قطر میں دفتر بند کرنے کسی نے دباؤ نہیں ڈالا : حماس

   

دوحہ: دوحہ حکومت قطر میں حماس تنظیم کا دفتر بند کرنے کے امکان سے متعلق زیر گردش خبروں کی تردید کر چکی ہے۔ اس حوالے سے اب حماس کا موقف بھی سامنے آ گیا ہے۔ پیر کے روز حماس کے ذریعہ نے باور کرایا ہے کہ اس کے دفتر کے ترکیہ منتقل ہونے کی بات درست نہیں ہے۔ذریعے نے “العربیہ” کو بتایا کہ قطر میں تنظیم کے دفاتر کی کوئی بندش لاگو نہیں کی گئی۔اس سے چند گھنٹے قبل ترکیہ کے ایک سفارتی ذریعے نے ان رپورٹوں کی تردید کی تھی جن میں کہا گیا کہ حماس کا دفتر ترکیہ منتقل ہو گیا ہے۔ ذریعے کے مطابق تنظیم کے ارکان وقتا فوقتا ان کے ملک کا دورہ کرتے رہتے ہیں۔دوحہ حکومت نے گذشتہ ہفتے باور کرایا تھا کہ حماس تنظیم کے ارکان کے قطر سے کوچ کر جانے سے متعلق تمام رپورٹیں غلط ہیں۔دوحہ کے مطابق اس نے حماس اور اسرائیل کو آگاہ کر دیا ہے کہ وہ فائر بندی اور قیدیوں کی رہائی کے معاہدے تک پہنچنے کیلئے اپنی حالیہ کوششوں کو اس وقت تک روک رہا ہے جب تک فریقین کی جانب سے بات چیت دوبارہ شروع کرنے کے حوالے سے سنجیدگی اور حقیقی ارادے کا اظہار نہیں کیا جاتا۔البتہ حماس کے سیاسی دفتر کے رکن باسم نعیم کے مطابق تنظیم غزہ کی پٹی میں فوری فائر بندی کیلئے تیار ہے تاہم اسے اسرائیل کی جانب سے کئی ماہ سے کوئی سنجیدہ پیش کش موصول نہیں ہوئی۔برطانوی چینل “اسکائی نیوز” کو دیے گئے انٹرویو میں نعیم نے کہا کہ جولائی میں فائر بندی کے بہت قریب پہنچ چکے تھے تاہم اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو نے اس موقع پر دوسری سمت اختیار کر لی۔ خان یونس اور غزہ شہر میں کم از کم دو یا تین بڑے قتل عام برپا کیے گئے۔ اس کے بعد حماس کے سیاسی دفتر کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو ہلاک کر دیا گیا۔ اس کے بعد حماس کو کوئی سنجیدہ پیش کش نہیں ملی۔باسم نعیم نے ایک بار پھر اعلان کیا کہ حماس جنگ کے خاتمے کیلئے فوری فائر بندی اور سنجیدگی کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے پر آمادگی کیلئے تیار ہے۔یاد رہے کہ امریکہ، مصر اور قطر نے غزہ کی پٹی میں جنگ روکنے اور یرغمال قیدیوں کی رہائی کے معاہدے تک پہنچنے کیلئے مذاکرات میں کئی ماہ تک ثالثی کا کردار ادا کیا۔