رامچندرا گوہا
میں نے کئی برسوں سے ملک کے مشہور و معروف مورخ و سوانح نگار راج موہن گاندھی کی ان کی تحریر کردہ کتابوں اور جمہوریت و تکثریت کیلئے ان کے مسلسل پابند عہد ہونے اور وابستگی کیلئے تعریف و ستائش کی ہے۔ ایمرجنسی کے دوران وہ ’’ہمت‘‘ نامی ایک ہفتہ وار کے مدیر تھے اور اس ہفتہ وار نے اُس وقت ملک میں ڈر و خوف کا جو ماحول پایا جاتا تھا اسے چیلنج کیا تھا۔ اس طرح راج موہن گاندھی کی ادارت میں جاری ہونے والے اس ہفتہ وار کا شمار ملک کے جرأتمند اور بیباکانہ صحافت کی نمائندگی کرنے والے چند ایک جرائد میں ہوتا تھا۔ راج موہن گاندھی کی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے جدید ہندوستان سے متعلق کڑی محنت کے ساتھ تحقیق کی اور اسی تحقیق کی بنیاد پر ریسرچ اسٹڈیز کا ایک سلسلہ شروع کیا اور اسے منظرِ عام پر لایا جس میں ولبھ بھائی پٹیل اور سی راجگوپال چاری کی غیر معمولی سوانح حیات بھی شامل ہے۔ راج موہن گاندھی نے اس قدر غیرمعمولی تحریری کام کرتے ہوئے عوامی مباحثوں میں بھی شرکت کا سلسلہ جاری رکھا۔ مختلف اخبارات و جرائد میں کالم بھی لکھتے رہے۔ ان کے مضامین کی یہ خوبی ہوتی ہے ان کے ذریعہ وہ قارئین کو پورے دلائل کے ساتھ اپنے پیش کردہ نکتہ کو سمجھاتے اور قائل کرواتے ہیں‘ اس کے علاوہ ان کے کالم معلومات سے بھرپور ہوتے ہیں۔ میں نے راج موہن گاندھی کے بحیثیت مصنف، سوانح نگار اور مورخ کے کارناموں کو بڑی گیرائی سے سمجھا لیکن کچھ میری نظروں سے بھی اوجھل ہوگئے۔
حالیہ عرصہ کے دوران میرے ایک دوست نے راج موہن گاندھی کی ایک تقریر کی جانب میری توجہ مبذول کروائی جو اس سے پہلے میرے مطالعہ میں نہیں آئی تھی‘ یہ تقریر ستمبر 1991 میں اُس وقت کی گئی جب انہوں نے راجیہ سبھا میں مختصر میعاد کیلئے خدمات انجام دی تھی۔ راج موہن گاندھی نے جو ریمارکس کئے تھے یقینا وہ ہمیں آج ہندوستان جس مقام پر کھڑا ہے جس طرح کی صورتحال یہاں پائی جاتی ہے اس سے واقف کرواتے ہیں۔ دراصل راج موہن گاندھی اس وقت عبادت گاہوں کے موقف سے متعلق Places of Worship Act 1991 پر مباحث میں حصہ لیتے ہوئے اظہارِ خیال کررہے تھے، وہ بل اس لئے پیش کیا گیا تھا کہ 15 اگسٹ 1947 میں عبادت گاہوں ( چاہے وہ کسی بھی مذہب کے ماننے والوں کی ہوں ) کا جو موقف تھا وہ جوں کا توں رہے گا اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی یعنی ان عبادت گاہوں کا جو مذہبی کردار یا مذہبی تشخص تھا وہ برقرار رہے گا، تاہم اس قانون سے ایک مقدمہ کو استثنیٰ دیا گیا اور وہ ایودھیا کا وہ مقام تھا جہاں بابری مسجد کھڑی تھی ( بابری مسجد ۔ رام جنم بھومی ملکیت ) اُس مقام کے بارے میں کئی ہندوؤں کا ماننا تھا کہ وہ اُن کے بھگوان رام کی جائے پیدائش ( پیدائش کا مقام ) ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ اُس وقت مرکز میں کانگریس حکومت تھی چنانچہ Places of Worship Act 1991 پارلیمنٹ میں نہ صرف پیش کیا گیا بلکہ اسے منظور بھی کرلیا گیا حالانکہ بی جے پی نے اس بل کی شدت سے مخالفت کی ۔ بی جے پی کا یہ استدلال تھا کہ اس بل سے وفاقیت کے اُصولوں کی خلاف ورزی ہوتی ہے اور ریاستی حکومتوں کو اس بات کی آزادی ہونی چاہیئے کہ ان کے کنٹرول میں جو عبادت گاہیں ہیں ان کے بارے میں اپنی مرضی و منشاء کے مطابق اقدامات کریں۔
راج موہن گاندھی جو اُس وقت راجیہ سبھا میں جنتا دل کے ایک رکن کی حیثیت سے نمائندگی کررہے تھے ایوان بالا میں اپنی تقریر کے ذریعہ مباحث کا آغاز کیا تھا، ان کے خطاب سے ہندوستان کے ماضی کے تئیں ان کی گہری سوچ و فکر اور غیر معمولی معلومات کا اظہار ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں گڑے مُردے اُکھاڑ کر یا پھر پرانے زخموں کو تازہ کرنے کے خلاف حکومت کے ساتھ ساتھ ملک کو بھی خبردار کیا تھا ۔ اپنے خطاب میں انہوں نے مہا بھارت کے حوالے سے تباہی و بربادی کی یادوں کو تازہ کیا جس میں انتقام یا بدلہ کے پر عمل کرتے ہوئے ہزاروں ‘ لاکھوں انسانوں کا قتل کیا گیاان کی زندگیوں کا خاتمہ کردیا گیا۔ مہا بھارت میں جو کچھ ہوا اس کے صدیوں پرانے سبق کے بارے میں حوالے دیتے ہوئے راج موہن گاندھی نے خبردار کیا تھا کہ جو لوگ انتقامی رویہ اپناتے ہیں اور اس رویہ کے ساتھ تاریخ کی غلطیوں کو سدھارنے یا درست کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ صرف تباہی اور مزید تباہی کا سامان کریں گے۔ ان کے اِس انتقامی جذبہ سے کسی کا بھلا نہیں ہوگا بلکہ ملک کا ، عوام کا اور انسانیت کا نقصان ہوگا۔
آپ کو یہ بتانا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ اُس وقت (1991 میں ) اپوزیشن میں رہتے ہوئے بھی راج موہن گاندھی نے عبادت گاہوں سے متعلق بل کی تائید و حمایت کی جبکہ بی جے پی کے کچھ قائدین نے Places of Worship Act 1991 کو ہندو مخالف قرار دینے سے بھی گریز نہیں کیا۔ ان کا بھی راج موہن گاندھی نے اپنے خطاب میں یہ کہتے ہوئے حوالہ دیا کہ ہماری سرزمین میں یہ علیحدگی کی ایک نئی آواز ہے، یہ ایسے لوگ ہیں جو اپنی سوچ و فکر اور نظریہ کو باالفاظ دیگر انتقام کے نام نہاد جذبہ کو نئی قوم پرستی کا نام دینے لگے لیکن یہ ایک نئی علیحدگی پسندی ہے، یہ ایک ہندو علیحدگی پسندی ہے ،یہ ایک المناک اور جنگ زد تناسخ میں ہندو مت ہے اور مجھے یقین ہے کہ جو لوگ اس کے پیچھے کار فرما ہیں ہندو کاز کیلئے وقف ہیں لیکن خود کے اپنے جذبات و احساسات سے گمراہ ہیں‘ وہ یہاں ہندوستان میں ایک ہندو پاکستان اور ایک ہندو سعودی عرب بنانا چاہتے ہیں۔
راج موہن گاندھی کا یہ بھی کہنا تھا کہ ماضی کے جرائم (حقیقی یا تصوراتی ) پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے اس نئے علیحدگی پسند ہندوازم نے جان بوجھ کر مصیبت اور بھوک اور اندھی تقلید، کرپشن و تشدد کو بالکلیہ طور پر نظرانداز کردیا۔ راج موہن گاندھی کا اپنے فکر انگیز خطاب میں مزید کہنا تھا کہ ہندوتوا فورسس ہندو فخر اور ہندو وقار بحال کرنے کی باتیں کرتے ہیں اور اس نئے ہندو علیحدگی پسندی کی آزمائش کا اظہار اس بات میں ہے کہ آپ مسلمانوں کے کتنے خلاف ہیں اور آپ کا ہندوازم مظاہرہ کیسا ہے۔
1991 میں راجیہ سبھا میں اپنے تاریخی خطاب میں راج موہن گاندھی نے بل کی مخالفت کرنے والوں کو خبردار کیا تھا کہ ماضی کو کریدنے اور سچ و جھوٹ کے ذریعہ آپ چھوٹی یا بڑی سیاسی کامیابی حاصل کرسکتے ہیں لیکن اس سے ملک میں نئے جذبات و احساسات پیدا ہوں گے اور اس بات کا مطالبہ کیا جائے گا کہ ماضی کی غلطیوں کا اب ازالہ کیا جائے جس کے نتیجہ میں فرقہ وارانہ ماحول خراب ہوسکتا ہے۔ غرض جھوٹ ہو یا سچ اس کی بنیاد پر اگر ماضی کی غلطیوں کو سدھارنے کی کوشش کی جائے گی تو اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ راج موہن گاندھی کا یہ بھی کہنا تھا کہ آج حقیر سیاسی فائدہ کیلئے ہندو فخر اور ہندو وقار کی باتیں کرلیں گے اور ان کا سیاسی فائدہ بھی حاصل ہوگا، وہ طاقتور اور بااثر بھی ہوجائیں گے لیکن اس سے صرف اور صرف ملک کا نقصان ہوگا۔ راج موہن گاندھی نے اپنا خطاب بی جے پی اور اس کے حامیوں سے یہ اپیل کرتے ہوئے ختم کیا کہ مسئلہ کو اس کے صحیح تناظر میں دیکھیں اور اس بل کی مخالفت کرنے سے پہلے یہ ضرور سوچیں کہ مستقبل میں انہیں کوئی مسئلہ پیدا نہ ہو، ہاں کچھ تنازعات ہوسکتے ہیں لیکن تشدد کی بجائے پُرامن راہ اختیار کی جانی چاہیئے کیونکہ ہم متحدہ طور پر ہی مستقبل کو روشن بناسکتے ہیں۔