مارچ کے دوران مارچ کے اواخر میں 73 روپئے بھی ریکارڈ کی جاچکی ہے۔اسرائیلی کرنسی شیکل کی بڑھتی طاقت دنیا میں اس کی قبولیت کے لئے کس حد تک معاون ثابت ہوگی یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن اگر کورونا وائرس کا ٹیکہ ہندستان سے نکلتا ہے تو ہندستانی معیشت کو زبردست استحکام اور دنیا بھر میں ہندستان کی پذیرائی حاصل ہوگی۔
کورونا وائرس کی بربادی
کورونا وائرس نے اس وباء سے اونچااٹھ کرسونچنے کی صلاحیت کو مفلوج کردیا ہے اور دنیا بھر میں کورونا وائرس کے علاوہ کوئی اور بات کا تذکرہ نہیں ہے بلکہ ہر زبان زدخاص و عام اس بیماری کا تذکرہ کررہا ہے ۔مذہبی شخصیات اس بیماری سے محفوظ رہنے کی دعائیں عام کر رہے ہیں‘ طبیب اس بیماری سے محفوظ رہنے کے نسخوں کو دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہیں‘موسیقار بیماری کے متعلق گانے تیار کر تے ہوئے لوگوں کو محفوظ کرنے کی کوشش کررہے ہیں تومزاح نگار کورونا وائرس پر لطیفہ اور مزاحیہ چٹکلے تیار کر رہے ہیں‘حکومتیں تشویش کے ساتھ اطمینان دلانے کی کوشش کر رہی ہیں مریض قرنطینہ سے فرار ہونے کی کوشش کرتے ہوئے شہریوں کی تشویش میں اضافہ کر رہے ہیں۔طلبہ کورونا وائرس سے ہونے والے اثرات کے متعلق بتانے کی کوشش کررہے ہیں توبچے معصومیت کے ساتھ ہاتھ دھونے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ضعیف بزرگ طاعون کی وباء کو یاد کر رہے ہیں تو نوجوان قید و بند کی زندگی سے عاجز نظر آرہے ہیں۔انتظامیہ کورونا کی چکر میں بھوک مری کو روکنے کی فکر کررہا ہے تو تاجر لاک ڈاؤن کے اختتام کے بعدپیدا ہونے والے حالات کے متعلق تفکرات میں مبتلاء ہیں۔غرض یہ کہ ہر کس و ناکس کے اوسان پر کورونا وائرس اس قدر سوار ہے کہ ہر کسی کو اس مرض نے متاثر کیا ہے جبکہ دنیا میں اس کے جسمانی اعتبار سے متاثر ہونے والوں کی تعداد 10 لاکھ ہی ہے لیکن 18ممالک کے علاوہ تمام ممالک میں اس مرض نے قدم رنجائی کرلی ہے لیکن ان 18 ممالک کے شہریوں میں بھی کورونا وائرس کی گفتگو یہ ثابت کرتی ہے کہ WHO کی جانب سے وبائی قرار دی گئی اس بیماری نے ذہنوں میں تو سرائیت اختیار کرہی لی ہے۔اس مرض سے محفوظ رہنے کے لئے جو اقدامات کئے جانے ہیں اس میں کوئی کوتاہی نہیں کی جانی چاہئے لیکن اس مرض کو اوسان پر سوار کرنے سے بھی کچھ حاصل نہیں ہونے والا ہے اسی لئے احتیاط کے ساتھ ذکر و اذکار پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
@infomubashir