سٹی پولیس کمشنر کے جوابی حلفنامہ سے تلنگانہ ہائیکورٹ غیر مطمئن،30 جون کو مکمل تفصیلات پیش کرنے کی ہدایت
حیدرآباد۔/17 جون، ( سیاست نیوز) لاک ڈاؤن کے دوران شہر حیدرآباد میں پولیس کی جانب سے شہریوں پر ظلم و زیادتی کے خلاف داخل کی گئیں مفاد عامہ کی دو درخواستوں پر تلنگانہ ہائی کورٹ نے آج پولیس کے رویہ کے خلاف شدید برہمی ظاہر کی اور پولیس کمشنر حیدرآباد کی جانب سے عدالت میں داخل کئے گئے جوابی حلف نامہ پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ شہر سے تعلق رکھنے والے دو سماجی کارکن شریمتی شیلا سارا میتھیوز اور ایس کیو مقصود نے مفاد عامہ کے تحت دو درخواستیں داخل کی تھیں جس میں لاک ڈاؤن پر عمل آوری کے نام پر عوام پر ظلم و زیادتی کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ چیف جسٹس تلنگانہ ہائی کورٹ راگھویندر سنگھ چوہان اور جسٹس وجئے سین ریڈی پر مشتمل بنچ نے آج مفاد عامہ کی درخواستوں کی سماعت کے دوران پولیس کمشنر کی جانب سے داخل کئے گئے جوابی حلف نامہ پر انتہائی تعجب اور عدم اطمینان کا اظہار کیا اور حلف نامہ میں فراہم کی گئی تفصیلات پرحیرت کا اظہار کیا۔ پولیس کمشنر نے اپنے جوابی حلف نامہ میں فلک نما پولیس اسٹیشن حدود میں مکانات کے باہر پارک کی ہوئی گاڑیوں کو پولیس کی جانب سے نقصان پہنچانے پر عدالت کو یہ بتایا کہ کورونا وائرس کا پتہ لگانے کیلئے پولیس نے موٹر سیکلوں کی تلاشی لی اور لاٹھیوں کا استعمال کیا۔ چیف جسٹس نے اس جواب پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کورونا وائرس کا پتہ لگانے کیلئے پولیس کو لاٹھیوں کا استعمال کرنے کیا ضرورت پیش آئی لہذا اس سلسلہ میں گاڑیوں کو نقصان پہنچانے کے معاملہ میں تفصیلی رپورٹ عدالت کو پیش کی جائے۔پولیس کی جانب سے زدوکوب کرنے کا ایک اور واقعہ جو نانل نگر چوراہے پر پیش آیا تھا جس میں بتایا گیا کہ پولیس ہوم گارڈ ہنمنت کمار نے زیدان نامی نوجوان کے چشمہ پر لاٹھی ماری اور چشمہ ٹوٹنے کی وجہ سے نوجوان کی آنکھ زخمی ہوگئی۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے یہ ریمارک کیا کہ پولیس کے حلف نامہ میں مکمل سچائی نظر نہیں آرہی ہے اور جوابی حلف نامہ میں مکمل تفصیلات موجود نہیں ہیں۔ پولیس کمشنر نے ہائی کورٹ میں اپنے حلف نامہ میں بعض واقعات کا ذکر کیا جس میں صرف ایک کے خلاف تادیبی کارروائی سے عدالت کو واقف کروایا۔
اس نا مکمل حلف نامہ کو دیکھنے کے بعد عدالت نے برہمی کا اظہار کیا اور پولیس کے ظلم و زیادتی کا شکار متاثرین کے بیانات اور ان سے متعلق میڈیکل رپورٹس بھی پیش کرنے کی ہدایت دی ہے۔ پولیس کے حلف نامہ میں ویسٹ زون کے علاقہ میں پولیس ظلم کا شکار بلال نامی شخص جنہیں آصف نگر پولیس نے زدوکوب کیا تھا، شاستری پورم کے علاقہ میں سجاد علی، بیگم پیٹ علاقہ میں صحافی روی ریڈی ، بہادر پورہ علاقہ میں کلیم احمد، فلک نما علاقہ میں محمد حاجی اور مصطفی حسین کے علاوہ محمد عرفان اور دیگر کے واقعات کا تذکرہ ہے۔ پولیس نے دعویٰ کیا کہ بعض فریقین نے پولیس کی زیادتی سے انکار کیا ہے لیکن کورٹ نے پولیس سے سوال کیا کہ اگر کوئی فریق اپنے بیان میں پولیس زیادتی کا شکار نہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے تو پھر پولیس کو چاہیئے کہ عدالت میں اس کا مکمل بیان پیش کرے۔ عدالت نے سماعت کے دوران یہ بھی خیال ظاہر کیا کہ مجموعی واقعات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایک ہی طبقہ کے افراد پولیس کی زیادتیوں کا شکار ہوئے ہیں۔ مذکورہ واقعات میں بہادر پورہ پولیس اسٹیشن سے وابستہ ایک سب انسپکٹر کے خلاف چارج میمو جاری کرنے کی بات بتائی گئی ہے جبکہ دیگر خاطی پولیس ملازمین کے خلاف کارروائی کی تفصیلات حلف نامہ میں موجود نہیں ہے۔فریقین کی جانب سے ہائی کورٹ کے سینئر وکیل مسٹر ایل روی چندر اور دیپک مشرا نے عدالت میں بحث کی اور یہ استدلال پیش کیا کہ لاک ڈاؤن کی عمل آوری کے نام پر پولیس نے عوام پر زیادتی کرتے ہوئے انہیں شدید طور پر زدوکوب بھی کیا ہے جو غیر قانونی ہے۔ حالانکہ مرکزی وزارت داخلہ کی جانب سے جاری کئے گئے احکامات کو نافذ کرنا پولیس کی ڈیوٹی ہے لیکن عوام کے ساتھ ظلم و زیادتی غیر قانونی ہے۔ عدالت نے محکمہ پولیس کو حکم دیا ہے کہ 30 جون کو وہ فریقین کے بیانات، میڈیکل رپورٹس اور دیگر مکمل تفصیلات عدالت میں پیش کرے۔