قبائلیوں کو ہندو بنانے سنگھ پریوار کے ون واسی کلیان آشرم

   

رام پنیانی
جاریہ ماہ کی 6 جولائی کو ایک بی جے پی ورکر پرویش شکلا نے ایک آدی واسی ( قبائلی) کے سر پر پیشاب کردیا۔ پرویش شکلا اس علاقہ کے رکن اسمبلی کیدر ناتھ شکلا کا قریبی آدمی ہے۔ جس وقت پرویش غریب بے بس و مجبور اور کمزور دسمت راوت کے سر پر پیشاب کر رہا تھا اس کا دوست دیپ نارائن ساہو سارے واقعہ یا منظر کی ویڈیو ریکارڈنگ کر رہا تھا جبکہ راوت خوف و دہشت کے مارے خاموشی سے بدترین جرم برداشت کر رہاتھا لیکن جیس ہی وہ ویڈیو منظر عام پر آیا مدھیہ پردیش کے چیف منسٹر شیوراج سنگھ چوہان نے دعویٰ کیا کہ دسمت ہی متاثرہ شحص ہے لیکن دسمت نے اس سے انکار کیا ، اس کے باوجود چیف منسٹر نے اسے اپنی قیامگاہ طلب کیا ۔ جیسے ہی اس شرمناک حرکت کا ویڈیو وائرل ہوا ، ہر طرف سے مذمتی بیانات جاری کئے جانے لگے۔ چیف منسٹر شیوراج سنگھ چوہان کو واقعہ کی سنگینی کا اچھی طرح اندازہ ہوگیا ۔ انہوں ایک قبائلی پر ایک برہمن اور وہ بھی بی جے پی کا رکن کے پیشاب کرنے کے امکانی نتائج کو بھی اچھی طرح جان لیا ۔ انہوں نے دسمت راوت کو اپنی قیامگاہ طلب کیا۔ اس کی گلپوشی اور شال پوشی کی ساتھ ہی کچھ رقم بھی اس کے ہاتھوں میں رکھی۔ اس کے علاوہ یہ دریافت بھی کیا کہ آیا آپ (دسمت ) نے کوئی سرکاری اسکیم سے استفادہ بھی کیا یا نہیں ہے اس واقعہ سے اعلیٰ ذات کے غرور و تکبر اور قبائلیوں کی تابعداری اور انہیں زبردستی ذہنی غلام بنائے جانے کا اندازہ ہوتا ہے ۔ آپ کو جان کر حیرت ہوگی کہ چیف منسٹر شیوراج سنگھ چوہان نے پرویش شکلا کے مکان پر نہ صرف بلڈوزر بھیجا بلکہ اس کے مکان کے ناجائز طور پر تعمیر کردہ حصہ کو منہدم کردیا۔ ( یہاں پر بھی انہوں نے جانبداری کا مظاہرہ کیا ، اگر کسی مسلمان کا گھر ہوتا تو وہ صرف ایک حصہ کو منہدم نہیں کرتے بلکہ سارے گھر پر بلڈوزر چلادیتے۔ بہرحال شیوراج سنگھ چوہان نے جو کچھ کیا ایسا لگتا ہے کہ سیاسی و انتخابی مقاصد کو ذہن میں رکھتے ہوئے کیا ۔ انہوں نے سیاسی و انتخابی فائدہ حاصل کرنے کی خاطر بادل نخواستہ ایک قبائلی کے پیر دھلائے اور اسے رقم وغیرہ پیش کی۔ آپ کو بتادیں کہ جیسے ہی اس شرمناک واقعہ کا ویڈیو وائرل ہوا ، ممتاز بھوجپوری گلوکارہ نیہا سنگھ راٹھور نے ایک کارٹون پوسٹ کیا جس کے ساتھ ان کے خلاف ایک ایف آئی آر درج کی گئی ۔ (یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ مدھیہ پردیش کی آبادی میں 21 فیصد آبادی قبائلیوں کی ہے۔ یہ واقعہ اگرچہ ریاست میں قبائلیوں کی بدترین حالت زار ظاہر کرنے والا ایک معمولی واقعہ ہے ۔ مدھیہ پردیش میں قبائلیوں کے ساتھ اس سے بھی کہیں زیادہ بھیانک اور شرمناک واقعات پیش آچکے ہیں، ان پر مظالم کے ایسے ایسے واقعات پیش آچکے ہیں جن پر ہمارا سر شرم سے جھک جاتا ہے ۔ جیسا کہ ہم نے سطور بالا میں آپ کو بتایا کہ مدھیہ پردیش میں 21 فیصد قبائلی ہیں جن میں ایک کول قبائلی بھی ہیں اور دسمت راوت اسی قبائل سے تعلق رکھتا ہے ۔ اگر دیکھا جائے تو حقیقی متاثرہ شخص کون ہے ۔ اس بارے میں یقین سے نہیں کہا جاسکتا ہے کہ وہ کون ہوسکتا ہے ۔ جہاں تک دسمت راوت کا تعلق ہے اس کا قبیلہ کول، قبائلیوں کا تیسرا بڑا قبیلہ ہے ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ 47 اسمبلی حلقوں اور 7 پارلیمانی حلقوں میں قبائلیوں کو بادشاہ گر جیسی اہمیت حاصل ہے ۔ یعنی وہ ان اسمبلی اور پارلیمانی حلقوں میں کسی کو کامیاب بھی کرواسکتے ہیں یا کسی کو شکست سے دوچار بھی کرسکتے ہیں۔ گزشتہ اسمبلی انتخابات میں قبائلی علاقوں سے کانگریس نے زیادہ نشستوں پر کامیابی حاصل کی جس کے نتیجہ میں کانگسریس کے کمل ناتھ کو چیف منسٹر بننے میں مدد ملی، یہ اور بات ہے کہ آپریشن کنول کے ذریعہ کمل ناتھ کی حکومت گرادی گئی اور پھر بی جے پی کے شیوراج سنگھ چوہان عہدہ چیف منسٹری پر فائز ہوئے ۔ جہاں تک قبائلیوں کا سوال ہے ، بی جے پی نے ان کے تعلق سے ہمیشہ دوہری پالیسی اختیار کی اور وہ یہ دعویٰ کرتی رہی ہے کہ آدی واسی (قبائلی) ہندو ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ قبائلیوں کی تہذیب ان کی ثقافت بالکل جداگانہ ہے ۔ ان کی ا پنی روایات ان کے اپنے رسم و رواج ہوتے ہیں۔ مذہب سے متعلق قبائلیوں کا جو تصور ہے وہ بھی بالکل مختلف ہے ۔ بی جے پی کی سرپرست تنظیم آر ایس ایس نے ون واسی کلیان آشرم شروع کیا ہے تاکہ آدی واسیوں کو ہندو بنایا جائے اور انہیں ہندوؤں میں شمار کیا جاسکے۔ یہی وجہ ہے کہ آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیمیں آدی واسیوں (قبائلیوں) کو آدی واسی نہیں کہتے بلکہ صرف انہیں ون واسی ( جنگلات میں رہنے والے) کہتے ہیں۔ آر ایس ایس کی جانب سے انہیں آدی واسی نہ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ ہندو قوم پرستی کی ساری آئیڈیالوجی کی بنیاد اس دعویٰ پر ہیکہ ہندوز پہلے سے موجود ہیں اور صدیوں سے ہندو راشٹرا موجود ہے ۔ ایسے میں اگر آدی واسی ہندوستان کے اصل یا حقیقی باشندہ ہیں تو پھر سنگھ پریوار کا یہ دعویٰ کھوکھلا ثابت ہوجاتا ہے ۔ آپ کو بتادیں کہ ’’ون واسی کلیان آشرم آدی واسی علاقوں ڈانگس ، جھاپوا اور کندھامل میں خاص طور پر بہت زیادہ سرگرم ہے ۔ ان علاقوں میں وہ (آر ایس ایس) تہذیبی و ثقافتی میکانزم کے ذریعہ برہمنی تہذیب و ثقافت لاگو کرنے کی کوشش کر رہی ہے اس کے لئے ان لوگوں نے بڑی ہوشیاری بلکہ مکاری کے ذریعہ قبائلیوں کی مشہور و معروف ہستیوں کا انتخاب کر کے انہیں بہت بڑی ہستیوں کی شکل میں پیش کرنا شروع کیا ۔ آدی واسیوں کے بھگوانوں کے نام پر منادر بناکر ان سے پوجا اور میلے مخصوص کئے ۔ مثال کے طور پر ڈانگس میں شابری مندر ، شابری کمبھ (میلہ) وغیرہ اسی طرح ہنومان کو قبائلیوں کے سب سے دیوتا کی شکل میں پیش کیا گیا اور پیش کیا جارہا ہے ۔ بے سہارا شابری کو آر ایس ایس نے ان کی مورتی کے طور پر پیش کیا جس کا مقصد آدی واسیوں کی محرومی برقرار رکھنا ہوسکتا ہے ۔ اصل دیکھا جائے تو ان طاقتوں کو قبائلیوں یا ان کے مفادات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے بلکہ اپنے مفادات کے تحفظ کی فکر لاحق ہے ۔ جیسا کہ دیو مالا ئی کہانیاں ہیں ، ان کے مطابق شابری نے شری رام کو بیر پیش کئے کیونکہ اس کے پاس شری رام کو پیش کرنے کیلئے کچھ بھی نہیں تھا ۔ شابری میلے ڈانگس اور مدھیہ پردیش کے قبائلی علاقوں میں منعقد کئے جاتے ہیں تاکہ تہذیب و ثقافت کے ذریعہ قبائلیوں کے دل جیتے جاسکیں۔ مثال کے طور پر ان علاقوں میں ار ایس ایس کی جانب سے ہنومان کو سب سے بڑے دیوتا کے طور پر پیش کرنے کے کیا مقصد ہوسکتے ہیں سب اچھی طرح جانتے ہیں جبکہ شہری علاقوں میں شری رام کو سب سے بڑے دیوتا کی حیثیت سے پیش کیا جاتا ہے ۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہنومان کو آدی واسی علاقوں میں سب سے بڑے دیوتا کے طور پر کیوں پیش کیا جاتا ہے ؟ ان علاقوں میں ICO NS کا دن کی تاریخ سے انتخاب کیا جاتا ہے اور پھر انہیں مسلمانوں کے خلاف ٹھہرایا جاتا ہے ۔ مثال کے طور پر راج بھر کمیونٹی کیلئے سوہیل اور مدھیہ پردیش میں ورنگانا درگاوتی گورو یاترا منظم کی جاتی ہے ۔ ہاں ایک اور آدی واسی رانی کملاپتی کو بھی آئیکن کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور اسی کے نتیجہ میں حبیب گنج اسٹیشن کا نام تبدیل کر کے رانی کملاپتی ریلوے اسٹیشن رکھا گیا ہے اور رانی کملاپتی کی یاد میں ایک میوزیم قائم کرنے کا بھی منصوبہ بنایا گیا ہے ۔ اسی طرح کول جنپتی مہاکمھ (سالانہ میلہ) اس کمیونٹی کی تائید و حمایت حاصل کرنے ان کے دل جیتنے خاص طور پر انتخابی فائدہ حاصل کرنے اور اعلیٰ ذات کی سیاست کے تحت ان قبائلیوں کو لانے کیلئے منعقد کیا جاتا ہے ۔
ون واسی کلیان آشرم ایک جانب ان برادریوں میں خدمت بجالارہا ہے ۔ ان کا سنسکرت کرن کیا جارہا ہے اور اعلیٰ ذات کا تابعدار بنایا جارہا ہے ۔ دوسری طرف ان قبائلیوں کو علاقہ میں سرگرم عیسائی مشنریوں سے دور رکھنے کی حتی المقدور کوشش کی جارہی ہے کیونکہ سنگھ پریوار کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اگر قبائلی عیسائی مشنریز کے قریب جائیں گے تو عیسائیت قبول کرلیں گے ۔ آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیمیں ان قبائلی علاقوں میں علاقہ میں کام کرنے والی عیسائی مشنریز کو نشانہ بنارہی ہیں اور ان کے خلاف ماحول تیار کر رہی ہیں ۔ عیسائی مشنریز زیادہ تر صحت و تعلیم کے شعبوں میں کام کرتی ہیں ۔ نتیجہ میں قبائلی عیسائی مشنریز کے طرف جارہے ہیں اور وہ اس بات کو تسلیم کرنے لگے ہیں کہ تعلیم ہی کے ذریعہ وہ بااختیار بن سکتے ہیں اور تعلیم کے نتیجہ میں ہی کوئی بھی ان کا استحصال نہیں کرسکتا۔ ایسے میں قبائلی علاقوں میں وقفہ وقفہ سے عیسائیوں کے خلاف پرتشدد واقعات پیش آتے ہیں۔ یہاں تک کہ عیسائی راہباوں کی عصمت ریزی کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں ۔ جھبوا میں عیسائی راہباوں کی عصمت ریزی ، اڈیشہ کے کپو نجھاڑ میں عیسائی مبلغ اسٹینس اور ان کے دو کمسن بچوں کو زندہ جلائے جانے کے ساتھ ساتھ اگست 2008 ء کو پیش آئے خوفناک کندھامل تشدد جیسے واقعات کو مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے ۔ اگر سماجی سطح پر دیکھا جائے تو مدھیہ پردیش میں ذات پات کی درجہ بندی کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے اور پیشاب واقعہ اس کی بدترین مثال ہے ۔ آدی واسیوں کی حالت قابل رحم ہے ۔ آر ایس ایس کے منصوبوں میں انہیں بااختیار بنانے کا کوئی منصوبہ نہیں ۔ اعلیٰ ذات کے اثر کی دہشت اس قدر مضبوط ہے کہ قبائلیوں پر مظالم منظر عام پر نہیں آتے ۔ NCSPA کا ماننا ہے کہ ایس سی ، ایس ٹی پر مظالم کے انسداد سے متعلق قوانین کے باوجود ہندوستان بھر میں آدی واسی بدترین حالات سے گزر رہے ہیں ۔ یہ برادری ذات پات پر مبنی نظام کی لعنت کا شکار ہے، ساتھ ہی ادارہ جاتی امتیاز اور سماجی اخراج سے بھی متاثر ہے ۔ NCSPA کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2021 ء میں ایس ٹیز کے خلاف مظالم میں 64 فیصد تک اضافہ ہوا ہے ۔ اس معاملہ میں 29.8 فیصد واقعات کے ساتھ مدھیہ پردیش سرفہرست ہے ۔ 24 فیصد کے ساتھ راجستھان دوسرے نمبر پر اور 7.6 فیصد کے ساتھ اڈیشہ تیسرے نمبر پر ہے ۔ بہرحال پاؤں دھونے اور 5 لاکھ روپئے امداد دینے کا مطلب صرف اور صرف سیاسی فائدہ ہے۔