قومی اسٹیج پر امیت شاہ کی واپسی۔ اب کیا ہوگا

   

راج دیپ سردیسائی
سوشل میڈیا کی گندی اور ظالم دنیا میں ملک کے دوسرے طاقتور ترین شخص کو بھی نہیں بخشا گیا۔ جب مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کووڈ ۔ 19 لاک ڈاون کے پہلے دو ماہ کے دوران نظر نہیں آئے اور سرکاری تقاریب میں بھی غیر حاضر رہے تب سوشل میڈیا پر ان کی صحت کے بارے میں سوالات اٹھائے گئے۔ نتیجہ میں وزیر داخلہ کو عملاً ایک وضاحت جاری کرنی پڑی کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔ وہ کسی عارضہ میں مبتلا نہیں ہیں۔
پچھلے ماہ جبکہ ملک آہستہ آہستہ ان لاک کی جانب رواں دواں تھا تمام شکوک و شبہات اور قیاس آرائیوں کا خاتمہ ہوگیا جب امیت شاہ کام پر واپس آگئے۔ انہوں نے مودی 2.0 کی پہلی سالگرہ کے موقع پر انتہائی سوچے سمجھے منصوبوں کے تحت کئی ایک انٹرویوز بھی دیئے انہوں نے اس دوران بہار، اڈیشہ اور مغربی بنگال میں ریالیوں سے آن لائن خطاب بھی کیا۔ یہاں تک کہ امیت شاہ نے راجیہ سبھا انتخابات پر قریبی نظر بھی رکھی خاص طور پر اپنی آبائی ریاست گجرات کے راجیہ سبھا انتخابات پر گہری نظر رکھی۔ اہم بات یہ ہے کہ منی پور میں بی جے پی کی زیر قیادت حکومت کو بحران سے بچایا بھی اور انہوں نے کووڈ ۔ 19 سے متاثرہ دارالحکومت دہلی پر بگ باس کی طرح عملاً اپنی گرفت مضبوط کی۔

کسی بھی جمہوری ناراضگی اور مباحث کے کسی بھی شکل کو جان بوجھ کر نظرانداز کرنا ایک خطرناک عمل ہے۔ اس سے برتری رکھنے والی پارٹی کی حکومت کو عوام پر اپنی مرضی مسلط کرنے کا موقع مل جاتا ہے اور غیر شفافیت و غیر جواب دہی کا اس کے پیچھے نقاب چڑھ جاتا ہے۔ آپ کو اندازہ ہے کہ مشرقی لداخ میں ہندوستان ۔ چین سرحد پر قومی سلامتی کا ایک سنگین چیالنج منظر عام پر آیا تھا اور اس چیالنج کو بہت ہی رازدارانہ انداز میں اور انتہائی پیچیدہ لفظوں کے کھیل میں لپیٹ دیا گیا۔ دوسری جانب کورونا وائرس کے باعث نافذ کردہ لاک ڈاون کے نتیجہ میں جو لاکھوں تارکین وطن ورکرس بے گھر ہوئے اس کا سارا الزام ریاستی حکومتوں پر ڈال دیا گیا۔ صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ اس عالمی وباء سے نمٹنے کی تیاری میں ناکامی اور صحت سے متعلق بنیادی سہولتوں کے فروغ میں ناکامی کا ریاستی حکومتوں کو ذمہ دار قرار دیا گیا۔

دوسری جانب ہماری گرتی معیشت کو پاس موڈ پر رکھا گیا لیکن کوئی بھی صنعتکار (ایک یا دو ممتاز صنعت کاروں کو چھوڑ کر) آواز نہیں اٹھا سکے۔ حد تو یہ ہے کہ پرائم منسٹر کیرس فنڈ سے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لئے حق معلومات کے تحت داخل کردہ درخواستوں پر کسی قسم کے ردعمل کا اظہار نہیں کیا گیا اور نہ ہی اس بارے میں کوئی تفصیلات فراہم کی گئیں۔ اسی دوران اندرون دو ماہ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں 22 مرتبہ اضافہ کیا گیا اور اس معاملہ میں کوئی وضاحت نہیں کی گئی۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ کی ایک 27 سالہ طلبہ جہد کار کو دہلی فسادات کا اہم سازشی قرار دے کر الزامات وضع کئے گئے لیکن حکمراں جماعت سے جڑے مقامی سیاسی قائدین کو کلین چٹ دی گئی۔ جموں و کشمیر میں دہشت گردوں کی مبینہ طور پر مدد کرنے کے الزام میں ایک پولیس آفیسر کو گرفتار کیا گیا لیکن پھر اسے ضمانت دے دی گئی۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ کوئی بھی چارج شیٹ داخل نہیں کی گئی۔ اس کے برعکس انسانی حقوق کے جہد کاروں کی درخواست ضمانتوں کی بڑی سختی کے ساتھ مخالفت کی گئی۔ بے لگام مملکت کی طاقت یا اقتدار کے اس منحوس پس منظر میں امیت شاہ کا دوبارہ داخلہ ہوتا ہے۔ ویسے بھی مودی 2.0 میں وزیر داخلہ نے جس طرح سیاسی سرگرمیوں کو زندہ رکھا اور اس میں زیادہ سے زیادہ وقت دیا کوئی اور وزیر نے نہیں دیا مثال کے طور پر جموں و کشمیر کو آرٹیکل 370 کے تحت جو خصوصی موقف حاصل تھا اسے منسوخ کرنے سے لے کر شہریت ترمیمی بل پیش کرنا، رام مندر ایجنڈہ کو آگے بڑھانا ایسے اقدامات تھے جن کے ذریعہ امیت شاہ نے بی جے پی کے ہندوتوا ایجنڈہ کی تباہ کن طاقت کو نظریاتی قوت فراہم کی۔ یہ بات بھی فراموش نہیں کی جانی چاہئے جس میں بی جے پی نے کرناٹک میں جنتادل سیکولر ۔ کانگریس کی حکومت کو کیسے گرایا۔ اس نے بڑی بے رحم سیاسی جبلتوں کا مظاہرہ کیا جنہیں کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ صرف یہی نہیں بلکہ بی جے پی نے گوا میں بڑے پیمانے پر انحراف کرایا۔ مدھیہ پردیش میں کانگریسی حکومت کو گروایا ور اب گجرات میں کانگریس کو بتدریج توڑ رہی ہے۔ امیت شاہ کے سنٹر اسٹیج پر واپسی سے ایسے لگتا ہے کہ مودی حکومت کووڈ ۔ 19 سے متاثرہ قوم کے سیاسی مینیجمنٹ یا نظم پر پھر ایک بار توجہ منتقل کروانے کی تیاری کررہی ہے۔ مثال کے طور پر جاریہ سال کے اختتام پر بہار اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں اور بی جے پی ہر حال میں ان انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کا تہیہ کرچکی ہے اور یہ کامیابی بی جے پی کے لئے ناگزیر ہے۔ اس سلسلہ میں کہا جارہا ہے کہ امیت شاہ کی انتخابی صلاحیتوں کی اس کامیابی کو یقینی بنانے ضرورت پڑے گی۔

آئندہ سال اس سے بھی بڑا انعام بی جے پی کا انتظار کررہا ہے اور مغربی بنگال کے انتخابات امیت شاہ کی صلاحیتوں کی کڑی آزمائش ہے۔ ویسے بھی امیت شاہ نے مغربی بنگال میں کامیابی کو اپنا شخصی مشن بنا لیا ہے۔ آپ کو بتادیں کہ مغربی بنگال پہلے سے ہی کورونا وائرس کی عالمی وباء اور طوفان سے متاثرہ ریاست ہے اور ایسے میں امیت شاہ نے اپنی سب سے بڑی حریف ممتا بنرجی پر نشانہ سادھا ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ اب ایک بار پھر دستانہ بندھے ہیں۔ دلچسپی کی بات یہ ہیکہ وزیر داخلہ سے توقع کی جاتی ہے کہ قومی آفات کے دوران ریاستی حکومتوں کے ساتھ وہ قریبی طور پر کام کریں گے اور انہیں نہ صرف مدد فراہم کریں گے بلکہ ان کی رہنمائی بھی کریں گے ساتھ ہی مرکز ریاست خوشگوار تعلقات کو یقینی بنائیں گے لیکن اس عالمی وباء نے انداز بدلنے کی ضرورت کو ظاہر کیا ہے اور تصادم نہیں بلکہ تعاون و اشتراک کو فروغ دینے کی جانب توجہ دلائی ہے۔ یہ وقت خوف اور دہشت کے ذریعہ حکمرانی کا نہیں ہے بلکہ بہتر حکمرانی کا ہے اور جہاں تک بہتر حکمرانی اور انتخابات جیتنے والوں کا سوال ہے ان میں کافی فرق پایا جاتا ہے۔ ایک بات ہندوستانی سیاست کے بارے میں یقینی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ اس کا مستقبل غیر یقینی ہے کیونکہ 2020 کے آغاز پر امیت شاہ اور کجریوال ملک کی سب سے تلخ انتخابی مہمات میں ایک دوسرے کے خلاف مصروف دیکھے گئے اور اب ایک وائرس نے انہیں مشترکہ طور پر کووڈ ۔ 19 کیر سنٹرس کے افتتاح پر مجبور کیا ہے اور ان میں یکسانیت یہ رہی کہ ان کے چہروے فیس ماسک سے ڈھکے ہوئے تھے۔