فسطائی طاقتوں کا ہتھیار بن گیا ہے بلڈوزر

   

محمد ریاض احمد
آجکل صرف ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں تحفظ حقوق انسانی کیلئے جدوجہد میں مصروف جہد کار اور حقوق انسانی کے قومی و بین الاقوامی اداروں کے ساتھ ساتھ انسانیت نواز لوگوں کا یہی سوال ہے کہ آخر ہندوستان جیسے عظیم ملک میں قانون کی حکمرانی ہے بھی یا نہیں ؟ کیونکہ گذشتہ 10 برسوں سے جس طرح حقوق انسانی پامال کئے گئے ہیں‘ قانون سے کھلواڑ کیا گیا ( جس کا سلسلہ ہنوز جاری ہے ) اور جس طرح مسلمانوں ، عیسائیوں اور دلتوں کو چُن چُن کر نشانہ بنایا جارہا ہے اور خاص طور پر بناء کسی وجہ کے جھوٹے اور فرضی الزامات کے تحت مسلمانوں کے مکانات منہدم کئے جارہے ہیں‘ اس سے تو یہی لگتا ہے کہ جن ریاستوں میں اس طرح کی جانبدارانہ و متعصبانہ کارروائیاں کی جارہی ہیں وہاں قانون کا کوئی احترام باقی نہیں رہا کیونکہ اگر قانون کا احترام باقی رہتا تو کوئی بھی ریاستی حکومت مذہبی بنیادوں پر کارروائی نہیں کرتی، کسی کا گھر منہدم نہیں کرواتی۔ اگر ہم اس قسم کی جانبدارانہ کارروائیوں کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں یہ سب کچھ ہورہا ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ عدالتیں بھی بڑی خاموشی کے ساتھ قانون سے کھلواڑ کا تماشہ دیکھ رہی ہیں اور اگر عدالتیں اس کے خلاف کچھ ریمارکس کر بھی دیتی ہیں تو اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔
جیسا کہ ہم نے سطورِ بالا میں بتایا ہے کہ بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں قانون کی حکمرانی کو خطرات لاحق ہیں اس ضمن میں آپ کو مدھیہ پردیش میں پیش آئے ایک واقعہ سے واقف کرواتے ہیں۔ ’ہندوستان ٹائمس‘ اور دوسری میڈیا رپورٹس میں جو 15 جون2024 کو شائع یا نشر ہوئیں یہ انکشاف کیا گیا کہ نپن پور کے BHAINWAHI علاقہ میں صرف اس لئے 11 مسلمانوں کے مکانات بلڈوزر چلا کر زمین کے برابر کردیئے گئے کیونکہ ان کے ریفریجریٹرس سے بڑے جانور کا گوشت ( بیف) برآمد ہوا۔ ان بیچارے مسلمانوں کے مکانات منہدم کرنے کیلئے یہ بہانہ تراشا گیا کہ ان لوگوں نے سرکاری اراضیات پر مکانات تعمیر کرلئے تھے۔ گھر سے بیف برآمد ہونے کے ساتھ ہی گھروں پر بلڈوزر چلادینا کیا انصاف ہے ؟ یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب کوئی بھی ریاستی حکومت نہیں دے سکتی۔ فرقہ پرستوں کی مسلم دشمنی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مدھیہ پردیش کے ہی کمرگون ضلع میں اپریل 2022 کو رام نومی جلوس کے دوران سنگباری کا بہانہ بناکر فساد بھڑکایا گیا اور پھر جلوس پر سنگباری و فسادات برپا کرنے کے الزامات میں مسلمانوں کے مکانات و دکانات پر بلڈوزر چلائے گئے۔
بی جے پی حکومت کی مسلم دشمنی اور حکام کی جھوٹ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 35 سالہ وسیم شیخ کی دکان بھی جلوس پر پتھراؤ کرنے کے الزام میں منہدم کردی گئی حالانکہ وسیم شیخ 2005 میں برقی شاک کی زد میں آکر جھلس گئے تھے نتیجہ میں ان کے دونوں ہاتھ کہنیوں سے الگ کردیئے گئے تھے۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایک ایسا شخص جو دونوں ہاتھوں سے محروم ہے فساد برپا کرسکتا ہے، کسی پر پتھراؤ کرسکتا ہے؟ خود وسیم کا اس وقت کہنا تھا ’’حکومت یہ کہہ رہی ہے کہ فسادات میں ملوث افراد کے مکانات اور دکانات منہدم کئے گئے، میں کیسے فساد میں ملوث ہوسکتا ہوں؟ میں ہاتھ نہ ہونے کے باعث دوسروں پر منحصر ہوں یہاں تک کہ پانی پینے کیلئے بھی مجھے دوسروں کی مدد لینی پڑتی ہے۔ وسیم اس بات کو لیکر پریشان تھے کہ اب وہ کس طرح اپنی ماں ، بیوی اور دو بچوں کی روٹی کا انتظام کریں گے؟ ۔ آپ کو بتادیں کہ صرف چار دن قبل ہی مدھیہ پردیش کے ضلع ستنا میں بٹیایاگری، روی ہاگری، رامپال چوہدری اور راجلو چوہدری نے 60 گائیوں کو ریلوے پل سے ایک دریا میں پھینک دیا جس کے نتیجہ میں کم از کم 20 گائیں فوت ہوگئیں۔مسلمانوں کے گھر میں بیف کی موجودگی کا دعویٰ کرکے مکانات پر بلڈوزر چلانے والی بی جے پی حکومت نے ایک نہیں دو نہیں 20 گائیوں کا ایک طرح سے قتل کرنے والے ملزمین کے مکانات پر بلڈوزر چلانے کی زحمت نہیں کی۔ یہ تعصب و جانبداری اور فرقہ پرستی نہیں تو اور کیا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ مدھیہ پردیش میں ایک بی جے پی لیڈر نے ایک قبائیلی کے چہرہ پر پیشاب کرکے اس کی توہین کی تھی، بلڈوزر کے ذریعہ انصاف کرنے والی بی جے پی حکومت نے غیرانسانی بلکہ شیطانی حرکت کرنے والے بی جے پی لیڈر کے گھر پر بلڈوزر نہیں چلایا بلکہ اس کے گھر کی دیواروں کو دکھاوے کیلئے منہدم کردیا۔ اس قسم کے شرمناک واقعات سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں کے چیف منسٹرس اور بی جے پی قائدین عوام کو بے وقوف اور خود کو ہشیار سمجھتے ہیں؟ ۔
بہرحال دیکھا جائے تو سال 2017 سے بلڈوزر کو جو حقیقت میں ایک صنعتی مشین ہے سارے ملک میں اسے فرقہ پرستی پر مبنی گندی سیاست کا ایک آلہ بنادیا گیا ہے باالفاظ دیگر بلڈوزر کو نام نہاد و خود ساختہ قوم پرستوں نے ماورائے عدالت آلہ Extrajudicial Toolمیں تبدیل کردیا ہے اور اسے بلڈوزر انصاف کا نام دیا گیا ہے جبکہ ہمارے ملک کا ہی نہیں دنیا کا قانون یہی کہتا ہے کہ جب تک جرم ثابت نہ ہو ملزم خاطی قرار نہ دیا جائے تب تک اسے سزا نہیں دی جاسکتی ، لیکن بدبختی کی بات یہ ہے کہ کچھ عرصہ سے ہندوستان بڑی تیزی کے ساتھ آمریت کی طرف جارہا ہے اور اس بات کا پورا پوراخدشہ پایا جاتا ہے کہ سماج کے ساتھ ساتھ کسی بھی فرد کی زندگی کا تحفظ اور اس کی شخصی آزادی پوری طرح ریاست کے من مانی فیصلوں پر منحصر ہوجائے گی۔مثال کے طور پر مدھیہ پردیش کے چھتر پور ضلع میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والے ملعون سوامی کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے مسلمانوں نے احتجاج کیا اور پولیس میں شکایت درج کروانے کی کوشش کی وہاں جان بوجھ کر گڑبڑ کی گئی اور پھر پولیس نے امن و امان قائم کرنے کی کوشش کرنے والے کانگریس لیڈر شہزاد علی کے شاندار مکان پر بلڈوزر چلاکر اُسے فوری زمین دوز کردیا جس پر اپوزیشن قائدین، حقوق انسانی کے جہد کاروں، صحافیوں اور اسکالرس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے بی جے پی ریاستی حکومت کی مذمت کی اور ان لوگوں نے بلڈوزر چلانے کی اسرائیلی پریکٹس کو فوری بند کرنے کا مطالبہ کیا۔ ان لوگوں کا کہنا تھا کہ یہ صرف مسلمانوں کو ڈرانے، دھمکانے اور ان کے حوصلے پست کرنے کیلئے کیا جارہا ہے۔ اب تو ہر کوئی سپریم کورٹ پر بھی زور دینے لگا ہے کہ اس قسم کی متعصبانہ کارروائیوں کا از خود نوٹ لیتے ہوئے اسے قانون کی حکمرانی برقرار رکھنا چاہیئے ورنہ ملک میں ہر طرف جنگل راج ہوجائے گا اور فرقہ پرستی کا عفریت اپنا سر اُبھارکر انسانوں اور انسانیت کو ہضم کرجائے گا۔
جس طرح مذہبی جنون نے ہمارے پڑوسی ملک پاکستان کا بیڑہ غرق کیا ہے اسی طرح ہمارا ملک بھی کمزور ہوجائے گا۔ جہاں تک بلڈوزر کا استعمال ہے اس کا کبھی بلڈوزر ماما (یوگی ) استعمال کررہے ہیں تو کبھی بلڈوزر ماما ( شیو راج سنگھ چوہان ) نے جانبدارانہ استعمال کرتے ہوئے سنگھ اور بی جے پی میں اپنا قد بڑھانے کی کوشش کی۔دوسری طرف فی الوقت مدھیہ پردیش، اُتر کھنڈ، راجھستان اور آسام میں بلڈوزر کا مسلمانوں کے خلاف اسی طرح استعمال کیا جارہا ہے جس طرح اسرائیل‘ فلسطینیوں کے خلاف اس کا استعمال کرتا رہا ہے، آج بھی درندہ صفت اسرائیل فلسطینی آبادیوں پر بلڈوزر چلانے اور ان کی نسل کشی میں مصروف ہے۔ بلڈوزر کے ذریعہ صرف مسلمانوں کے مکانات کو ہی چن چن کر نشانہ نہیں بنایا جارہا ہے بلکہ قانون کی حکمرانی کو بھی مسمار کیا جارہا ہے۔ اگر سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس اور تحت کی عدالتیں اس ملک دشمن رحجان اور انداز کو روکنے آگے نہیں آئیں گی تو حالات بد سے بدتر ہونے کے پورے پورے امکانات پائے جاتے ہیں۔
واضح رہے کہ بی جے پی کی ریاستی حکومتوں نے بلڈوزر کو بے قصور اور نہتے مسلمانوں کو جانی و مالی نقصانات سے دوچار کرتے ہوئے ان کی معیشت تباہ کرنے کا ایک ذریعہ بنادیا ہے۔ جھوٹے اور فرضی الزامات عائد کرو اور پھر یہ کہہ کر مکانات زمین کے برابر کردو کہ یہ سرکاری اراضیات پر تعمیر کی گئی ہیں۔ مسلمانوں کو بلڈوزر کے ذریعہ کس طرح تعصب کا نشانہ بنایا جارہا ہے اس کا اندازہ راجھستان میں پیش آئے اس واقعہ سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ دسویں جماعت کا ایک مسلم طالب علم اپنے غیر مسلم ہم جماعت پر چاقو سے حملہ کرتا ہے، بجرنگ دل اور اسی قبیل کی دوسری تنظیمیں سڑکوں پر آجاتی ہیں اور ملزم کے مکان کو منہدم کرنے کا مطالبہ کرتی ہیں جس کے ساتھ ہی گھر منہدم کردیا جاتا ہے حالانکہ ملزم کا خاندان کرایہ کے گھر میں مقیم تھا۔ اب آپ ہی بتایئے کہ مکاندار کا کیا قصور تھا۔ اسی طرح اُتر پردیش میں ایس پی لیڈر کے گھر پر صرف اس لئے بلڈوزر چلادیا گیا کیونکہ انہوں نے مودی پر شدید تنقید کی تھی۔ آج ہمارے ملک میں بلڈوزر کا جس ظالمانہ انداز میں استعمال کیا جارہا ہے اس سے شائد بلڈوزر کے موجدین JAEMES CUMMINGS اور J-EARL Mclead کو بھی شائد اپنی ایجاد کے معتصبانہ استعمال پر افسوس ہوگا۔ آپ کو بتادیں کہ ان دونوں افراد نے جن میں ایک کسان اور ایک ڈرافٹسمین تھے 1923 میں بلڈوزر ایجاد کیا تھا اور شائد اس کرۂ عرض کی ناجائز مملکت اسرائیل اور ہندوستان میں بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں مسلمانوں ، عیسائیوں، دلتوں کے خلاف بلڈوزر کا متعصبانہ، جانبدارانہ اور مذہبی بنیادوں پر استعمال ہورہا ہے۔
بلڈوزر جسے DOZER یا CRAWLER بھی کہا جاتا ہے اس سے دہلی کی چانکیہ پوری میں مسلمانوں کے کم از کم 20 مکانات کو منہدم کیا گیا تھا۔یہاں تک کہ یو پی کے الہ آباد میں محمد جاوید کا گھر اس لئے منہدم کردیا گیا کیونکہ ان کی بیٹی نے سی اے اے کے خلاف احتجاج کیا تھا۔ ہاؤزنگ اینڈ لینڈرائٹس نٹ ورک کے اعداد و شمار کے مطابق 2023 میں 153820 مکانات منہدم کئے گئے جس کی وجہ سے 738438 افراد بے گھر ہوئے جن میں غریبوں کی اکثریت ہے۔ اپریل؍ جون 2022 کے دوران آسام ، گجرات، مدھیہ پردیش، اُتر پردیش اور دہلی میں بطور سزا 128 مکانات منہدم کئے گئے۔ بہر اب ہندوستان میں بلڈوزر فاشسٹوں کے پُرتشددد نظریہ اور ان کی انسانیت دشمنی کی علامت بن گیا ہے۔ ظالموں کو یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ ایک دن یہی بلڈوزر ان کے مکانات پر بھی چل سکتے ہیں اور انہیں بھی زمین کے برابر کرسکتے ہیں۔