متنازعہ وقف قانون کے نقائص پر سپریم کورٹ میں بحث

,

   

بستر مرگ پر باعمل مسلمان ہونا کس طرح ثابت کیا جاسکتا ہے، کپل سبل اور ابھیشیک سنگھوی کا استفسار، آج پھر سماعت

نئی دہلی : 20 مئی (ایجنسیز) سپریم کورٹ میں آج متنازعہ وقف قانون مقدمہ کی سماعت ہوئی۔ اس دوران چیف جسٹس بی آر گوائی اور جسٹس اے جی مسیح کی بنچ نے وقف ترمیمی ایکٹ کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کے ایک گروپ کی سماعت کی۔ اس دوران ہندوستان کے چیف جسٹس بی آر گوائی نے عرضی گزاروں سے کہا کہ عدالتیں اس وقت تک مداخلت نہیں کر سکتیں جب تک کہ کوئی واضح مقدمہ نہ بنایا جائے۔ آج عدالت میں سماعت کے دوران سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ ’مرکز نے ان تینوں معاملات پر اپنا جواب داخل کیا ہے تاہم درخواست گزاروں کی جانب سے تحریری گذارشات میں کئی دیگر مسائل کا ذکر کیا گیا ہے۔ میری درخواست ہے کہ اسے صرف تین مسائل تک محدود رکھا جائے‘۔ عرضی گزاروں کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر وکیل کپل سبل اور ابھیشیک سنگھوی نے اس پر اعتراض کیا۔ اس دوران سی جے آئی نے کہا کہ ہم کیس کی سماعت کریں گے اور دیکھیں گے کہ کیا عبوری ریلیف دیا جاسکتا ہے، مقدمہ کو تین مسائل تک محدود نہیں کیا جاسکتا۔ جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے پیروی کرتے ہوئے سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل نے کہا کہ اس قانون کا مقصد وقف زمینوں پر قبضہ کرنا ہے۔ قانون کو اس طرح بنایا گیا ہے کہ وقف املاک کو بغیر کسی مشکل کے چھین لیا جائے۔ انہوں نے اس شرط کی طرف اشارہ کیا جس میں کم از کم پانچ سال تک اسلام پر عمل کرنے والا ہی وقف کر سکتا ہے اور کہا کہ ’اگر میں بستر مرگ پر ہوں اور میں وقف کرنا چاہتا ہوں تو مجھے ثابت کرنا ہوگا کہ میں ایک باعمل مسلمان رہا ہوں۔ یہ غیر آئینی ہے‘۔ انہوں نے کہا کہ نئے قانون کے تحت کوئی بھی گاؤں کی پنچایت یا کوئی پرائیویٹ فرد شکایت کر سکتا ہے اور جائیداد کا وقف ختم ہو جاتا ہے۔ سرکاری افسر اس کا فیصلہ کرے گا اور اپنے مقصد میں جج ہو گا۔ کوئی سوال نہیں پوچھا جاسکتا۔ انہوں نے کہا کہ یہ میری جائیداد ہے اور یہ ریاست کی نہیں ہوسکتی، جسے چھیننے کی کوشش کی جارہی ہے۔ وقفہ کے بعد جب عدالت میں دوبارہ سماعت ہوئی تو سبل نے دلیل دی کہ جیسے ہی کسی یادگار کو آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے ذریعہ‘‘محفوظ’’قرار دیا جائے گا، تو اس عمارت یا جائیداد سے وقف کا درجہ چھین لیا جائے گا۔ اس میں جامع مسجد، سنبھل بھی شامل ہے۔ لہذا، کوئی بھی تنازعہ کھڑا ہونے پر وقف کی حیثیت ختم ہوجائے گی۔ یہ بہت پریشان کن ہے۔ انہوں نے کہاکہ ایکٹ کے کچھ حصے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے ذریعہ جانچے گئے مسودے کا حصہ نہیں تھے، اس لیے ان پر پارلیمنٹ میں بحث بھی نہیں کی گئی۔