متوسط طبقہ کو ملک کی کوئی پرواہ نہیں

   

پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)

بعض وقت مجھے اس بات پر سخت حیرت ہوئی ہے کہ آیا ہمارے ملک میں حقیقت میں ایسا کوئی متوسط طبقہ بھی ہے جو دستوری درستگی کے اقدار کی پامالی کو لے کر فکرمند ہو اور جسے ملک کے آئین اس کے موثر انداز میں نفاذ کا خیال ہو۔ میں جانتا ہوں کہ ہمارے ملک میں ایسے افراد یا شخصیتیں ہیں جو دستوری اقدار کو تھامے ہوئے ہیں لیکن بحیثیت گروہ یا طبقہ آج وہ اقدار ایسا لگتا ہے کہ غائب ہیں۔ اس کے برعکس تحریک آزادی کو دیکھئے۔ 19 ویں صدی میں ہندوستان میں دولت مند افراد کی تعداد بہت قلیل تھی اور عوام کی اکثریت غربت کا شکار تھی لیکن مغربی نظام تعلیم خاص کر انگریزی کی تعلیم اور انگریزی میں تعلیم کے ساتھ ساتھ مغربی نظام قانون کے نتیجہ میں ایک تعلیم یافتہ متوسط طبقہ منظر عام پر آیا اس طرح ہندوستان میں متوسط طبقہ کی شکل میں ایک گروہ سامنے آیا اور پہلی مرتبہ ذہین و فطین ، اساتذہ، ڈاکٹرس، وکلاء (قانون داں) ججس، سرکاری ملازمین، فوجی عہدیدار، صحافی، ادباء پر مشتمل متوسط طبقہ تشکیل پایا چنانچہ تحریک آزادی میں حصہ لینے اور اہم کردار ادا کرنے والے چند ایک مجاہدین آزادی کو چھوڑ کر اکثر مجاہدین آزادی اور انڈین نیشنل کانگریس کے رہنما متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے تھے اور متوسط طبقہ کے اُن رہنماؤں کی قیادت میں جنگ آزادی لڑی گئی۔ ایسی اہم اور قابل ذکر شخصیتوں میں نوروجی گوکھلے، لالہ لاجپت رائے، تلک، سی آر داس، راجندر پرساد، پٹیل، مولانا ابوالکلام آزاد، راجگوپال چاری، سروجنی نائیڈو، کپلاپن اور پوٹی سری راملو شامل ہیں۔ ڈاکٹر تارا چند نے اپنی انگریزی کتاب “History of the Freedom Movement in India” (ہندوستان میں تحریک آزادی کی تاریخ) میں لکھتے ہیں کہ ہندوستانی عوام میں قومی شعور پیدا کرنے اور قومی ضمیر جگانے، قومی آزادی کی تحریک شروع کرنے اور بالآخر ملک کو بیرونی حکمرانی کے شکنجہ سے آزاد کرانے کا کریڈٹ متوسط طبقہ کو ہی جاتا ہے۔ متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے ان مجاہدین آزادی کی آواز پر عوام نے مثبت ردعمل کا اظہار کیا۔ ملک کو آزادی دلانے کسان، عام شہری صنعتی مزدور سب کے سب نے متحدہ طور پر جدوجہد کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انگریز متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے قائدین کی قیادت میں ہندوستانیوں کی تحریک آزادی کو روک نہیں پائے۔ تحریک آزادی کی جو سب سے نمایاں بات تھی، وہ متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے قائدین اور ان کے حامیوں کی بے غرض جدوجہد تھی۔ ان لوگوں نے اپنے لئے کچھ نہیں مانگا۔ صرف ملک اور عوام کی آزادی مانگی۔ ان کا مقصد حیات اپنی زندگیوں کو خوشحال بنانا، سجانا یا سنوارنا نہیں تھا بلکہ وہ صرف اور صرف ملک کی خوشحالی اور آزادی کے خواہاں تھے۔ یہی وجہ تھی کہ عوام ان کی قیادت میں متحد ہوئے اور غلامی کے شکنجہ کو توڑ پھینکا، اس طرح ملک میں آزادی کا سورج طلوع ہوا۔
جس طرح متوسط طبقہ نے تحریک آزادی میں ناقابل فراموش کردار ادا کیا، اسی طرح آزادی کے بعد بھی ملک کے ہر شعبہ کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کا بھی اسی طبقہ نے خیال رکھا اور اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس دور میں جب ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ کی سہولت نہیں تھی۔ ان سہولتوں کی عدم دستیابی یا موجودگی کے باوجود خبریں بڑی تیزی سے ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچ جایا کرتی تھیں۔ مثال کے طور پر چمپارن ستیہ گرہ، جلیان والا باغ قتل عام، مکمل آزادی سے متعلق قرارداد، ڈانڈی مارچ، بھگت سنگھ، راج گرو اور سکھ دیو کو پھانسی دیئے جانے، ہندوستان چھوڑ دو تحریک اور نیتاجی سبھاس چندر بوس کی آزاد ہند فوج کی کامیابی کی خبریں ملک کے طول و عرض میں عوام تک بڑی تیزی سے پہنچی۔ یہ سب متوسط طبقہ کے باعث ممکن ہوسکا جس نے تحریک آزادی میں توانائی سے بھرپور اپنی قیادت کے ذریعہ ایک نئی جان ڈال دی، لیکن آج ہمارے ملک میں جو حالات ہیں، اس میں بطور خاص یہ دیکھا گیا ہے کہ متوسط طبقہ غیرحاضر یا غائب ہوگیا ہے۔ کہیں بھی اس کی آواز سنائی نہیں دے رہی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ کوئی بھی چیز کوئی بھی واقعہ متوسط طبقہ کو خود کے نافذ کردہ الگ تھلگ پن کے خول سے باہر لانے میں ناکام رہا۔ اس نے اپنے آپ کو ان چیزوں سے الگ تھلگ کرکے رکھ دیا ہے۔ مثال کے طور پر ملک میں اشیائے ضروریہ، پٹرول و ڈیزل غرض ہر چیز کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ عوام پر محاصل کے بوجھ پر بوجھ عائد کئے جارہے ہیں۔ بیروزگاری اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ 2019-20ء میں کورونا کی عالمی وباء کے باعث جو تباہی ہوئی، ہلاکتیں درج کی گئیں۔ مزدوروں کی بڑے پیمانے پر ایک مقام سے دوسرے مقام منتقلی عمل میں آئی یعنی جو نقل مکانی ہوئی۔ بلاشبہ اسے ایک سانحہ ہی کہا جاسکتا ہے۔ کورونا وائرس کی وباء کے نتیجہ میں ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں لوگ اپنی زندگیوں سے محروم ہوئے۔ ساتھ ہی ملک میں پولیس اور تحقیقاتی ایجنسیوں کا جس طرح بیجا استعمال ہوا۔ انسانی حقوق پامال کئے گئے، نفرت و اشتعال انگیز تقاریر و بیانات جاری کئے گئے۔ فرضی خبروں کا جال پھیلایا گیا۔ جھوٹی خبروں کے ذریعہ اقلیتوں میں خوف کا ماحول پیدا کیا گیا۔ مسلمانوں اور عیسائیوں کو ایک منصوبہ بند انداز میں الگ تھلگ کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ دستور کی خلاف ورزی کا ارتکاب کیا گیا۔ قانون کی دھجیاں اُڑائی گئیں۔ غیرقانونی طور پر حقوق انسانی کے جہد کاروں، اقلیتوں کے خلاف قانون استعمال کیا گیا، اداروں پر حکمراں طبقہ نے اپنی اجارہ داری قائم کی۔ ان کا ناجائز استعمال کیا گیا، عوامی رائے کے برعکس اپوزیشن کی زیراقتدار ریاستوں میں حکومتیں گرائی گئیں، چین سے متصل سرحدوں پر تنازعہ کی شدت میں اضافہ ہوا۔ ان تمام کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ متوسط طبقہ کے کوئی فرق نہیں پڑا۔ ان تمام واقعات، حالات سے متوسط طبقہ کی زندگیوں میں کوئی بھونچال نہیں آیا، کوئی خلل نہیں پڑا۔
ملک کے جو حالات ہیں جس طرح دستور پامال کیا جارہا ہے، اس کی چند مثالیں پیش کرتا ہوں۔ مسٹر نانا پٹولے نے فروری 2021ء میں اسپیکر مہاراشٹرا قانون ساز اسمبلی کی حیثیت سے استعفیٰ دیا تھا۔ اسپیکر اسمبلی کے انتخابات کیلئے اسمبلی کے جو قواعد ہیں، اس کے تحت اسپیکر کا انتخاب خفیہ بیالٹ کے ذریعہ ہو، لیکن اوپن ووٹنگ کے ذریعہ اسپیکر کے انتخاب کیلئے اسمبلی نے اسمبلی قواعد میں تبدیلی کی اجازت دی۔ گورنر جو بی جے پی سے تعلق رکھتے ہیں اور اُتراکھنڈ کے چیف منسٹر رہ چکے ان کا واحد کام نئے اسپیکر کے انتخاب کی تاریخ مقرر کرنا تھا، لیکن انہوں نے اس بنیاد پر نئے اسپیکر کا انتخاب رکوا دیا۔ قواعد میں تبدیلی سے متعلق مقدمہ عدالتوں میں زیردوراں ہیں۔ انہوں نے 17 ماہ تک اسپیکر کا انتخاب رکوا دیا جس کے دوران اسمبلی ، اسپیکر کے بغیر کام کرتی رہی۔ اب بی جے پی کی مدد سے مسٹر ایکناتھ شنڈے نے مہا وکاس اکھاڑی حکومت کو گرا دیا اور پھر 30 جون 2022ء کو ریاست مہاراشٹرا کے چیف منسٹر بن گئے۔ انہوں نے گورنر سے نئے اسپیکر کے انتخاب کی تاریخ مقرر کرنے کی درخواست کی اور گورنر نے فوری اس درخواست کو قبول کرلیا اور ایک نئے اسپیکر کا 4 جولائی کو Open Vote (کھلی رائے دہی) کے ذریعہ انتخاب عمل میں آیا۔ ان تمام واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک ہی مسئلہ پر گورنر نے دو موقف اختیار کئے۔ اس پر عوام میں کوئی برہمی اور ناراضگی نہیں دیکھی گئی۔ خاص طور پر مہاراشٹرا کے تعلیم یافتہ طبقات اور متوسط طبقہ نے تو اس پر کوئی توجہ ہی نہیں دی اور گورنر کے انداز کارکردگی اور اقدامات پر سوال تک نہیں اُٹھائے۔ کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ اگر امریکہ یا برطانیہ میں اسپیکر کا عہدہ طویل مدت تک مخلوعہ رکھا جاتا تو کیا ہوتا؟یہاں ایک اور مثال پیش کررہا ہوں۔ جی ایس ٹی کونسل کے 47 ویں اجلاس میں (جی ایس ٹی کونسل میں بی جے پی کی اجارہ داری ہے) Prepacked Food Grains اشیائے مایحتاج، مچھلی، پنیر، شہد، گڑ، گیہوں کا آٹا، غیرمنجد گوشت ؍ مچھلی، پفڈ رائس وغیرہ پر 5% جی ایس ٹی عائد کیا گیا جبکہ پرنٹنگ، رائٹنگ یا ڈرائنگ انک پر عائد 12% جی ایس ٹی کو بڑھاکر 18% جی ایس ٹی کردیا گیا۔ اسی طرح چھری چاقو، چمچ کانٹوں، پیپر نائفس، پینسل شارپنرس اور ایل ای ڈی لیمپس پر بھی جی ایس ٹی کو بڑھاکر 18% کردیا گیا۔ ہوٹلوں کے کمروں پر بھی ٹیکس میں اضافہ کیا گیا۔ یہ ایسے وقت کیا گیا جبکہ WPI افراط زر یا مہنگائی 15.88% اور سی پی آئی مہنگائی 7.04% ہوگئی۔ ان حالات میں RWAS لائنس کلبس مہیلا گروپوں، چیمبرس آف کامرس ٹریڈ یونینوں، صارفین کی تنظیموں غیرہ کو کوئی پرواہ نہیں مجھے یقین ہے کہ چند لوگوں کو ہی معلوم ہوگا کہ مہاتما گاندھی نے نمک کی ستیہ گرہ کیوں شروع کی۔ بہرحال متوسط طبقہ کی خاموشی ملک کیلئے خطرناک ثابت ہورہی ہے۔