بی جے پی کے ساتھ رہتے ہوئے والد سے کئے گئے وعدہ کی تکمیل ممکن نہیں، کانگریس سے مفاہمت حق بجانب
ممبئی۔ 3 فروری (سیاست ڈاٹ کام) مہاراشٹرا کے چیف منسٹر ادھو ٹھاکرے نے پیر کو کہا کہ اس اعلیٰ عہدہ پر فائز ہونے کے بارے انہوں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا اور نہ ہی ان کا یہ عزم تھا لیکن یہ جب انہوں نے یہ محسوس کیا کہ بی جے پی کے ساتھ رہتے ہوئے اپنے والد سے کئے گئے وعدے کی تکمیل ممکن نہیں تھی چنانچہ انہوں نے یہ بھاری ذمہ داری قبول کرنے کا فیصلہ کیا۔ شیوسینا کے ترجمان مراٹھی روزنامہ ’سامنا‘ کے ایگزیکٹیو ایڈیٹر سنجے راوت کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں ٹھاکرے نے کہا کہ ہندوتوا کا مطلب ہی یہ ہو تو ہے کہ کسی سے کئے گئے وعدوں کی تکمیل کی جائے۔ اس سوال پر کہ آیا آپ اتفاقی چیف منسٹر ہیں، سینا کے صدر نے کہا کہ ’ہوسکتا ہے یہ ممکن ہے‘۔ این سی پی اور کانگریس جیسی نظریاتی اختلاف رکھنے والی جماعتوں کے ساتھ یہ مفاہمت کے بارے میں ٹھاکرے نے کہا کہ ماضی میں بھی ایسے اتحاد بنائے گئے تھے اور دعویٰ کیا کہ ریاست اور ملک کے مفادات کسی جماعت کے نظریہ سے بالاتر ہوتے ہیں اور کوئی بھی جماعتی نظریہ ملک یا ریاست سے بڑا نہیں ہوتا۔ ادھو ٹھاکرے نے کہا کہ ’میں کوئی نئی سیاسی طاقت نہیں ہوں، میں اپنے والد (شیوسینا کے بانی سربراہ آنجہانی بال ٹھاکرے) کو بچپن سے انتہائی طاقتور حالت میں دیکھتا رہا ہوں، لیکن جو چیز میرے لئے غیرمتوقع تھی، وہ دراصل اقتدار کی کرسی (چیف منسٹر کا عہدہ) تھی‘۔ ٹھاکرے نے کہا کہ وہ ریاست کیلئے ایک شیوسینک کو چیف منسٹر بنانے کے بارے میں اپنے والد سے کئے گئے وعدہ کی تکمیل کیلئے کسی بھی حد تک جانے کا فیصلہ کرچکے تھے۔ شیوسینا کے صدر 59 سالہ ادھو ٹھاکرے نے کہا کہ ’میرا چیف منسٹر بننا دراصل میرے والد سے کئے گئے وعدے کی تکمیل کی سمت پہلا قدم ہے‘۔ واضح رہے کہ شیوسینا نے ریاست میں چیف منسٹر کے عہدہ پر حصہ داری کے مسئلہ پر ماقبل انتخابات اپنی حلیف جماعت بی جے پی سے طئے شدہ مفاہمت کو ختم کرتے ہوئے نظریاتی طور پر مخالف جماعتوں کانگریس اور این سی پی سے مفاہمت کی تھی۔ ٹھاکرے نے دعویٰ کیا کہ ان کے اور بی جے پی کے صدر امیت شاہ کے درمیان 50:50 فارمولہ طئے ہوا تھا۔ لوک سبھا انتخابات سے ایک سال قبل ہوئے اس سمجھوتے میں اس وقت کے چیف منسٹر دیویندر فڈنویس بھی شامل تھے۔ ٹھاکرے نے راوت کو دیئے گئے انٹرویو میں مزید کہا کہ شیوسینا کے سربراہ نے کبھی کسی اقتدار کا منصب قبول نہیں کیا تھا اور نہ ہی انہیں اس کی خواہش تھی۔ ادھو ٹھاکرے نے کہا کہ ’جب میں نے یہ محسوس کیا کہ بی جے پی کے ساتھ رہتے ہوئے والد سے کئے گئے وعدے کی تکمیل ممکن نہیں ہوگی ، میرے پاس ایک بھاری ذمہ داری نبھانے کے سواء اور کوئی دوسرا راستہ باقی نہ تھا۔