قطع رشتہ۔ موجودہ دور کی زرپرستی

   

محمد اسد علی ایڈوکیٹ
دور جدید کی ایک بڑی غفلت زر پرستی ہے جبکہ ماضی میں زر نہیں بلکہ کردار اور رشتوں کو اہمیت دی جاتی تھی لیکن اس دور میں دوست ہو یا رشتہ دار سب ان لوگوں کو ترجیح دیتے ہیں جو دولت مند ہوتے ہیں اگر کوئی رشتہ دار غریب ہو تو اُسے دعوتوں میں نہ تو مدعو کیا جاتا ہے اور نہ اس کی اطلاع دی جاتی ہے۔ عجیب بات یہ ہیکہ زر پرستی کی وجہ سے خونی رشتوں کو بھی نظرانداز کردیا جاتا ہے اور ایسی بے حساب مثالیں دیکھی جاسکتی ہیں۔ عقد یا شادیوں میں بھی غریب رشتہ دار کو نظرانداز کردیا جاتا ہے اور اگر غریب رشتہ دار شرکت بھی کرتا ہے تو اُس سے انتہائی بے رحمی کا سلوک کیا جاتا ہے۔ حتی ک ہ خونی رشتہ ہونے کے باوجود لوگوں کو یہ نہیں بتایا جاتا کہ فلاں شخص ہمارا قریب ترین رشتہ دار ہے اور اس طرح کھلے عام اس کی توہین و تذلیل کی جاتی ہے، حتی کہ دعوتوں میں شرکاء کے لباس کو بھی انتہائی اہمیت دی جاتی ہے اور اگر کوئی معمولی لباس میں شرکت کرتا ہے تو اُس سے دوری اختیار کرلی جاتی ہے۔ ’’نام نہاد بڑے لوگوں کو اہمیت دی جاتی ہے جن میں کوئی کردار یا رشتہ کا کوئی لحاظ نہیں ہوتا ہے اور ایسے لوگوں کی بھرپور تواضع کی جاتی ہے اور ان سے رشتہ داری کا اظہار کرتے ہوئے فخر محسوس کیا جاتا ہے۔ صدیوں پہلے شیخ سعدی ؒ کے ساتھ بھی ایسا ہی واقعہ ’’دعوت شیراز‘‘ میں پیش آیا تھا موجودہ حالات اس واقعہ سے من و عن حالات کا موجودہ دور کا آئینہ دار ہے۔ موجودہ دور کی بعض شادیاں دولت کی نمائش کا زریعہ بن گئی ہیں، جھوٹی شان و شوکت کا مظاہرہ ایک عام بات بن گئی ہے۔ معاشرہ میں جن برائیوں کا سب سے بڑا چیالنج ہے ان میں ایک بڑی لعنت جہیز ہے جو ایک خطرناک ناسور کی طرح بڑی تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہے جس کا ہمیں ذرہ برابر احساس نہیں۔ افسوس کی بات یہ ہیکہ ہمیں کچھ نہیں چاہئے لیکن آپ اپنی لڑکی کے لئے جو چاہے دے سکتے ہیں۔ جہیز قیمتی اشیاء، وغیرہ اسلام میں ممنوع ہیں لیکن پوشیدہ طور پر وصول کئے جاتے ہیں اور یہ کہا جاتا ہے کہ لڑکی والے خود اپنی مرضی سے دے رہے ہیں اس کے دیگر مطالبات میں شادی کے موقع پر شادی خانہ اچھا ہو اور مہمانوں کی تواضع مرغن غذاؤں سے ہو۔ اس مطالبہ کو مجبوراً قبول کرلیتے ہیں اور وسائل نہ ہونے کی صورت میں کسی نہ کسی طرح قرض کے اس قسم کے بیہودہ مطالبات کی تکمیل کرتے ہیں اور اسلام پسندی کی جھوٹی نمائش کے لئے بعض لوگ مسجد میں نکاح کا اہتمام کرتے ہیں اور بعد ازاں مجبور ہوکر شاندار کھانے کا اہتمام کرنا پڑتا ہے اور رات دیر گئے مہمانوں کی تواضع کی جاتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ بیانڈ باجے کا شور و غل بھی جاری رہتا ہے جس سے ضعیف العمر حضرات اور بیماروں کو شدید تکلیف پہنچتی ہے۔ دیر رات کو شور شرابہ اور پٹاخے چھوڑے جاتے ہیں جس کی آواز دور دور تک سنائی دیتی ہے۔ خاص طور پر پڑوسیوں کو شور و غل سے نیند میں خلل پڑتا ہے جس سے مریضوں کو بے چینی محسوس ہوتی ہے اور گھروں میں بیٹھی غیر شادی شدہ لڑکیوں کے والدین کو شدید تکلیف پہنچتی ہے۔ حال ہی میں ایک شادی میں شرکت کا موقع ملا نکاح بعد نماز ظہر تھا خطبہ نکاح کے دوران قاضی صاحب نے بتایا کہ حیدرآباد میں تقریباً 60 فیصد سے زیادہ والدین اپنی بیٹی کی شادی کے لئے کثیر سودی قرض حاصل کرتے ہیں جس کا سلسلہ مبینہ طور پر آج بھی جاری ہے۔ اس کا سب سے بڑا سبب جہیز اور دیگر مطالبات ہیں، مجبوراً لڑکی کے والدین بھاگ دوڑ کرکے اپنی حیثیت سے زیادہ بڑھ کر اس قسم کے مطالبات کو قبول کرلیتے ہیں۔ اسلام میں جبراً جہیز کا مطالبہ قطعی ناجائز قرار پاتا ہے اور قانون کی نظر میں بھی جرم ہے۔ افسوس کی بات یہ ہیکہ جب ملت ایک ہی ہو تو اسی ملت کے دوسرے افراد کے مصائب اور ان کی مجبوریاں کیوں نظرانداز کردی جاتی ہیں، موجودہ نفسا نفسی کے دور میں ہر طرف مادیت پرستی کا بازار گرم ہے۔ ایسے میں انسان چاہتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح اسے کچھ حاصل ہو جائے اور اس سلسلے میں نہ مذہب کا پاس ہوتا ہے اور نہ قانون کا اور نہ اس کے شرائط کا لحاظ ہوتا ہے۔ موجودہ دور کی شادیوں میں ایک خاص افسوسناک پہلو یہ ہیکہ دعوت خواہ عقد ہو یا ولیمہ اس میں جس شخص کو مدعو کیا جاتا ہے وہ اپنے ماتحتوں کو بھی ساتھ لیجاتے ہیں جو انتہائی معیوب اور خلاف شریعت ہے جبکہ یہ کھانا حرام ہو جاتا ہے اور پیٹ میں آگ بھرنے کے مترادف ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اسے مہذب انداز میں سرقہ یا چوری بھی کہا جاتا ہے جو کھلی چوری ہے۔ لوگ اس بات پر توجہ نہیں کرتے ہیں اور اس معاملے میں بہانے بناتے ہیں لیکن شرعی لحاظ سے یہ بات قطعی ناقابل قبول ہے۔ دعوت میں اس شخص کو شرکت کرنا چاہئے جسے مدعو کیا جاتا ہے دوسرے طفیلی بھی مدعو شخص کے ساتھ پہنچ جاتے ہیں اور اس طرح سے دعوت کرنے والوں کے لئے ایک مصیبت پیدا ہو جاتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہیکہ اس پر توجہ کی جائے اور افسوسناک، شرمناک حرکت کو ختم کرنا چاہئے ورنہ روز محشر ایک ایک دانے کا حساب دینا ہوگا جبکہ حرام کھانے سے دوزخ کی آگ ان کے پیٹ میں بھری جائے گی۔حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے تھے کہ ولیمہ کا وہ کھانا بدترین کھانا ہے جس میں صرف نمود و نمائش کے لئے صرف مالداروں کو دعوت دی جائے رشتہ داروں، فقراء و غرباء کو چھوڑ دیا جائے، حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ء جس شخص کو کھانے پر بلایا جائے اور وہ دعوت قبول نہ کرے تو اس نے اللہ کا اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کی اور جو شخص بغیر بلائے کسی کے ہاں کھانے کی مجلس میں چلا جائے تو وہ چوروں کی طرح آیا اور مال لوٹ کر نکل گیا۔ (ابو داؤد)
ان حالات میں شہر حیدرآباد کے قدیم شاعر حضرت طالب رزاقی کا ایک شعر موجودہ دور پر صادق آتا ہے :
الفاظ کی آواز سنائی نہیں دیتی
آئینہ احساس بھی کم بول رہا ہے