فلم ’’فرحہ ‘‘ اِسرائیل کے مظالم کی حقیقی داستاں’’کشمیر فائیلس‘‘ جھوٹ کا پلندہ

   

زاہد فاروقی

آج کل ہمارے وطن عزیز ہندوستان میں ’’کشمیر فائیلس‘‘ جیسی فلم اور عالمی سطح پر فلسطینی نکبہ سے متعلق تیار کی گئی فلم ’’فرحہ‘‘ کے کافی چرچے ہیں۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ ایک فلم کی ہندوستان میں سرگرم فرقہ پرست (جو خود کے قوم پرست ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں) زبردست تائید کررہے ہیں۔ اسے کئی ریاستوں میں تفریحی ٹیکس سے استثنیٰ دیا گیا ہے۔ بعض ریاستوں میں تو محکمہ پولیس اور دوسرے محکموں کے ملازمین کو یہ فلم دیکھنے کیلئے چھٹی بھی دی گئی۔ حد تو یہ ہے کہ سرکاری سطح پر بھی اس فلم کی سرپرستی کی جارہی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ صرف اور صرف جھوٹ و دروغ گوئی پر مبنی اس فلم کو سچے واقعات پر مبنی فلم قرار دے کر عوام کو گمراہ کیا جارہا ہے۔ اس فلم کے ذریعہ ایک مخصوص نظریہ ایک مخصوص سیاسی جماعت کو بڑھاوا دینے اس کے اقتدار کو مستحکم کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں اور بدقسمتی سے ہمارے عوام یہ نہیں سمجھ پاتے کہ مذہب کے نام پر انہیں استعمال کیا جارہا ہے۔ ان کے ووٹ حاصل کرکے ایک سیاسی جماعت اور اس کی سرپرست تنظیم اپنا اُلو سیدھا کررہی ہے، حالانکہ یہ وہی عناصر ہیں، جن کی صفوں سے نکل کر ناتھو رام گوڈسے نے عدم تشدد کا پیام پھیلانے اور عدم تشدد کو ہندوستان کی پہچان اس کی علامت بنانے والے گاندھی جی کے جسم میں 3 گولیاں اُتار دیں (ویسے ناتھورام گوڈسے نے جملہ 7 گولیاں چلائی تھیں لیکن 2 گولیاں گاندھی جی کے سینے اور ایک گولی پیٹ میں دھنس گئی) تاریخ نے شاید اپنے ذہن میں وہ منظر بھی محفوظ رکھا ہوگا جب چمپارن (بہار) کے بطخ میاں نے گاندھی جی کی زندگی بچائی تھی۔ انگریزوں نے انہیں گاندھی جی کے قتل کیلئے کھانے میں زہر ملا دینے کا حکم دیا تھا لیکن بطخ میاں نے گاندھی جی کو زہر دے کر موت کے گھاٹ اتارنے سے یہ کہتے ہوئے انکار کردیا تھا کہ ایک مسلمان اس طرح کی غداری ہرگز نہیں کرسکتا۔ آج ملک کو گاندھی جی کی ضرورت ہے، ایسے میں بطخ میاں تو مرسکتا ہے لیکن اپنی موت کے ذریعہ وہ گاندھی جی کو زندگی دے سکتا ہے تاکہ ملک کو آزادی ملے۔ دوسری طرف سچائی پر مبنی فلم ’’فرحہ‘‘ کی اسرائیل مذمت کررہا ہے۔ بہرحال ہم بات کررہے تھے۔ جھوٹ اور سچ، فرضی اور حقیقی واقعات پر بنائی گئی دو فلموں کی ایک فلم ’’کشمیر فائیلس‘‘ کے بارے میں ہم نے آپ کو مختصراً بنایا ہے جبکہ عالمی سطح پر جس فلم کے چرچے کی ہم نے بات کی، وہ ایک اُردنی فلم ’’فرحہ‘‘ ہے جس کے ذریعہ فلم کے ڈائریکٹر ڈرین ج سلام نے ڈسمبر 1947ء تا جنوری 1949ء ارض مقدس ’’فلسطین‘‘ میں پیش آئے واقعات میں سے ایک ایسے دردناک و المناک واقعہ کو پیش کیا جس سے اس کرہ ارض کی ناجائز مملکت ’’اسرائیل‘‘ کی درندگی، نہتے فلسطینیوں پر اس کے بدترین مظالم خاص کر فلسطینیوں کی نسلی تطہیر انہیں ان کے ملک سے نکال باہر کرنے، انہیں ان کے اپنے گھروں سے بے گھر کرنے، فلسطینی جوانوں، بوڑھوں، خواتین، نوجوان لڑکیوں اور معصوم شیرخوار یہاں تک کہ نومولود بچوں کے انتہائی سفاکانہ و بے دردی سے قتل کئے جانے کا اندازہ ہوتا ہے۔ اسرائیل کا قیام دراصل عربوں کے قلب میں خنجر گھونپنے کے مترادف ہے اور اس معاملے میں مغربی طاقتوں بالخصوص برطانیہ کا کردار انتہائی معاندانہ اور قابل مذمت رہا ہے۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ 1948ء میں اسرائیلی IDF نے اپنے آقاؤں کی تائید اور عربوں کی مجرمانہ غفلت کے باعث ارض مقدس فلسطین سے 7.5 لاکھ فلسطینی باشندوں کو ان کے گھروں سے بیدخل کرکے ارض مقدس سے نکال دیا تھا۔ اس وقت 400 تا 600 فلسطینی گاؤں تباہ و برباد کردیئے گئے تھے۔ شہروں کے نام و نشان مٹا دیئے گئے تھے۔ اسرائیلی فورسیس نے فلسطینی گاؤں یا دیہاتوں میں مقیم فلسطینیوں کا زبردستی تخلیہ کروایا۔ کئی خاندانوں کو عورتوں اور گود کے بچوں سمیت شہید کیا لیکن قابل مبارکباد ہے، فلسطینی باشندے جو دنیا کے شرپسند ممالک کی تائید کے ذریعہ عصری ہتھیاروں، دبابوں، میزائلوں، مہلک بموں اور بندوق کی گولیوں کا صرف اور صرف اپنے رب کے عطا کردہ ایمان کے ذریعہ آج تک مقابلہ کررہے ہیں۔ اللہ رب العزت نے اسرائیلی دبابوں کے جواب میں فلسطینی بچوں کے ہاتھوں میں موجودہ غلیلوں اور پتھروں کو ایک موثر ہتھیار بنادیا ہے۔ فلسطینیوں کے غلیلوں سے نکلنے والے کنکر اور ہاتھوں سے برسنے والے سنگ اسرائیلیوں کے خلاف میزائل ثابت ہوتے ہیں۔ ان پر غلیلوں اور پتھروں سے ہی خوف و ہیبت طاری ہوتی ہے۔ فلسطینی چند فولادی ٹکڑوں سے اسرائیلی آئرن ڈیفنس ڈوم کی مصنوعی ذہانت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرکے لاکھوں ڈالرس مالیتی میزائلس کو تباہ کردیتے ہیں۔ فلسطینی ہر روز ارض مقدس اور بالخصوص مسجد اقصیٰ کے تحفظ کیلئے اپنی جانوں کے نذرانہ پیش کرتے ہوئے امت ِ مسلمہ کو علامہ اقبالؔ کے کلام کے ذریعہ یہ پیغام دیتے ہیں:
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اب فلسطینیوں کیلئے اپنی جانوں کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہی۔ وہ مسجد اقصیٰ اور ارضِ مقدس کے تحفظ کیلئے جام شہادت نوش کررہے ہیں جبکہ اسرائیل کے لاکھ مظالم کے باوجود فلسطینیوں کی شہادتوں نے اسرائیل اور اس کے آقاؤں پر ایک عجیب قسم کا خوف طاری کردیا ہے۔ فلسطینیوں نے 1948ء میں اپنے دوست احباب کو ملک سے نکالے جانے یعنی اخراج یا ہجرت کو ’’النکبہ‘‘ کا نام دیا اور ہر سال مئی میں یوم النکبہ منایا جاتا ہے۔ اس وقت 7.5 لاکھ فلسطینیوں کو ملک سے بیدخل کرکے اسرائیل نے وہاں یہودیوں کو بسایا تھا۔ نئی یہودی بستیاں آباد کی تھیں۔ آپ کو بتادیں کہ آج جس علاقہ کو صیہونی اور ان کے حامی ’’اسرائیل‘‘ کہتے ہیں، وہاں کے 80% عرب باشندوں کو زبردستی نکالا گیا اور تب سے اسرائیل ، فلسطینیوں کے حق واپسی کو ماننے سے انکار کررہا ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ عرب ۔ اسرائیل جنگ کے بعد جب فلسطینیوں نے واپسی کی کوشش کی، اسرائیل کے ہاتھوں 5,000 فلسطینی جاں بحق ہوئے لیکن دنیا نے ان کی قربانیوں اور اسرائیلی مظالم کو نظرانداز کردیا۔ ڈربن ج سلام کی ہدایت میںسچے واقعات پر مبنی فلم فرحہ کے ذریعہ اسرائیلی درندگی کو بے نقاب کرنے کی بہترین کوشش کی گئی جہاں تک اس فلم کا سوال ہے، دراصل سلام کو یہ سچا واقعہ بچپن میں سنایا گیا تھا جس میں لڑکی کا نام رضیہ تھا اور اس کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا تھا اور اس نے جو کچھ دیکھا تھا جس خطرناک صورتحال سے گذری تھی اس نے شام کے ایک پناہ گزین کیمپ میں سلام کی والدہ کو سنائی تھی اور سلام نے جن کی 5 فلموں کو باوقار ایوارڈس حاصل ہوچکے ہیں۔ رضیہ کی تلخ یادوں پر مبنی یہ فلم بنائی جس میں رضیہ کا کردار کرم طاہر نے ادا کیا اور اسے فرحہ کا نام دیا گیا۔ ٹیلی باکس نے اسے پروڈیوس کیا۔ لائنکا فلم اینڈ ٹیلی ویژن اور چمنی اس فلم کے معاون پروڈیوسرس ہیں۔ آپ کو بتادیں کہ اُردن میں اس فلم کی شوٹنگ کی گئی۔ فلم کا پریمیئر ٹورنٹو فلم فیسٹیول میں 14 ستمبر 2021ء کو ہوا اور یکم ڈسمبر 2022ء سے Netflix پر اس کی نمائش جاری ہے۔ بوسان روم میں بھی یہ فلم دکھائی گئی۔ برطانیہ میں بھی اس کا پریمیئر ہوا۔ ساتھ ہی فلسطینین سنیما ڈیز فیسٹیول رملہ ، عمان انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں بھی اس کی نمائش کی گئی۔ 95 اکیڈیمی ایوارڈ (آسکر) کیلئے بھی پیش کیا جارہا ہے۔ اسرائیل کی درندگی سے دنیا کو واقف کروانے والی اس فلم کے خلاف اسرائیلی حکومت اور صیہونی تنظیمیں چراغ پا ہوگئی ہیں اور ہوسکتا ہے کہ Netflix اور یوٹیوب سے بھی یہ فلم نکال دی جائے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ فلم میں 14 سالہ فرحہ کا رول ادا کرنے والی کرم طاہر کی یہ پہلی فلم ہے۔ اس کی کاسٹنگ بھی مختصر ہے۔ فرحہ، ابو فرحہ، ابو ولید، فریدہ، ام محمد، ابو محمد جیسے کردار کے ذریعہ فلم کو پراثر بنایا گیا ہے۔ اس فلم میں 14 سالہ فرحہ کو اس کے والد اسرائیلی ڈیفنس فورس کے خلاف لڑائی کیلئے اپنے گھر کے تنگ و تاریک اسٹور روم میں بند کرکے چلے جاتے ہیں اور پھر اس اسٹور روم کے دروازوں کی درازوں اور روشن دان سے فرحہ اسرائیلی فورس کی بربریت کا مشاہدہ کرتی ہے۔ وہ دیکھتی ہے کہ کس طرح اس کے ایک پڑوسی خاندان کو جو میاں بیوی، ان کے دو بیٹیوں اور چند گھنٹے قبل پیدا ہوئے نومولود محمد پر مشتمل ہے۔ کس طرح اسرائیلی فورس شیطانیت کا مظاہرہ کرکے قتل کرتی اور جب نومولود بچہ زمین پر گرجاتا ہے تب اسرائیلی فوجی عہدیدار اپنے ماتحت سے یہ کہنے لگتا ہے کہ مولود پر گولی چلاکر اپنی گولی ضائع مت کرنا تب وہ اپنے پاؤں تلے اس نومولود کو کچل دیتا ہے ، جس کے ساتھ ہی نومولود کا رونا بند ہوجاتا ہے۔ بہرحال حق اور سچائی پر مبنی اس فلم پر اسرائیلی حکومت تلملائی ہوئی ہے حالانکہ اسے Baby Killer کہنے میں شاید کسی کو اعتراض نہ ہوگا۔