محمد اسد علی، ایڈوکیٹ
موجودہ دور میں لومیاریج محبت کی شادیوں کا عام رواج ہوگیا ہے۔ بعض اوقات ایسی شادیاں کامیاب بھی ہو رہی ہے، لیکن ایسا بھی ہوتا ہیکہ بعض لڑکے یا لڑکیوں کے متعلقین رشتے کی مخالفت کرتے ہیں اگر لڑکی کے والدین راضی ہو جاتے ہیں تو لڑکے کے والدین اس رشتے کو قبول نہیں کرتے ہیں۔ لڑکا کسی نہ کسی طرح اگر شادی کرلیتا ہے تو سسرال میں لڑکی کے ساتھ بدسلوکی کی جاتی ہے۔ اکثر لڑکی کے کٹھور نندیں اس سے انتہائی تکلیف دہ رویہ اختیار کرتی ہیں جس کی وجہ سے لڑکی کو شدید ذہنی تکلیف پہنچتی ہے۔ بعض ایسی نندیں میاں بیوی میں اختلافات پیدا کرتے ہوئے ایک قسم کی تسکین محسوس کرتے ہیں جس کو Sadism کہا جاتا ہے۔ عام طور پر یہ نفسیاتی مرض بہت سے لوگوں میں پایا جاتا ہے جو دوسروں کی خوشی اور ترقی کو دیکھ کر جلن اور حسد محسوس کرتے ہیں اور میاں بیوی کی زندگی میں تلخی پیدا کرنے سے انہیں ایک قسم کی تسکین ملتیہے ہمارے سماج میں عام طور پر دوسروں کو ترقی کرتے دیکھ کر حسد اور جلن کا جذبہ پایا جاتا ہے جو انتہائی شرمناک اور شیطانی جذبہ ہوتا ہے اگر شادی کے بعد ساس اور نندیں لڑکی سے اچھا رویہ اختیار کرے تو یقینی طور پر لڑکی اس سے متاثر ہوسکتی ہے اور وہ سسرال میں گھل مل کر رہنے لگتی ہے جس سے میاں بیوی کی زندگی خوشگوار ہو جاتی ہے اکثر دیکھا گیا ہے کہ ازدواجی زندگی میں بعض سسرال کے لوگ کسی نہ کسی طرح شوہر اور بیوی میں پھوٹ پیدا کرتے ہیں بعض کی خواہش رہتی ہیکہ لڑکی انہیں خوش کرتے ہوئے ان کی خوشامد کرلے اور اگر ایسا نہ ہوتو وہ لڑکی کے خلاف ہو جاتے ہیں اور ان کی زندگی میں تلخی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بعض ساس اور کٹھور نندوں کی جانب سے شوہر کو گمراہ کرتے ہوئے ورغلایا جاتا ہے اور میاں بیوی میں تلخی پیدا ہوتی ہے اور بعد ازاں یہ جھگڑے اولاد کی ذہنی اور نفسیاتی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں جس سے نسل متاثر ہوسکتی ہے عام طور پر لڑکی سے تقاضہ کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے ماں باپ کے پاس سے روپے لائے یا ان کی کسی اور خواہش کی تکمیل کرلے اگر لڑکی کے والدین اس موقف میں نہ ہوتو لڑکی کی زندگی مصیبت بن جاتی ہے، پھر اس کو دن رات طعنوں کا شکار بننا پڑتا ہے۔ مجبور لڑکی ماں باپ کو ان مطالبات کی تکمیل کے لئے کہتی ہے تو ماں باپ بے چارے بے بسی سے کچھ نہیں کرسکتے ہیں اس کی وجہ سے پھر ایک مرتبہ میاں بیوی میں تلخی پیدا کی جاتی ہے اور بار بار اس کو طعنے دیئے جاتے ہیں اور لڑکی کو اس کے ماںباپ سے ملنے کے لئے روک دیتے ہیں جس سے لڑکی کو شدید تکلیف اور صدمہ پہنچتا ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ بعض اوقات شوہر بلاجواز یا کسی معمولی جواز کے ساتھ لڑکی سے چھٹکارہ حاصل کرتے ہوئے نیا عقد کرنا چاہتا ہے اور کسی نہ کسی طرح چھٹکارہ حاصل کرنا چاہتا ہے اس سلسلے میں موجودہ قانون کے خدشات کے پیش نظر لڑکی پر مختلف ذرائع سے دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ وہ خلع لے اگر خلع نہ بھی چاہئے تو مجبوراً اُسے ڈرا دھمکاکر اور دھمکیوں کی وجہ سے خلع لینے پر رضامند ہونا پڑتا ہے جبکہ جبر کے ذریعہ اسلام میں کسی بھی کام کی اجازت نہیں اس سلسلے میں لڑکے اور لڑکی دونوں کو چاہئے کہ وہ اپنے والدین اور بزرگوں کی خواہشات کا اہتمام کرلے اور شادی کے معاملے میں لومیاریج کے رجحان کے بجائے والدین کی پسند کو ترجیح دے جس کے نتیجے میں لڑکے اور لڑکی دونوں کی زندگی انتہائی خوشگوار ہوسکتی ہے اور اولاد کا مستقبل بھی درخشاں ہو سکتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ موجودہ دور میں والدین یا بزرگوں کی خواہشات اور ان کی پسند کو نظرانداز کردیا جاتا ہے جس سے نہ صرف میاں بیوی بلکہ متعلقین کو بھی صدمہ کا شکار بننا پڑتا ہے۔ مزید برآں لڑکیوں کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے شوہر اور نندوں کے علاوہ اپنے ساس اور سسر کا خیال رکھیں اور زندگی کو خوشگوار بنانے کی جہاں تک ہو ممکن کوشش کرے اگر ایسا ہو تو انشاء اللہ تعالیٰ ازدواجی زندگی کامیاب ہوگی۔ ساس اور نندوں کی بھی ذمہ داری ہیکہ دوسرے گھر سے لائی ہوئی بہو کے ساتھ ہمدردی اور اپنی بیٹی جیسا سلوک کریں جو دوسروں کے لئے ایک مثال ثابت ہوگی۔ مزید تفصیلات کے لئے اس نمبر 9959672740 پر ربط پیدا کیا جاسکتا ہے۔