جوابدہی سے انکار … پارلیمنٹ سے حکومت کا فرار
کشمیر میں پتھر بازوں کو ملازمت نہیں … قتل کے ملزمین ایوانوں میں
رشیدالدین
ہٹ دھرمی اور انانیت چاہے انفرادی سطح پر ہو یا اجتماعی دونوں صورتوں میں نقصان دہ ہوتی ہے۔ انفرادی طور پر ہٹ دھرمی کا اثر خاندان اور معاشرہ کی زندگی پر پڑتا ہے لیکن یہی رویہ حکومت کی سطح پر ہو تو اس میں ملک کا نقصان ہے۔ ماہرین نفسیات کے مطابق ازدواجی زندگی میں ناکام افراد عام طور پر ضدی اور ہٹ دھرم ہوا کرتے ہیں جو احساس کمتری کو برداشت نہیں کرپاتے اور اپنے رویہ سے دوسروں کی زندگی اجیرن کرتے ہیں۔ جو شخص گھریلو زندگی میں کامیاب ہوتا ہے وہ کسی بھی شعبہ میں بحران اور تنازعات کو کامیابی سے نمٹ سکتا ہے ۔ حاکم وقت جب گھریلو زندگی اور اس کے تقاضوں سے محروم ہو تو عوامی زندگی میں کامیابی کا تصور محال ہے۔ گھر میں کامیاب شخص باہر بھی کامیاب اس لئے ہوتا ہے کہ گھریلو زندگی سے مسائل کو خوشگوار انداز میں نمٹنا اور گھر میں خوشحالی برقرار رکھنا حکومت چلانے سے کچھ کم نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی ممالک اور ملٹی نیشنل کمپنیوں میں ایڈمنسٹریشن کے اہم عہدوں پر غیر شادی شدہ افراد کو فائز نہیں کیا جاتا۔ ملک میں مودی حکومت کی ہٹ دھرمی اور ضد نے گزشتہ دو ہفتوں سے پارلیمنٹ کی کارروائی کو ٹھپ کردیا ہے ۔ عوام کو سنگین مسائل کا سامنا ہے لیکن حکومت اندھی ، بہری اور گونگی بن چکی ہے ۔ اسے عوام کی مصیبت دکھائی نہیں دے رہی ہے اور نہ اپوزیشن کی آواز سنائی دے رہی ہے۔ مسائل پر حکومت لب کشائی کیلئے تیار نہیں ہے جیسے کہ وہ قوت گویائی سے محروم ہوں۔ مہنگائی ، مخالف کسان قوانین اور جاسوسی پر اپوزیشن مباحث کی مانگ کر رہی ہے لیکن حکومت اپنے اڑیل رویہ پر قائم ہے۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوان عوامی مباحث کے لئے ہیں نہ کہ سرکاری قوانین کی مباحث کے بغیر منظوری کیلئے ۔ سرکاری بلز کی منظوری تو صدر جمہوریہ کے آرڈیننس کے ذریعہ بھی ہوسکتی ہے ۔ ایوان کی کارروائی چلانی ہو تو حکومت کے ساتھ اپوزیشن کا تعاون ضروری ہے ۔ اپوزیشن کا کام صرف رکاوٹ نہیں بلکہ مباحث کی راہ ہموار کرنا ہے ۔ جس طرح تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی اسی طرح حکومت اور اپوزیشن کے بغیر پارلیمنٹ کو عوامی مسائل پر مباحث کا مرکز نہیں بنایا جاسکتا۔ یہ الگ بات ہے کہ حکومت کی ذمہ داری کچھ زیادہ ہوتی ہے۔ یہاں مسئلہ یہ ہے کہ حکومت حقائق کا سامنا کرنے تیار نہیں ہے جس کے نتیجہ میں اپوزیشن کو سیاسی مقصد براری کا موقع مل چکا ہے ۔ کانگریس اور دیگر اپوزیشن جماعتیں وہی کر رہی ہیں جو کام بی جے پی نے یو پی اے دور حکومت میں کیا تھا ۔ کسی بھی حکومت کے لئے حقائق اور مسائل سے فرار کی ایک حد ہوتی ہے ۔ کبھی نہ کبھی سچائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایک طرف مسائل کا انبار ہے لیکن مودی حکومت فرار کی راہ پر ہے ۔ عوام کو جاننے کا حق حاصل ہے کہ سیاستدانوں ، صحافیوں ، جہد کاروں ، ججس اور عہدیداروں کی جاسوسی کون کر رہا ہے ۔ عام طور پر ان عناصر کی سرگرمیوں پر نظر رکھی جاتی ہے جن پر ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا شبہ ہوتا ہے ۔ ایسے افراد کی جاسوسی میں حکومت اور سیکوریٹی ادارے حق بجانب ہیں لیکن یہاں تو ہر اس شخص پر نگاہ رکھی گئی جو حکومت کی پالیسیوں کا مخالف ہو۔ دراصل مودی حکومت کی مخالفت اور پالیسیوں سے اختلاف بی جے پی کے نزدیک ملک دشمنی کی تعریف میں آتا ہے ۔ حکومت کو قوم کو یہ بتانا ہے کہ اسرائیلی سافٹ ویر کے ذریعہ اہم شخصیتوں کے فون ٹیاپ کیوں کئے گئے۔ حکومت کا یہ اقدام انفرادی آزادی کے دستوری حق میں مداخلت ہے۔ اسی طرح پٹرولیم اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کے نتیجہ میں کمر توڑ مہنگائی کے بارے میں قوم کو وضاحت کی ضرورت ہے۔ کسان گزشتہ کئی ماہ سے زرعی قوانین کے خلاف سڑکوں پر ہیں اور حکومت بات چیت کے لئے تیار نہیں۔ حکومت سے جواب طلب کرنے پر نریندر مودی نے اپوزیشن پر دستور اور پارلیمنٹ کی توہین کا الزام عائد کیا۔ ظاہر ہے کہ جب حکومت سے اختلاف بی جے پی کے نزدیک ملک دشمنی ہے تو پھر وزیراعظم سے سوال کرنا دستور کی توہین کے سواء کچھ نہیں۔ عوام یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ وہ جمہوریت میں ہیں یا پھر ڈکٹیٹرشپ میں۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں دو ہفتے ہنگامہ آرائی کی نذر ہوگئے اورحکومت مطمئن ہے کہ شور و غل میں سرکاری بلز کی منظوری کا سلسلہ جاری ہے ۔ اپوزیشن کو حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے شور شرابہ کے بجائے ایوان کی کارروائی چلانے میں تعاون کرنا چاہئے تاکہ اہم مسائل پر مباحث کی راہ ہموار ہوسکے۔ اس طرح حکومت کو جواب دینے پر مجبور کیا جاسکتا ہے ۔ احتجاج جاری رکھنے سے فائدہ حکومت کا ہے جو جواب دینے سے بچ رہی ہے ۔ جمہوریت میں لچکدار رویہ سے مسائل کا حل تلاش کیا جاسکتا ہے۔
اترپردیش میں دوبارہ کامیابی کیلئے بی جے پی نے یوگی ادتیہ ناتھ کی قیادت میں اسمبلی الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے ۔ یوں تو اترپردیش میں سابق میں بی جے پی کے کئی چیف منسٹر گزرے لیکن یوتی ادتیہ ناتھ نے اپوزیشن کو کمزور کرنے میں جس طرح کامیابی حاصل کی ، وہ سابق میں کسی کے بس کی بات نہیں تھی ۔ ایک طرف اپوزیشن پر شکنجہ تو دوسری طرف جارحانہ فرقہ پرستی کے ایجنڈہ نے یو پی کے پرامن ماحول کو زعفرانی رنگ میں رنگ دیا ہے ۔ رام مندر کی تعمیر، لو جہاد ، گاؤ رکھشا ، دینی مدارس کے خلاف کارروائیاں ، ہجومی تشدد کے واقعات اور مسلمانوں پر مظالم کے ذمہ داروں کو کھلی چھوٹ۔ اتنا ہی نہیں یوگی کے ذریعہ مغربی بنگال ، راجستھان ، مدھیہ پردیش ، تلنگانہ اور دیگر ریاستوں میں نفرت کا زہر پھیلایا گیا ۔ بی جے پی کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے والے اعظم خاں اور ان کے خاندان کو انتقامی کارروائی کے تحت جیل بھیج دیا گیا ۔ یونیورسٹی کے قیام کے لئے سرکاری اراضی پر قبضہ کا الزام تو محض بہانہ ہے ۔ اصل نشانہ تو مخالف یوگی طاقتیں ہیں جن میں اعظم خاں سرفہرست تھے۔ ان کا قصور بس اتنا ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی ختم کرنے کیلئے یونیورسٹی قائم کی ۔ عدلیہ کا بھی حال عجیب ہے۔ سپریم کورٹ نے گودی میڈیا کے سربراہ کو فوری ضمانت منظور کردی اور اعظم خاں ، ان کے فرزند اور دیگر جہد کار کئی ماہ سے انصاف کے منتظر ہیں۔ جس شخص نے سماج وادی پارٹی کو اقتدار تک پہنچایا اور پارٹی کو پھوٹ سے بچایا ۔ اس کے احسانات کو پارٹی نے فراموش کردیا۔ رہائی کیلئے جدوجہد تو کجا دواخانہ پہنچ کر عیادت تک نہیں کی گئی ۔ الیکشن سے عین قبل یوگی ادتیہ ناتھ کو آبادی پر کنٹرول کا خیال آیا اور مسودہ قانون کا مقصد دراصل مسلمانوں کو ٹارگٹ کرنا ہے ۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ اگر کانگریس پارٹی آزادی کے بعد آبادی پر کنٹرول کا قانون بناتی تو آج کے وہ قائدین شائد دنیا میں نہ آتے جو آبادی پر کنٹرول کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ نریندر مودی اور یوگی ادتیہ ناتھ کے بھائی بہنوںکی تعداد مقررہ حد سے زیادہ بتائی جاتی ہے ۔ آبادی میں اضافہ سے متعلق جو سروے کیا گیا ، اس میں مسلمانوں سے زیادہ ہندو طبقہ کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے۔ کانگریس نے آزادی کے بعد آبادی پر کنٹرول کا قانون نہیں بنایا جس کے نتیجہ میں جو لوگ دنیا میں آئے ، وہ آج دوسروں کو روکنا چاہتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جو خود بال بچوں اور گھر دار کے نہیں ہے، وہ یہ طئے کریں گے کہ ہر شخص کے بچے کتنے ہوں ۔ کیا بی جے پی اترپردیش کے ان 150 بی جے پی ایم ایل ایز کو دوبارہ ٹکٹ نہیں دے گی جن کے بچوں کی تعداد 4 سے زائد ہے۔ ادتیہ ناتھ جو کہ یوگی ہیں اور وہ رامائن میں رام کے بھائیوں اور مہا بھارت میں کورو اور پانڈو کی تعداد کو شائد بھول چکے ہیں۔ جب اپنے مذہب میں دیوی دیوتاؤں کے بچوں کی تعداد زیادہ ہے تو پھر آج دوسروں کو کنٹرول کے لئے کیوں ترغیب دی جارہی ہے ۔ دراصل عربی زبان کا مقولہ ہے کہ جو شخص جس چیز سے محروم ہوتا ہے ، اس کا دشمن ہوتا ہے۔ جن کے بال بچے نہیں ، وہ اس نعمت اور اہمیت کی قدر کیا جانیں۔ اسی دوران جموں و کشمیر میں ناانصافی کے دو سال کی تکمیل پر عوام کے زخم ابھی تازہ تھے کہ حکومت نے نئے ظلم کو متعارف کیا ہے۔ حکومت نے فیصلہ کیا کہ وادی میں پتھر بازوںکو سرکاری ملازمت نہیں دی جائے گی اور نہ ہی ان کا پاسپورٹ جاری ہوگا۔ سرکاری ملازمتوں میں موجود کشمیریوں پر اگر سنگباری کے مقدمات پائے گئے تو وہ ملازمت سے محروم ہوسکتے ہیں۔ اس طرح کا قانون انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے ۔ سیکوریٹی فورسس پر پتھراؤ یا سنگباری کے واقعات صرف کشمیر تک محدود نہیں ہے۔ شمال مشرقی ریاستوں میں آئے دن پولیس اور سیکوریٹی فورسس کا عوام سے تصادم ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ملک میں جہاں کہیں بڑے پیمانہ پر احتجاج منظم کیا جائے ، وہاں پولیس سے ٹکراؤ کی صورت میں اس طرح کے واقعات معمول کی بات ہے لیکن صرف کشمیر کے نوجوانوں کو نشانہ بنانا فرقہ وارانہ ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔ تقسیم ہند کے بعد مسلم اکثریتی ریاست ہونے کے باوجود کشمیریوں نے پاکستان کے بجائے ہندوستان کو اپنا وطن بنایا جس کے جواب میں انہیں خصوصی مراعات دی گئیں تاکہ وہ بہتر طور پر ترقی کرسکیں۔ کشمیر میں بیروزگاری کا فائدہ عسکریت پسند تنظیموں نے اٹھایا ہے جس کا اعتراف حکومت کو ہے۔ اگر سنگباری کے مقدمات کی صورت میں روزگار سے محروم کیا جائے تو پھر نوجوانوں میں بڑھتی ناراضگی پھر ایک بار وادی میں صورتحال بگاڑنے کا سبب بن سکتی ہے۔ دفعہ 370 کی برخواستگی کچھ کم ظلم نہیں تھا کہ اب روزگار سے محروم کرنے کی تیاری ہے۔ پارلیمنٹ اور ملک کی اسمبلیوں میں قتل ، عصمت ریزی اور دیگر سنگین الزامات کا سامنا کرنے والے ارکان موجود ہیں اور ان کی کرسی کو کبھی خطرہ لاحق نہیں ہوا لیکن کشمیرمیں سنگباری پر روزگار سے محروم رکھنا کہاں کا انصاف ہے۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے ؎
مانا کہ ہاتھ میں ہے تیرے ابھی حکومت
لیکن رہے گا تجھ کو یہ اختیار کب تک