لو اور دو کی حکومت بجٹ میں غریبوں سے دھوکہ

   

پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)

عام زندگی کے حالات میں ہم دیکھتے ہیں کہ کئی انسان لو اور دو والا معاملہ روا رکھتے ہیں یعنی اُن کا ایسا رویہ ہوتا ہے جس کے ذریعہ وہ دوسروں سے توقعات وابستہ رکھتے ہیں ۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دو انسانوں اور دو انسانی گروپوں کے درمیان لین دین ؍ لو اور دو کے تعلقات کیا ہیں؟ یہ آپ مجھ پر احسان کرو میں آپ پر احسان کروں گا کی طرح ہیں۔ عام بول چال کی زبان میں اسے ’’یہ ہاتھ دو وہ ہاتھ لو ‘‘کہا جاتا ہے ۔ اسی طرح سرکاری فیصلوں کیلئے رشوت لین دین ہوتی ہے ۔ دوسری طرف افشاء شدہ پرچہ سوالات کیلئے رقم کی ادائیگی بھی ایک طرح کا لین دین ہے ۔ اس میں کسی نے رقم ادا کی اور اس کے عوض دوسروں نے مسابقتی امتحانات کے پرچے سوالات افشاء کرکے حوالے کردیئے ۔
جہاں تک مودی حکومت کا سوال ہے اُس نے لو اوردو یا لین دین کے رویہ کو بلند ترین سطح پر پہنچادیا ہے ۔ مثال کے طورپر حکومت کی جانب سے کئے گئے احسان کے بدلے مختلف کمپنیوں اور شخصیتوں نے الیکٹورل بانڈس کی شکل میں کثیررقم کا عطیہ حکمراں پارٹی کو دیا ۔ یہ عطیہ تائید و حمایت کیلئے احسان حاصل کرنے کیلئے دیا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ اس اُمید اور توقع سے بھی عطیہ دیا گیا کہ اس کے عوض حکومت اُن پر احسان کرے گی ، اُن سے رعایت برتے گی۔ اب تو ہر کوئی الیکٹورل بانڈس اسکیم اور اس کی بنیاد کے ساتھ ساتھ اس کے پیچھے کار فرما وجوہات جان گیا ہے ۔
سپریم کورٹ نے دیرآئد درست آئد کے مصداق الیکٹورل بانڈ اسکیم کو غیردستوری ، غیرقانونی قرار دیا ۔ عدالت عظمیٰ نے مرکز کی الیکٹورل بانڈ اسکیم کو غیرآئینی اور رائے دہندگان کے حق معلومات کی خلاف ورزی قرار دیا ہے ۔ یہی نہیں عدالت نے الیکٹورل بانڈ کے جاری کرنے پر بھی پابندی عائد کرکے چندہ وصول کرنے والی سیاسی جماعتوں کی تفصیلات بھی طلب کی تھی ۔ واضح رہے کہ الیکٹورل بانڈ اسکیم 2018 ء کے اوائل میں نریندر مودی حکومت نے متعارف کروائی تھی ۔ ہاں ایک بات ضرور ہے کہ سپریم کورٹ نے اس اسکیم کے پیچھے جو نیت تھی اور ارادے تھے اُس پر کسی بھی قسم کا تبصرہ کرنے سے گریز کیا ۔
کرسی بچاؤ : 23 جولائی 2024 ء کو بی جے پی کی زیرقیادت این ڈی اے حکومت نے لو اور دو یا لین دین کے رویہ کو ایک نئی بلندی اور ایک نئی سطح تک پہنچایا ۔ بجٹ 2024-25 ء کے پیچھے جو بڑا مقصد تھا وہ یہی تھا کہ حکومت کو کیسے بچایا جائے۔ اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو مودی حکومت کا یہ بجٹ کرسی بچاؤ بجٹ ہے ۔ بجٹ کی مصنفہ وزیر فینانس نرملا سیتارامن نے معذرت خواہانہ انداز میں اپنا کام کیا ۔ نرملا سیتارامن اور معتمدین نے مابعد بجٹ ، بجٹ تجاویز کے بارے میں جو وضاحت کی جس سے یہ بات پوری طرح آشکار ہوگئی کہ بی جے پی نے دونوں حلیفوں ( چندرابابو نائیڈو کی تلگودیشم اور نتیش کمار کی جے ڈی یو ) کی تائید و حمایت حاصل کرنے کے عوض انھیں خوش کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑ رکھی ۔ مثال کے طورپر ٹی ڈی پی کے 16 ووٹ (16 ارکان پارلیمان ) اور جے ڈی یو کے 12 ووٹ )12 ارکان پارلیمان ) کے عوض دونوں ریاستوں بہار و آندھراپردیش کے لئے صنعتی علاقوں ،صنعتی راہداریوں ، کنکٹویٹی پراجکٹس ، پاور پراجکٹس و آبپاشی پراجکٹس کے فروغ کیلئے مرکز کی امداد کا اعلان کیا گیا۔ جہاں تک بہار کا سوال ہے مرکزی حکومت نے اپنے بجٹ میں بہار کیلئے صنعتی منطقوں ، کنکٹویٹی پراجکٹس ( سب ویز ، ہائی ویز ) ، پاور پلانٹس کیلئے تائید و حمایت دی ہے جبکہ آندھراپردیش کے پسماندہ علاقوں کیلئے پولاورم آبپاشی پراجکٹ ، صنعتی راہداریوں اور گرانٹس کی منظوری حاصل کی گئی۔ غرض بجٹ میں مودی حکومت نے ایسے ایسے بلند بانگ دعوے اور وعدے کئے جن پر عمل آوری ناممکن ہے ۔ بہرحال تین فریقوں ( مرکزی حکومت ، بہار اور آندھراپردیش) کے درمیان بہت زیادہ مول بھاؤ ہوا ، لو اور دو کی بات ہوئی جب کہ ان ریاستوں کو جنھوں نے عام انتخابات 2024 ء میں بی جے پی کے خلاف ووٹ دیا تھا مرکزی بجٹ میں بری طرح نظرانداز کردیا گیا ۔ ان متعلقہ ریاستوں کے ارکان پارلیمان کے مطابق ان کی ریاستوں کو دھوکہ دیا گیا ۔ انھیں بجٹ میں بری طرح نظرانداز کردیا گیا ۔ اس طرح کی ریاستوں میں مغربی بنگال ، تلنگانہ، ٹاملناڈو ، کرناٹک ، کیرالا ، مہاراشٹرا ، پنجاب اور مرکزی زیرانتظام علاقہ دہلی شامل ہیں ۔ سوائے بہار اور آندھراپردیش کے دیگر غیربی جے پی ریاستوں نے مرکزی حکومت پر اُن کے ساتھ سوتیلے پن کا سلوک روا رکھنے کے الزامات عائد کئے ۔
اگر دیکھا جائے تو بجٹ میں مرکزی حکومت نے غیربی جے پی ریاستوں کے ساتھ ہی ناانصافی نہیںکی بلکہ عوام کی ایک بڑی اکثریت کو بھی دھوکہ دیا ۔ سب سے زیادہ اگر کوئی متاثر ہوئے ہیں تو وہ ہمارے ملک کا نوجوان ہے ۔ کیونکہ ملک میں بیروزگاری بہت بڑھ گئی ہے ، نتیجہ میں ملک کا نوجوان مایوسی کاشکار ہے ۔ CMIE کے مطابق کل ہند سطح ( قومی سطح ) پر بیروزگاری کی شرح 9.2 فیصد جون 2024 ء میں درج کی گئی چنانچہ گریجویٹس میں بیروزگاری کی شرح 40 فیصد پائی جاتی ہے ۔ پرپڈک لیبر فورس سروے میں اس بات کا انکشاف ہوا کہ صرف 20.9 فیصد روزگار کے حامل افراد نے باقاعدہ تنخواہ حاصل کی اور دلچسپی و حیرت کی بات ہے کہ جو کم سے کم پڑھا لکھا ہے وہ کم سے کم بیروزگار ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ تعلیمیافتہ نوجوانوں میں بیروزگاری سب سے زیادہ پائی جاتی ہے اور وہ روزگار کیلئے تڑپ رہے ہیں ۔بجٹ تقریر میں روزگار سے مربوط ترغیبات (ELI) اسکیم کا وعدہ کیا گیا جس کے تحت 290 لاکھ افراد کو آجرین کو مالی ترغیبات دیتے ہوئے روزگار فراہم کیا جائے گا اور 5 برسوں تک 20 لاکھ نوجوانوں کو مختلف فنون میں مہارت دلائی جائے گی ۔ ساتھ ہی صرف 500 کمپنیوں میں ایک کروڑ نوجوانوں کو انٹرن شپ فراہم کی جائے گی ۔
وزیر فینانس نے جو بلند و بالا اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے بلند بانگ دعوے کئے ہیں وہ مابعد انتخابات ایک جملہ ہی ہے ۔ حکومت نے اگرچہ مرکزی بجٹ کو پیش کردیا لیکن 30 لاکھ مرکزی ملازمتوں اور مرکزی زیر کنٹرول اداروں میں بھرتیوں کی کوئی بات سننے میں نہیں آئی ۔ حکومت نے پیداوار سے مربوط ترغیبات اسکیم PLI جس پر کروڑہا روپئے خرچ کئے جاچکے ہیں اس کا کوئی حوالہ نہیں دیا ۔ ؎ایسا لگتا ہے کہ اُسے پس پُشت ڈالدیا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ تعلیمی قرض کی معافی سے متعلق جو عالمی مطالبہ ہے اس کا بھی کوئی حوالہ نہیں دیا گیا ۔ یہ ایسے قرض ہیں جو طلبہ اور اولیائے طلبہ کی پریشانی اور مایوسی کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ اگنی پتھ اسکیم کا کیا ہوا ، اس کا بھی حوالہ دینے سے گریز کیا گیا ہے جو سپاہیوں کے درمیان امتیاز و تفریق کرتی ہے ۔
بجٹ میں غریبوں کے ساتھ دھوکہ : بجٹ سے عوام کی جو بڑی اکثریت ہے اُس نے محسوس کیا کہ اُن کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے ، خاص طورپر غریبوں کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے ۔ وزیر فینانس نے نیتی آیوگ کے چیف ایکزیکٹیو آفیسر کے خیالات کو شیر کیا ہے ۔ اپنا دل تھام لیجئے وہ کہتی ہیں کہ ہندوستان میں غریبوں کی آبادی جملہ آبادی کا 5 فیصد سے زیادہ نہیں ہوگی ۔ HCES ( گورنمنٹ ہاؤس ہولڈ کسپمشن ایکسپینڈیچر سروے ) نے ماہانہ فی کس اوسط مصارف کا جائزہ لیا اور وہ بھی موجود معمولی قیمتوں پر جس سے پتہ چلا کہ دیہی علاقوں میں MPCE ، 3094 روپئے اور شہری علاقوں میں 4963 روپئے ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہندوستان میں 71 کروڑ لوگ ایسے ہیں جو یومیہ 100-150 یا اس سے کم رقم پر گذارا کرتے ہیں ۔ اگر ہم اس کا مزید گہرائی سے جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ نیچے کی سطح کے 20 فیصد لوگ یومیہ 100 ۔ 70 روپئے کی حقیر رقم پر گذارہ کرتے ہیں جبکہ اس سے بھی نیچے کی سطح کے 10 فیصد لوگ یومیہ 60-90 روپئے آمدنی پر گذارہ کرتے ہیں ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ غریب ہیں یا نہیں ۔ جبکہ حکومت مسلسل ایسے اقدامات کررہی ہے جس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت کو غریبوں کی ترقی سے کوئی دلچسپی نہیں ہے بس اسے امیروں اور صنعت کاروں کے مفادات کی فکر ہے۔