مولانا ڈاکٹر احسن بن محمد الحمومی کا شاہی مسجد باغ عام میں خطاب
حیدرآباد، 18اکتوبر (راست)مشاہدۂ قدرت سے معرفت خداوندی حاصل ہوتی ہے۔ ہم کبھی دنیا اور اس کی مخلوقات کو اس نظر سے بھی دیکھیں کہ خالقِ کائنات نے کیسی کیسی شاہکار مخلوق کو پیدا کیا۔ اللہ نے ان بے شمار مخلوق میں سے ہمیں اپنی بندگی اور اطاعت کے لیے پیدا کیا ہے۔ بندے اور رب کے درمیان تعلق کا مضبوط اور ہمہ وقتی تعلق دعا کا ہے۔ بندہ جب چاہے اپنے رب سے گفتگو کرسکتا ہے اور اپنے ضروریات کے متعلق مانگ بھی سکتا ہے۔ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ دعا مومن کا ہتھیار ہے۔ دعا ایسی عظیم نعمت ہے کہ ہم اس کے ذریعہ اپنے رب سے تعلق کو مضبوط اور توانا بنا سکتے ہیں۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ’اپنے رب سے گڑگڑاتے ہوئے اور آہستہ آواز سے دعا کرو اور جو لوگ اللہ سے دعائیں نہیں مانگتے ہیں، انھیں اللہ پسند نہیں کرتا‘ (سورہ احزاب) اللہ فرماتے ہیں مفہوم کہ جب تم مصیبت میں مبتلا ہو جاتے ہوں تو کون تمہاری پریشانی کو ہٹا سکتا ہے؟۔ بہ روایت حضرت ابوہریرہؓ حدیث قدسی ہے کہ پروردگار عالم فرماتے ہیں کہ لوگوں تم مجھے جیسا سمجھوں گے، میں تمہارے ساتھ ویسا ہی معاملہ کروں گا اور جب بندہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں‘۔ اللہ کے سامنے ہاتھ اٹھا کر مانگنے سے شرم کس بات کی؟ اس کے سامنے مانگنے سے تو عزت بھی محفوط رہتی ہے اور وہ عطا بھی کرتا ہے۔ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ لوگوں اللہ سے دعا کرتے کرتے تھک مت جانا۔ اپنے مالک حقیقی کے سامنے ہاتھ ہٹانا ایک مسلمان کی عزت و وقار میں اضافہ کا سبب ہے۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ دعا دین کا ستون ہے اور یہ دعا ہی ہے، جس نے آسمان اور زمین کو روشن کیے ہوئے ہے۔ بہ روایت حضرت ابوہریرہؓ نبی کریمؐ نے فرمایا کہ لوگو! اللہ کی بارگاہ میں دعا سے زیادہ کوئی شئے عزت والی نہیں ہے۔ اسی لیے ہر عبادت میں دعا شامل ہے۔ دعا سے مزے دار کوئی اور چیز نہیں۔ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ کوئی انسان یہ چاہتا ہے کہ مصیبت کے وقت اللہ اس کی دعائیں قبول کرے، تو اسے چاہیے کہ اپنی خوش حالی کے دور میں اللہ سے خوب دعائیں کرتے رہے۔ جب حضرت یونسؑ مچھلی کے پیٹ میں تھے، اس وقت وہ اللہ سے دعا کرتے تھے کہ لا الہ الا انت سبحنک انی کنت من الظلمین۔ یہ ایک بہت ہی اہم اور بابرکت دعا ہے جو مسلمانوں کے لیے روحانی سکون، پاکیزگی اور اللہ کی قربت کا ذریعہ ہے۔ یہ الفاظ حضرت یونس علیہ السلام کی دعا سے لیے گئے ہیں جو انہوں نے مچھلی کے پیٹ میں اللہ کی طرف رجوع کرتے ہوئے پڑھی تھی۔ یہ دعا انسان کو اللہ کی عظمت اور پاکیزگی کا شعور دلاتی ہے اور اللہ کے سامنے عاجزی اور توبہ کا پیغام دیتی ہے۔ جب کوئی اللہ کے سامنے ہاتھ ہٹاتا ہے تو وہ فوری عطا کردیتا ہے یا اس کی دعا کو موقع مناسبت کے حساب سے قبول کرتا ہے یا اس کے لیے آخرت میں اجر عطا کرتا ہے۔ آج ہم مجموعی طور پر ضرورت مند اور مجبور و بے بس ہوچکے ہیں۔ ایسے میں اللہ کے در سے جیسے مانگتا تھا، ویسا ہم اپنے اللہ سے لو نہیں لگا رہے ہیں۔ ہم نے تو اپنے بچوں کو تک اللہ سے دعا مانگنا نہیں سکھایا۔ اللہ کے دربار میں عزت ہی عزت ہے، یہاں بے عزتی نہیں ہے۔ پروردگار عالم سے دعا کے ذریعہ اپنا رابطہ مضبوط کریں۔