’’قانونِ بغاوت ‘‘ختم کرنے میں ہچکچاہٹ کیوں؟

   

عامر علی خاں
نیوز ایڈیٹر سیاست
نوآبادیاتی دور کے قانون بغاوت یعنی تعزیرات ہند کی دفعہ 124A کے خلاف ویسے تو انگریز سامراج کے دور میں آوازیں اُٹھنے لگی تھیں لیکن اب ہمارے ملک کی عدالت ِ عظمی نے اس دفعہ کے تحت درج تمام زیرالتواء مقدمات ، درخواستوں اور کارروائیوں کو ملتوی رکھنے کا حکم دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے دفعہ 124A پر عبوری روک لگا دی ہے جس پر مودی حکومت اور اس کے حامی تلملاکر رہ گئے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو گزشتہ آٹھ برسوں کے دوران ہمارے وطن عزیز میں جو کچھ ہوا ہے، وہ آزادی کے پچھلے 75 برسوں میں نہیں ہوا تھا۔ ملک نے اس عرصہ میں جو کچھ دیکھا، شاید تاریخ کو بھی اس کے مشاہدہ پر افسوس ہوا ہوگا۔ ہمارے ملک اور ملک کے باشندوں کی یہ بدقسمتی رہی کہ اسے مسلسل لوٹا گیا، اسے تباہ و برباد کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی، اس کے باوجود ہندوستان دائم و قائم ہے۔ ہم بات کررہے تھے اقتدار کے بیجا استعمال اور قانون سے کھلواڑ کی، اگر دیکھا جائے تو اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ موجودہ حکومت میں جمہوریت، سکیولرازم، ملک کی گنگا جمنی تہذیب، فرقہ وارانہ ہم آہنگی، اُخوت و بھائی چارگی اور انسانیت پر مبنی ہندوستانی روایات کو ملیامیٹ کرنے کی ہر ممکن کوشش کرلی گئی۔ تاہم خود کے ’قوم پرست‘ ہونے کا دعویٰ کرنے والے فرقہ پرستوں کو مکمل کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ اقتدار کے بیجا استعمال اور قانون سے کھلواڑ کی جب بات آتی ہے تو یہ برملا کہا جاسکتا ہے کہ اقتدار کے ایوانوں پر قابض عناصر نے زندگی کے ہر شعبہ میں دوہرے یا دوغلے پن، تعصب و جانبداری کو یقینی بنایا۔ مثال کے طور پر دھرم سنسد کے ذریعہ ملک میں مسلمانوں کو قتل عام کی دھمکی دینے یا پھر مسلم خواتین کو گھروں سے اُٹھاکر برسر عام ان کی عصمت ریزی کرنے کا انتباہ اور بابائے قوم مہاتما گاندھی کے بارے میں انتہائی بیہودہ و فحش الفاظ استعمال کرنے اور قانون کی دھجیاں اُڑانے والوں کو پہلے تو نظرانداز کردیا جاتا ہے اور جب ملک و بیرون ملک میں ان کے خلاف کارروائی کرنے میں حکومتوں اور نفاذ قانون کی ایجنسیوں کے مجرمانہ تساہل پر آوازیں اٹھتی ہیں تو بادل نخواستہ ایسے عناصر کی گرفتاری عمل میں آتی ہے اور پھر عدالتیں انہیں ہفتہ دس دن میں ضمانتیں منظور کرتے ہوئے رہا کردیتی ہیں اور یہ ضمیر فروش آزاد ہوجاتے ہیں۔ ارنب گوسوامی، یتی نرسنگھانند سرسوتی اور اس کی قبیل کے دیگر سوامیوں کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں، اس کے برعکس جے این یو طالب علم شرجیل امام، عمر خالد، صحافی صدیق کپن دو دو ، تین تین برسوں سے جیلوں میں بند ہیں جبکہ مبلغ اسلام مولانا کلیم صدیقی ، عمر گوتم اور مفتی جہانگیر بھی کافی عرصہ سے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں۔ حکومتوں اور قانون کا ناجائز استعمال بلکہ کھلواڑ کرنے والوں کو شاید یہ اندازہ نہیں کہ اس طرح کی سزائیں ان کے حوصلوں و عزائم کو ہرگز کم نہیں کرسکتے۔ آج جو طاقتیں ، قوم پرست ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کرکے اپنے اقتدار کا استحکام اور اپنے ناپاک عزائم و ایجنڈہ کی تکمیل چاہتی ہیں۔ انہیں اچھی طرح اندازہ ہے کہ ملک کی آزادی کے متوالوں اور ملک پر جاں نثار کرنے والوں میں علمائے کرام کی تعداد سب سے زیادہ تھی اور انگریزوں کو سب سے زیادہ اگر کسی سے خوف تھا تو وہ علمائے کرام ہی تھے جس کے نتیجہ میں برطانوی سامراج نے چن چن کر مسلم مجاہدین آزادی کو نشانہ بنایا۔ اپنے زر خرید غلاموں کے ذریعہ ان کے خلاف مخبری کروائی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک کے طول و عرض میں راستوں کے کنارے درختوں پر پھلوں کی طرح علماء کی نعشیں لٹکتی نظر آئی تھیں۔ بہرحال جہاں تک قانون بغاوت کا سوال ہے اس بارے میں راقم الحروف یہ بتانا ضروری سمجھتا ہے کہ 17 صدی میں بغاوت اور غداری کا قانون برطانیہ میں مدون کیا گیا جس کا مقصد تاجِ برطانیہ کے خلاف اُٹھنے والی ناراض آوازوں کو دَبانا تھا جو کوئی حکومت کے خلاف اُٹھ کھڑا ہوتا، اسے قانون بغاوت (Sedition Law) کے تحت گرفتار کرکے جیل میں بند کردیا جاتا اور برسوں تک وہ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے اس دارِ فانی سے کوچ کر جاتا یا پھر اپنے اصولوں سے سمجھوتہ کرکے رہائی پالیتا۔
انگریزوں نے جب دیکھا کہ ہندوستان میں شاہ ولی اللہ اور آپ کے حامیوں کی تحریک کے اثرات کو پوری طرح ختم نہیں کیا جاسکا تب انہیں ایک اور فکر ستانے لگی کہ مسلمانوں بالخصوص علمائے کرام میں جذبہ جہاد و شہادت کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے اور علمائے کرام کا یہ جذبہ برطانوی سامراج کی اینٹ سے اینٹ بجا سکتا ہے اور تاج برطانیہ کے اقتدار کا سورج غروب کرسکتا ہے، ایسے میں برطانیہ میں مدون کردہ قانونِ بغاوت ہندوستان میں متعارف کروایا گیا اور 1870ء میں باضابطہ اسے ’’تعزیراتِ ہند‘‘ Indian Penal Code یا IPC میں شامل کیا گیا۔ واضح رہے کہ بال گنگا دھر تلک، مہاتما گاندھی، مولانا شوکت علی، مولانا محمد علی جوہر، مولانا ابوالکلام آزاد جیسے مجاہدین آزادی کے خلاف قانون بغاوت کا بیجا استعمال کیا گیا۔ 1922ء میں جب مولانا ابوالکلام آزاد کے خلاف بغاوت کا مقدمہ چلایا گیا تب انہوں نے ایک یادگار بیان دیا تھا جو ’’قولِ فیصل‘‘ میں کچھ اس طرح درج ہے۔ ’’اسلام کسی حال میں جائز نہیں رکھتا کہ مسلمان آزادی کھوکر زندگی بسر کریں، انہیں مرجانا چاہئے یا آزاد رہنا چاہئے۔ تیسری راہِ اسلام میں کوئی نہیں‘‘۔ عدالتوں کی ناانصافیوں پر بھی نکتہ چینی کرتے ہوئے مولانا آزاد نے کلکتہ کی عدالت میں جو بیان تھا، وہ آج بھی تاریخ میں سنہری الفاظ میں درج ہے۔ انہوں نے کہا تھا ’’تاریخ عالم کی سب سے بڑی ناانصافیاں میدان جنگ کے بعد عدالت کے ایوانوں میں ہوئی ہیں، میں سیاہ کو سفید کہنے سے انکار کرتا ہوں۔ جدوجہد آزادی کی تاریخ میں سال 1921ء کافی اہمیت رکھتا ہے جب کراچی میں مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی اور شری شنکر اچاریہ تینوں کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کیا گیا تھا ، جہاں تک بال گنگا دھر تلک کے خلاف Sedition Law کے استعمال کا سوال ہے، 1897ء میں اس دفعہ کے تحت ان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا اور 1908ء میں بھی ان کے ساتھ یہی معاملہ پیش آیا جس پر بال گنگا دھر تلک نے کہا تھا : ’’ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے سارے ملک کو جیل خانہ اور سارے ہندوستانیوں کو قیدیوں میں تبدیل کردیا ہے‘‘۔ بال گنگا دھر کے خلاف جب انگریزوں نے تیسری مرتبہ بغاوت کا مقدمہ درج کیا تب ان کے دوست بیرسٹر محمد علی جناح نے ان کا مقدمہ لڑا اور انگریزوں کی لاکھ کوششوں کے باوجود گنگا دھر تلک کو بری کروایا۔ اس طرح Young India میں مضمون پر گاندھی جی کے خلاف بھی بغاوت کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ آپ سب جانتے ہیں کہ جدوجہد آزادی میں صحافت نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ آپ کو بتادیں کہ آئی پی سی 1860ء میں مدون کیا گیا اور اس کی دفعات 121A اور 124A، 1870ء میں متعارف کروائی گئی اور انگریزوں نے اس دفعہ کا پہلا استعمال بھی ’صحافت‘ کے خلاف کیا۔ 1892ء میں ایک بنگالی ہفتہ وار ’’ہنگوباسی‘‘ کے ایڈیٹر، پرنٹر، پبلیشر جوگندر چندر بوس کو قانون بغاوت کے ذریعہ نشانہ بنایا گیا۔ صحافیوں کو اس قانو کے ذریعہ ڈرانے، دھمکانے اور نشانہ بنانے کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ ملک کے نڈر و بیباک صحافی آنجہانی ونود دُوا کے خلاف بھی مودی حکومت میں بغاوت کا مقدمہ درج کیا گیا تھا، لیکن سپریم کورٹ نے اسے کالعدم قرار دیا۔ اس قانون کا کس طرح بیجا استعمال کیا گیا، اس کا اندازہ کانگریس کے سینئر لیڈر اور ممتاز قانون داں کپل سبل کے اس بیان سے ہوتا ہے کہ ملک میں قانون بغاوت کے تحت درج کئے گئے 800 مقدمات زیردوران ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ جیلوں میں بند ہیں۔ مئی 2014ء میں مودی جی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد 405 شخصیتوں کے خلاف بغاوت کے مقدمات درج کئے گئے خاص طور پر حقوق انسانی کے جہد کاروں، شہریت ترمیمی قانون کے مخالفین، حکومت کو حقیقت کا آئینہ دکھانے ، ملک میں ہونے والے شرمناک واقعات پر مودی جی کو خاموشی توڑنے کا مشورہ دینے والی شخصیتوں، صحافیوں، ادیبوں، شاعروں، سیاسی مخالفین، اسٹوڈنٹس لیڈروں کو اس قانون کے ذریعہ نشانہ بنایا گیا جن میں کنہیا کمار، عمر خالد، شرجیل امام ،صدیق کپن، انیربن بھٹا چاریہ، صحافی کشور، چندرا وانگ کھیم چا، دیشا روی (Tool Kit Case میں شہرت پانے والی) شامل ہیں۔ ہمارے ملک میں حکومتوں نے اس قانون کا جس طرح ناجائز استعمال کیا گیا، اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ بہار کی 49 ممتاز شخصیتوں نے وزیراعظم کے نام کھلا خط لکھا، حکومت کو وہ خط اس قدر برا لگا کہ ان تمام کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کردیا گیا۔ اس طرح کے سیاہ قوانین سے صرف اور صرف انصاف اور انسانیت کا قتل ہوتا ہے۔ مثلاً انسداد دہشت گردی قانون کے ناجائز استعمال کے نتیجہ میں انتہائی ضعیف العمر اسٹین سوامی کی موت ہوئی۔ ہندوستان میں Sedition Law کو یقیناً برخاست کیا جانا چاہئے کیونکہ جس ملک میں اس قانون کی پیدائش ہوئی (یعنی مدون کیا گیا) ، وہاں (برطانیہ) سال 2009ء میں ہی اسے ختم کردیا گیا۔ مودی جی اور بی جے پی غلامی کی یادگاروں کو ختم کرنے کے نام پر نئی پارلیمنٹ (سنٹرل وِسٹا پراجیکٹ) شروع کرتی ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ وہ قانون بغاوت کی حمایت میں مصروف ہے۔ ویسے آج بھی ہمارے ملک میں تھامس ہابنگٹن مکاولے کی قیادت میں 1834ء میں تیار کردہ آئی پی سی کا ہی استعمال یا اطلاق ہورہا ہے۔ آئی پی سی کے 23 ابواب اور 511 دفعات کے تحت ہی قانونی کارروائیاں ہورہی ہیں، اگرچہ اس میں 75 مرتبہ ترمیمات کی گئی ہیں، پھر بھی سابق وزیر داخلہ و فینانس مسٹر پی چدمبرم اور کئی ایک ماہرین قانون کے مطابق قانون بغاوت، دستور کی دفعات 19 اور 21 کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ واضح رہے کہ 2014ء سے بغاوت کے مقدمات میں زبردست اضافہ ہوا۔ 2010ء سے 10,938 افراد کے خلاف بغاوت کے مقدمات درج کئے گئے جس میں سے 65% (7109.7) بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد درج کئے گئے اور حیرت اس بات پر ہے کہ حکومت کے خلاف احتجاج، سوشیل میڈیا پر پوسٹس ، نعرہ بازی، حد تو یہ ہے کہ دلت لڑکی کی اجتماعی عصمت ریزی پر سوال اٹھانے پر مقدمات درج کئے گئے۔ بہرحال سپریم کورٹ نے اچھی پہل کی ہے، غلامی کے دور کی اس نشانی کو یقینا ختم کردینا چاہئے۔