سیاست فیچر
غزہ پر اسرائیل کی بمباری اور زمینی حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔ 7 اکٹوبر 2023ء سے اب تک 60 ہزار سے زائد فلسطینیوں نے جام شہادت نوش کیا ہے اور زائداز 1.5 لاکھ فلسطینی زخمی ہوئے ہیں۔ اسرائیل نے غزہ کو پوری طرح قبرستان میں تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ آج بھی ہزاروں کی تعداد میں فلسطینی شہدا تباہ شدہ عمارتوں کے ملبہ تلے دبے ہوئے ہیں۔ اسرائیل کی درندگی اور اس کی انسانیت دشمنی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے غزہ میں غذائی اشیاء یا غذائی امداد اور ادویات پہنچانے سے اقوام متحدہ کو بھی روک دیا۔ یہ اور بات ہے کہ حالیہ دنوں میں عالمی برادری بالخصوص اسرائیل اور امریکہ کے حلیف ملکوں کی جانب سے برہمی کا اظہار کئے جانے کے بعد 100 امدادی ٹرکس مصر سے فلسطین میں داخل ہوئے۔ یہاں ایک بات ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ اسرائیل کی درندگی پر ساری دنیا میں احتجاج کیا جارہا ہے۔ اس معاملہ میں اسلامی اور عرب ملکوں سے کہیں زیادہ یوروپی و مغربی ملکوں کے عوام بہت آگے دکھائی دیتے ہیں جبکہ حکومتیں فلسطینیوں کے قتل عام، ان کی نسل کشی اور نسلی تطہیر پر مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ اس کے برعکس امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا، فرانس، جرمنی، برونئی، کمبوڈیا، کولمبیا، چین، ہانگ کانگ، جارجیا، انڈونیشیا، جاپان، کرغستان، ملیشیا، مالدیپ، نیپال، پاکستان، فلپائن، سنگاپور، جنوبی کوریا، سری لنکا، تھائی لینڈ، ازبکستان، البانیہ، بیلجیم، بوسنیا، ہرزیگونیا، بلغاریہ، کروشیا، قبرص، چیک جمہوریہ، ڈنمارک، اسٹونیا، فن لینڈ، جرمنی، یونان، ہنگری، آئی لینڈ، آئرلینڈ، اٹلی، لیتوپا، لتھوانیا، لگژمبرگ، مالدووا اور نیدرلینڈ کے ساتھ ساتھ شمالی مقدونیہ ناروے، پولینڈ، پرتگال، رومانیہ، روس، سربیا، سلووینیا، اسپین، سویڈن، سوئزرلینڈ، ویٹیکن، بحرین، مصر، ایران، عراق، اردن، کویت، لبنان، عمان، قطر، شام، ترکی، متحدہ عرب امارات، یمن، بارباڈوس، بیلانر جیسے ملکوں میں عوام نے احتجاج کیا جبکہ کچھ ایسے ملک بھی ہیں جہاں اسرائیل کی تائید میں مظاہرے ہوئے خاص کر یوکرین میں۔ اسرائیل کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں یونیورسٹی آف اٹاوہ، یونیورسٹی آف وکٹوریا، ونکوور آئی لینڈ یونیورسٹی، یونیورسٹی آف ویسٹرن انٹاریو، یونیورسٹی آف ٹورنٹو، ایم سی ماسٹر یونیورسٹی، یونیورسٹی آف وائرلو، یونیورسٹی آف مانی ٹویا، ٹرینٹ یونیورسٹی، Emily Carr University، یونیورسٹی آف ونڈسز، یونیورسٹی آف کیالگیری، یونیورسٹی آف نیو فاونڈ، ڈلہوزی یونیورسٹی، یونیورسٹی آف ساسکاچیون، یونیورسٹی آف ریگنا، یونیورسٹی آف گیولپ، سمن فریزر یونیورسٹی، کانکرڈیا یونیورسٹی، یارک یونیورسٹی، بروک یونیورسٹی ایسے بے مثال تعلیمی ادارے ہیں جہاں کے طلبہ نے بلالحاظ مذہب و ملت رنگ و نسل فلسطینیوں کی بھرپور تائید کرتے ہوئے فلسطین کو آزاد کرنے کا مطالبہ کیا۔ ان جامعات کے احتجاجی طلبہ میں سے کئی کو گرفتار بھی کیا گیا اور ان کے خلاف یونیورسٹی کیمپس میں پابندیاں بھی عائد کی گئیں۔ ٹرمپ انتظامیہ نے تو یہ اعلان کردیا کہ فلسطین کی تائید اور اسرائیل کی مخالفت میں احتجاج کو برداشت نہیں کیا جائے گا اور فلسطین کے حامی اور اسرائیل کے مخالف طلبہ کو امریکہ سے نکال باہر کیا جائے گا۔ دوسری طرف خود ہمارے ملک کی اُن ریاستوں میں جہاں بی جے پی زیراقتدار ہے فلسطین اور فلسطینیوں کی تائید و حمایت میں مظاہرے کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی گئی، انھیں جیلوں میں ٹھونسا گیا حالانکہ ہندوستان میں کوئی مطلق العنان حکومت یا آمرانہ حکومت نہیں ہے بلکہ یہاں جمہوریت اور سیکولرازم ہے اور عوام کو اظہار خیال کی آزادی دستور نے فراہم کی ہے اور عوام کسی بھی مسئلہ پر احتجاج کرسکتے ہیں۔ خود جدوجہد آزادی میں مجاہدین آزادی نے انگریزوں کے خلاف زبردست احتجاج کیا اور انگریز چونکہ مجاہدین آزادی سے خوف میں مبتلا تھے اس لئے وہ ان مجاہدین آزادی کو جو اپنے ملک کو انگریزوں کی غلامی سے آزادی دلانے کے خواہاں تھے دہشت گرد قرار دیا کرتے تھے اور احتجاجی طور پر پھانسی بھی دیا کرتے تھے۔ مودی حکومت ہو یا یوگی حکومت ہو اگر انسانیت کا ساتھ دینے سے گریز کرتے ہوئے اُس اسرائیل اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی راست یا بالواسطہ تائید و حمایت کرتے ہیں (اور کر بھی رہے ہیں) تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان لوگوں نے فلسطین اور فلسطینیوں کے کاز سے متعلق ہندوستان کی خارجہ پالیسی سے انحراف کرلیا ہے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ امریکہ اور امریکی صدر نے حالیہ عرصہ کے دوران روس کو انتباہ دیا ہے کہ اگر وہ 8 یا 10 اگست تک یوکرین کے ساتھ امن معاہدہ نہیں کرتا ہے تو پھر اسے سنگین نتائج اور پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ حیرت اس بات کی ہے کہ اسرائیل کے فضائی اور زمینی حملوں میں ہر روز زائداز 100 فلسطینی شہید ہورہے ہیں جبکہ فی الوقت فلسطینی، اسرائیل کی انسانیت دشمنی کے نتیجہ میں فاقہ کشی کا شکار ہیں، فاقہ کشی سے اب تک 158 فلسطینی معصوم بچے شہید ہوچکے ہیں۔ اسرائیل زندہ فلسطینیوں پر تو دور شہید فلسطینیوں کی قبور پر بھی بمباری کررہا ہے۔ اس طرح وہ شہیدوں کو دوبارہ شہید کرتا جارہا ہے۔ ایک اچھی بات یہ ہوئی کہ خود اسرائیلی باشندے بھی اسرائیلی درندگی کی مذمت کرتے ہوئے احتجاجی مظاہرے کرنے لگے ہیں۔ انھیں بھی اندازہ ہوگیا ہے کہ اسرائیلی حکومت جان بوجھ کر فلسطینیوں کا قتل عام کررہی ہے اور خاص طور پر بچوں اور خواتین کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اس طرح کی ظالمانہ کارروائیوں کے ذریعہ وہ (نیتن یاہو) حکومت اسرائیلی شہریوں کی زندگی کو خطرہ میں ڈال رہی ہے۔ افسوس اس بات پر ہے کہ امریکہ اسرائیل کو نہتے فلسطینیوں پر بمباری، فائرنگ اور زمینی حملوں سے روکنے کے بجائے ہر لحاظ سے اس کی مدد کرتا جارہا ہے۔ انسانیت کے خلاف اس کے جرائم پر پردے ڈالتا جارہا ہے۔ اسرائیل کو فوجی امداد فراہم کررہا ہے اور اپنی اس اسرائیل نواز پالیسی کے تحت اس نے ایران کے جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا اور یہ اعلان کیاکہ ہم ایران کو کبھی بھی جوہری طاقت بننے نہیں دیں گے۔ دنیا میں جس طرح اسرائیل اور اس کے حلیفوں کے خلاف احتجاج کیا جارہا ہے اس میں یوروپی یونیورسٹیز کے طلبہ کا اہم کردار ہے۔ ان طلبہ نے FREE PALASTINE کے ایسے نعرے بلند کئے کہ ان کی گونج ساری دنیا میں سنائی دے رہی ہے۔ ایسے میں مودی حکومت کو چاہئے کہ اسرائیل نواز پالیسی سے گریز کرے اور حق و انصاف کا ساتھ دے کر فلسطینیوں کی مدد کرے۔ سونیا گاندھی سے لے کر راہول گاندھی اور پرینکا گاندھی نے بہت ہی پراثر انداز میں اس معاملہ پر مودی حکومت کو شرم دلائی۔ سونیا گاندھی نے ایک ہندی اخبار کے لئے لکھے گئے اپنے مضمون میں اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کے قتل عام پر مودی حکومت کی خاموشی اور اس کی بے حسی پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ یہ مودی حکومت کی شرمناک خاموشی ہے اور یہ ایک National Shame ہے۔ آج ہندوستان یا امریکہ ہی نہیں ساری دنیا کو بیدار ہوجانا چاہئے کہ اسرائیل ان فلسطینیوں کو بھی شہید کرنے میں ذرا سی بھی شرم محسوس نہیں کررہا ہے جو غذائی امداد حاصل کرنے کے لئے پہنچتے ہیں۔