لباس میں کیا رکھا ہےاوول آفس میں زیلنسکی کی توہین

   

شماراہا
کسی نے سوچا ہوگاکہ موہن داس کرمچند گاندھی نے یہ بحث بہت پہلے ہی طئے کردی تھی۔ پھر ایک مرتبہ یہ بات چھڑ گئی ہے اور اس کیلئے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور یوکرینی صدر زیلنسکی کی ملاقات ذمہ دار ہے، اس ملاقات میں یوکرین کے صدر کے لباس کو لیکر امریکی صحافی کے سوال اور پھر امریکہ کے نائب صدر کے خیالات سے دنیا بھر میں یہ پیغام گیا کہ انسان کی شخصیت‘ اس کی قابلیت و اہلیت سے کہیں زیادہ اس کا لباس اہمیت رکھتا ہے اور انسان کی طاقت اس کے لباس میں ہوتی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ انسان کی اہمیت میں اس کے کردار سے اضافہ ہوتا ہے۔ اگر لباس کی طاقت پر غور کیا جائے تو وہ طاقت اس بات میں پوشیدہ ہے کہ آپ کا لباس آپ کی شخصیت میں کس قدر نکھار پیدا کرتا ہے۔ لباس کے بارے میں اکثر یہی کہا جاتا ہے کہ اصل طاقت لباس میں مضمر ہے۔ آپ کا لباس بتاتا ہے کہ آپ کون ہیں‘ اور آپ کس چیز کیلئے کھڑے ہیں۔ دوسری طرف ہمارے سامنے ایسی کئی مثالیں ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ لباس سے کہیں زیادہ انسان کی شخصیت جاندار اور متاثرکن ہونی چاہیئے۔
یوکرینی صدر زیلنسکی کی توہین :… حالیہ عرصہ ایک اور صحافی نے شائد جو گاندھی جی والے صحافی کی قبیل کا ہے وائٹ ہاؤس میں ایک ایسے وقت جبکہ زیلنسکی اور امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے درمیان گرما گرم بحث ہورہی تھی اور بحث ایسا لگ رہا تھا کہ جھگڑے میں تبدیل ہوجائے گی۔ زیلنسکی سے ویسا ہی سوال کیا۔ آپ کو بتادیں کہ تین سال قبل جب روس نے یوکرین پر حملہ کیا اور اس کے کئی علاقوں پر قبضہ کیا تب سے یوکرین کے صدر زیلنسکی نے گہرے رنگ کا سویٹر زیبِ تن کرنا شروع کردیا۔ اس کے ساتھ انہوں نے عام قسم کے قیمتی جوتوں کی بجائے فوجی جوتے استعمال کرنے شروع کئے تاکہ ان یوکرینی لوگوں کے ساتھ اظہارِ یگانگت کریں جو روس کے خلاف لڑ رہے ہیں۔
وائٹ ہاؤس میں جبکہ ماحول بہت زیادہ گرم تھا ، امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ انتہائی برہم تھے حالتِ غصہ میں وہ سُرخ ہورہے تھے، نائب صدر وینس کا موڈ بھی ٹھیک نہیں تھا۔ اس دوران بریان گلین نامی ایک صحافی نے جس کا تعلق دائیں بازو کے ٹیلی ویژن چیانل Real American Voice سے ہے، زیلنسکی سے سوال کردیا کہ آپ نے سوٹ زیبِ تن کیوں نہیں کیا؟ ۔ اس موقع پر اُس کے دوسرے ساتھی صحافیوں اور نائب صدر جے ڈی وینس کے چہرے پر مُسکراہٹ دیکھی گئی‘ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ زیلنسکی کے لباس پر ہنس رہے ہوں۔ گلین بڑی بدتمیزی کے ساتھ یہ مطالبہ کررہا تھا کہ زیلنسکی کو ایک سلیقہ کا سوٹ زیبِ تن کرکے امریکی صدر سے ملاقات کیلئے آنا چاہیئے تھا۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ گلین کوزیلنسکی سے ان کے لباس سے متعلق سوال کا اشارہ توخود ڈونالڈ ٹرمپ نے دیا تھا۔ زیلنسکی کا وائٹ ہاؤس میں خیرمقدم کرتے ہوئے وائٹ ہاؤس کی سیڑھیوں پر بڑے طنزیہ انداز میں کہا تھا کہ انہوں ( زیلنسکی ) نے یقینا آج تمام کپڑے زیبِ تن کررکھے ہیں۔
فیشن سیاست ہے :… اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ ڈونالڈ ٹرمپ اور ان کے چنندہ صحافیوں کی نسل دونوں ہی اس بات سے اچھی طرح واقف ہے کہ جب سے روس ۔ یوکرین جنگ چھڑی ہے تب سے زیلنسکی عوام کے درمیان‘ ٹیلی ویژن انٹرویوز، عالمی قائدین سے ملاقات کے دوران، ایسا ہی لباس زیب تن کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے 2022 سے سوٹ زیبِ تن نہیں کیا بلکہ سویٹر زیبِ تن استعمال کیا۔ انہوں نے اس قسم کا عام لباس زیبِ تن کرے ڈونالڈ ٹرمپ اور ان کے نائب کی توہین نہیں کی بلکہ امریکہ کے بشمول ساری دنیا کو ایک مضبوط پیغام دیا کہ وہ اپنے عوام کے ساتھ کھڑے ہیں اور ان کے عوام اپنی بقاء کی لڑائی لڑرہے ہیں روسی بمباری میں مارے جارہے ہیں۔ ایسے میں انہیں یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اسٹائل میں گھومتے پھرتے رہیں اور اپنے لباس کے ذریعہ ایسا لگتا ہے کہ وہ نہ صرف اپنے موقف پر سختی کے ساتھ ڈٹے رہتے ہوئے یہ کہہ رہے ہوں کہ یہ وقت شکار کرنے کا اور دروازے پر ٹہرے دشمن کو شکست دینے کا ہے۔ یہ بات سب پر عیاں ہوگئی کہ زیلنسکی کے لباس پر اعتراض کا تعلق اصل میں MAGA، ( Make America Great Again) سے نہیں بلکہ دوسرے ملکوں کو ایک سخت سیاسی پیغام پہنچانا تھا۔ اگر ایسا نہیں ہوتا توپھر ٹرمپ کے دست ِراست ایلون مسک اکثر و بیشتر سوٹ شرٹس میں ہی اوول آفس آتے رہتے ہیں۔
جب آپ کا لباس بات کرتا ہے : … خاص طور پر سیاسی شعبہ میں لباس کی بہت زیادہ اہمیت ہے، لباس کے ذریعہ آپ اپنی ناراضگی و برہمی اور حکومتوں کے موقف سے عدم اتفاق کرسکتے ہیں۔ غیر اسلامی ملکوں میں برقعہ یا حجاب کا استعمال کرنے والی لڑکیاں اور خواتین بھی معاشرہ کو ایک پیغام دیتی ہیں کہ ہمیں اپنی مذہبی اور ثقافتی شناخت کے اظہار کا حق حاصل ہے جبکہ حقوقِ انسانی کی حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ لباس رجعت پسند اور خواتین مخالف ہے۔
یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ امریکہ میں سال 2013 میں ایک سفید فام پولیس والے نے ایک سیاہ فام نوجوان کو گولی ماردی تھی اور پھر اس پولیس والے کو چھوڑ دیا گیا تب ہزاروں‘ لاکھوں کی تعداد میں امریکی شہریوں نے ایسے ٹی شرٹس پہن کر احتجاج کیا جس پر” Black Lives Matter” کا نعرہ درج تھا، وہ دراصل نسلی امتیاز کے خلاف آواز اُٹھانے کا ایک طریقہ اور ایک انداز تھا۔ نومبر2024 میں صنفی تشدد کے خلاف فرانس میں خواتین کے ایک گروپ نے نیم برہنہ حالت میں احتجاج کیا،ان کے ہاتھوں میں ایسے پلے کارڈس تھے جس پر لکھا تھا : ’’ خواتین‘ زندگی اور آزادی ‘‘ درج تھا۔ دوسری جانب دو ہفتے قبل ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والی خاتون لیڈران نے کانگریس سے ٹرمپ کا خطاب سننے گلابی رنگ کے لباس زیب تن کئے، ان خواتین کا کہنا تھا ہ وہ اس طرح ٹرمپ کی اُن پالیسیوں کے خلاف احتجاج کررہی تھیں جو خواتین اور خاندانوں کیلئے نقصاندہ ہے۔ آپ کو یہ بھی بتادیں کہ سابق برطانوی وزیراعظم ونٹسن چرچل‘ گاندھی جی کا حوالہ نیم برہنہ فقیر کے طور پر دیتے تھے۔