رام چندر گوہا
یہ مضمون اشاعت کیلئے 14 نومبر کو بھیجا جا رہا ہے جو پنڈت جواہر لال نہرو کی یوم پیدائش ہے ۔ وہی شخصیت جسے آج خبروں میں سب سے زیادہ پسند کیا جاتا ہے اور سب سے زیادہ رسواء بھی کیا جاتا ہے ۔ جب ان کا نام اور الفاظ ایک نوجوان امریکی عوامی شخصیت نے استعمال کئے تو یہ سودمند ہوسکتا ہے کہ یہ بھی واضح کردیا جائے کہ ایک اور نوجوان امریکی عوامی شخصیت پنڈت جواہر لال نہرو کے تعلق سے کیا سوچ رکھتی ہے ۔ یہ شخصیت ہے ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ کی ۔
1950 کی دہائی کے اوائل میں ڈاکٹری کی ایک طالب علم کی حیثیت سے ڈاکٹر کنگ نے گاندھی جی اور ہندوستانی جدوجہد آزادی سے متعلق کتابوں کو کھنگالا ۔ ان کتابوں سے انہیں گاندھی جی کے کرشماتی رفیق کار اور منتخب جانشین کے کام کاج سے واقفیت ہوئی ۔ ایسا لگتا ہے کہ ڈاکٹر کنگ نے پنڈت نہرو کی سوانح حیات بھی پڑھی ہو ۔ نومبر 1958 میںڈاکٹر کنگ نے ‘ جب ان کی عمر 30 سال بھی نہیں تھی ‘ حوصلہ کرتے ہوئے وزیر اعظم ہند کو اپنی ایک نئی شائع شدہ کتاب روانہ کی تھی ۔ اس کتاب کا نام Stride Toward Freedom تھا ۔ اس کتاب میں شہری حقوق کی تحریک کے ایک واقعہ کو پیش کیا ہے ۔ یہ واقعہ Montgomery بس بائیکاٹ کا ہے ۔ یہ کتاب دہلی روانہ کی گئی تھی اور اس پر تحریر تھا ’’ آپ کی حقیقی خیرسگالی ‘ آپ کی وسیع انسانی فکر کی ستائش میں ۔ اس جذبہ کی ستائش میں جو آپ کی ہندوستان کیلئے عظیم جدوجہد نے مجھے اور Montgomery کے 50 ہزار سیاہ فام باشندوں کو دیا ہے ۔
پنڈت نہرو نے جواب روانہ کیا جس میں کتاب ملنے کی توثیق کی گئی تھی ۔ انہوں نے تحریر کیا ’’ میں اس کام میں بہت پہلے سے دلچسپی رکھتا ہوں جو آپ اب کر رہے ہیں اور زیادہ خاص بات یہ ہے کہ آپ جس انداز میں کر رہے ہیں وہ قابل ستائش ہے ‘‘ ۔ یہ کتاب مجھے اس کام کو مزید گہرائی سے سمجھنے میں مدد کرے گی اور میں اس کا خیرمقدم کرتا ہوں۔ اس میں مزید تحریر تھا ’’ میں سمجھتا ہوں آپکے دورہ ہندوستان کا ایک اچھا موقع ہے ۔ میں آپ سے ملاقات کا منتطر ہوں ‘‘ ۔
ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ واقعی بہت جلد ہندوستان کا دورہ کرنے والے تھے ۔ ان کے دورہ کے انتظامات قدیم گاندھی جی کے قدیم ساتھیوں نے کیا تھا جن میں کاکا کیلکر اور راج کماری امرت کور بھی شامل تھیں۔ مارٹن لوتھر کنگ اور ان کی شریک حیات کوریٹا کی 10 فبروری 1959 کو ہندوستان آمد ہوئی ۔ دہلی ائرپورٹ پر لینڈنگ کے بعد مارٹن لوتھر کنگ نے وہاں موجود صحافیوں کیلئے اپنا مختصر بیان دیا ۔
میرے دوستو :میں بہت طویل وقت سے منتظر تھا کہ آپ کے عظیم ملک کا دورہ کروں۔ دوسرے ممالک کو میں ایک سیاح کی طرح جاسکتا ہوں لیکن ہندوستان کو میں ایک زائر کی حیثیت سے آیا ہوں۔ ایسا اس لئے کیونکہ ہندوستان میرے لئے مہاتما گاندھی ہے ۔ جو کئی ادوار کی ایک واقعی عظیم شخصیت ہے ۔ میرے لئے ہندوستان کا مطلب پنڈت نہرو بھی ہے اور ان کی دانشمندانہ قیادت اور دانشوری بھی ہے جو دنیا بھر میں تسلیم کی جاتی ہے ۔
نہرو نے دورہ کنندہ امریکی جوڑے کو تین مورتی بھون میں 13 فبروری کو عشائیہ پر بھی مدعو کیا ۔ بوسٹن یونیورسٹی میں مارٹن لوتھر کنگ کے دستاویزات پر کام کرتے ہوئے مجھے ایک ٹائپ شدہ ایک صفحہ کا نوٹ دستیاب ہوا جو میں نیچے پیش کر رہا ہوں۔
مارٹن لوتھر کنگ اور نہرو کے درمیان بات چیت کیلئے نوٹس:
.1 آج دنیا میں عدم تشدد کی سماجی تبدیلی کا موجودہ موقف کیا ہے ؟ ۔.a داخلی مسائل کیلئے ۔ .b بین الاقوامی تبدیلی کیلئے ۔
.2 عوامی بھلائی کو بہتر بنانے ہندوستان کی موجودہ جدوجہد میں گاندھی ازم کتنا اہم اور سماجی طور پر کارآمد ہے ؟ ۔ .a کیا کچھ تبدیلیاںدرکار ہیں ؟ ۔ .b کیا یہ صنعتی ارتقاء اور قومی دفاع سے تضاد رکھتا ہے ؟ ۔
.3 کیا جمہوریت کی پابند ایک قوم اپنے تمام لوگوں کیلئے بہتر زندگی کی سمت پیشرفت کرسکتی ہے وہ بھی اتنی تیزی سے کہ جمہوریت متاثر نہ ہو اور کمیونزز کی مزید تیز رفتار ترقی کیلئے ؟ ۔ .a چین یا ہندوستان ؟ .b افریقہ کس رخ جائے گا ؟ ۔
.4 امریکہ کے سیاہ فام باشندوں اور ہندوستانی باشندوں کے مابین دوستی کے بندھن کو کس طرح سے مزید مستحکم بنایا جاسکتا ہے ؟ ۔ .a طلباء اور پروفیسروں و صحافیوں کا تبادلہ ۔ .b ہندوستانی قائدین کے جنوبی امریکہ کے دورے اور نیگرو ( سیاہ فام ) قائدین کے ہندوستان کے دورے ۔
ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ کی شمالی امریکہ کو واپسی کے بعد کناڈا کے ایک ٹی وی پروگرام Front Page Challenge کیلئے ان کا انٹرویو کیا گیا ۔ سب سے پہلے انٹرویو نگار نے ان سے گاندھی جی سے وابستگی پر سوال کیا جس پر کنگ نے حضرت یسوع مسیح کا حوالہ دیا اور کہا کہ انسانی وقار کیلئے کسی بھی جدوجہد میں محبت اور عدم تشدد بنیادی نظریہ ہونا چاہئے ۔ پھر بات چیت جواہر لال نہرو کی جانب تبدیل ہوگئی جن سے مارٹن لوتھر کنگ نے حال ہی میں ہندوستان میں ملاقات کی تھی ۔ انٹرویو نگار نے سوال کیا کہ آیا نہرو بھی عدم تشدد کے ہی حامی ہیں جس پر کنگ نے جواب دیا کہ جب نہرو یہ مانتے تھے کہ تشدد ہندوستان کی جدوجہد آزادی میں غیراخلاقی اور ناقابل عمل ہوگا تو استاد اور شاگرد میں اختلاف رائے بھی تھا ۔ گاندھی جی ہر طرح کی صورتحال میں مکمل عدم تشدد کے حامی تھے جب کہ میں سمجھتا ہوں کہ نہرو اقوام کے داخلی امور میں اس بات میں یقین رکھتے تھے تاہم جب بین الاقوامی تنازعات کی بات آئے تو وہ اس بات میں یقین رکھتے تھے کہ ایک قوم کو اپنی فوج بھی رکھنی چاہئے ۔ مارٹن لوتھر کنگ فبروری 1959 میں جن سوالات پر پنڈت جواہر لال نہرو سے بات چیت کرنا چاہتے تھے وہ ان کے اپنے دور اور ہمارے دور سے متعلق ہی ہیں۔ 2025 میں بھی سماجی و سیاسی تنازعات کی یکسوئی میں عدم تشدد کے رول ‘ جمہوریت اور آمریت کے مختلف دعووں ‘ گاندھیائی معیشت ( آج کے دور کی ایکالوجیکل ) کے نظریات اور موجودہ اور مستقبل کے ہند ۔ امریکی تعلقات سب کچھ دلچسپی اور اہمیت کے حامل ہیں ۔
اگر نہرو اور کنگ کے مابین ان خطوط پر بات ہوئی ہوتی تو یہ کئی ادوار کیلئے اہم ہوتی ۔ دونوں ہی افراد کیلئے تاریخ اور سیاسی نظریہ میں دلچسپی تھی ۔ دونوں ہی بہت پڑھے ہوئے تھے اور د ونوں ہی اپنی سوچ کو بہت احتیاط اور و اضح طور پر پیش کرتے تھے ۔ ہمیںحیرت ہے کہ کس طرح نہرو چین کے ایک جماعتی ریاست کے نظام پر ہندوستان کی ہمہ جماعتی جمہوریت کی وکالت کرتے ۔ کیا کنگ نہرو کو ان کی معاشی پالیسیوں پر چیلنج کرتے ؟ ۔ ہوسکتا ہے کہ وہ یہ تجویز کرتے کہ ایک ایسے سماج میں جہاں سرمایہ نایاب ہو اور مزدور وافر ہوں بھاری صنعتی انقلاب کیلئے غیر گاندھیائی طرز غیر دانشمندانہ ہو ۔ کس طرح سے دونوں ہی قائدین ہندوستان اور امریکہ کے مابین موجودہ اور مستقبل کے تعلقات کو دیکھتے ہوں۔ اور شائد بات چیت سیاسی سے کسی نکتہ پر پہونچ کر شخصی بھی ہوجاتی ۔ نہرو اور کنگ محبت ‘ رومانس ‘ خاندان اور شادی پر بھی نوٹس کا تبادلہ کرتے ہوں۔
تاریخ داں صرف قیاس کرسکتا ہے ۔ تاہم ایک اختراعی مصنف ان قیاس آرائیوں سے فن پارے بناسکتا ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ ایک قابل نوجوان پلے رائیٹ اس پر ایک ڈرامہ بھی تحریر کردے ان سوالات پر جو کنگ نہرو کے ساتھ کرنا چاہتے تھے ۔ بات چیت جو اس سے بھی آگے جاسکتی تھی ۔ تاہم حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہوا جو تاریخی ریکارڈ ہمیں بتاتا ہے ۔ اس کہانی میں صرف دو ادکار ہوسکتے تھے ایک ہندوستانی جو عمر کی چھٹی دہائی میں ہو اور ایک امریکی جو عمر کی تیسری دہائی میں ہو ۔ اس میں صرف دو سین ہوتے ۔ پہلا نئی دہلی کے وزیر اعظم ہاوز کے لان میں سیٹ کیا گیا ہو اور دوسرا ڈائننگ روم میں سیٹ کیا گیا ہو ۔ اور یہ سب کچھ وہ کوئی تحریر کرتا جو یا تو ہندوستانی ہو یا امریکی ہو یا سب سے اچھا ہندوستانی ۔ امریکی ہو۔
[email protected]