غضنفر علی خان
آج کی اس عدم رواداری اور منافرت کی فضاء میں ہر ہندوستانی باشندہ کے دل سے یہی دعا نکلتی ہوگی کہ کاش ہمارے وہ دن واپس آتے جبکہ تمام ہندوستانی عیدیں اور تہوار مل کر مناتے تھے ۔ آج نفسا نفسی کا یہ عالم ہے کہ ہمارے جنت نشان اس ہندوستان کو نظر لگ گئی ہے اور انسانی خون انتہائی ارزاں چیز بن کر بہہ رہا ہے ۔ انسان کے جان کی کوئی قدر و قیمت نہیں رہی ۔ ہر تہوار اور عید کے موقع پر عام ہندوستانیوں کی زندگی کو یہ فکر لاحق ہوجاتی ہے کہ جانے کب کس جلوس پر پتھراؤ ہو یا کسی گزرگاہ پر معمولی سی بات تنازعہ بن جائے اور دیکھتے ہی دیکھتے ایسی دشمنی کا اظہار ہو کہ ہم خود حیران و ششدر ہوجائیں ۔ آج کیا کچھ نہیں ہورہا ہے ، کونسا خطرہ ہمارے ملک کو لاحق نہیں ہے ، یہ بات کسی مخصوص حکومت کے بارے میں نہیں کہی جارہی ہے بلکہ ملک کے تحمل پسند مزاج میں ہونے والی تبدیلی کا ذکر مقصود ہے ۔ ملک میں آج بھی ایسے فکرمند اور کشادہ دل ہندو و مسلمان رہتے ہیں جنہیں ان حالات پر کوفت ہوتی ہے اور وہ ا پنے احساسات کو اجاگر کرنے کیلئے میڈیا کا سہارا لیتے ہیں ، کوئی شخص جسے ملک کی فکر لاحق ہوجاتی ہے کسی معتبر اخبار میں مضمون لکھ کر یا بیان بازی کر کے اپنے مجروح جذبات واحساسات کا اظہار کرتے ہیں ۔ ان میں دانشور ، فنکار ، سماجی قا ئدین ، علماء کرام، غرض سماج کے ہر شعبہ کے لوگ شامل ہوتے ہیں ، مقصد خود کی نمائش ہی نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات ایسے واقعات ہوتے ہیں جن سے سب ہی کا دل دہل جاتا ہے ۔ ایسا ہی ایک واقعہ ماہ جولائی میں بھی ہوا جبکہ ملک کے 49 دانشوروں و فنکاروں نے وزیراعظم ہند نریندر مودی کو ایک خط لکھا جس پر ان تمام کے دستخط موجود تھے۔ اس خط میں ان فنکاروں نے افسوس ظاہر کیا تھا کہ ملک کے مختلف مقامات پر ظلم و تشدد کے ذریعہ ہجومی جنون کے ساتھ زندہ انسانوں کو پیٹ پیٹ کر قتل کردیا جاتا ہے ۔ وزیراعظم ہونے کے ناطے ان دستخط کنندگان نے ان سے (وزیراعظم) اس توقع کا اظہار بھی کیا تھا کہ وہ اپنے اعلیٰ ترین و بااختیار عہدہ کا استعمال کرتے ہوئے ہجومی تشدد کو جڑ سے اکھاڑنے کی کوشش کریں۔ اس کے لئے قانون سازی بھی کی جاسکتی ہے ۔ یہ مکتوب جو وزیراعظم کو لکھا گیا تھا ، صرف لکھنے والوںکے احساسات ، وطن کی فکر کرنے والے اصحاب کی ایک تحریر تھی ۔ بس پھر کیا تھا کہ سارے ملک میں ایک وبال پیدا ہوگیا اور بی جے پی کے لیڈرس جوق در جوق ان افراد کی اس تحریر پر بھڑک اُٹھے ، خود نریندر مودی نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا اور نہ کسی ذمہ دار مرکزی بی جے پی لیڈر نے کچھ کہا ، حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پارٹی کے چھوٹے لیڈرس اور کارکن اتنے مشتعل ہوگئے کہ اس 49 افراد کے خلاف بیان بازیاں شروع کردیں۔ الیکٹرانک میڈیا پر تو ان کو وطن دشمن قرار دیا گیا اور ا یسے لوگوں میں ان کا شمار کیا گیا جو وطن عزیز کو بدنام کر رہے ہیں۔ دونوں باتیں یکسر غلط ہیں ، نہ تو یہ وطن دشمن ہیں اور نہ وزیراعظم مودی اور ان کی حکومت کو بدنام کرنا ان کا مقصد ہے ، اس حقیقت کے باوجود کہ ہجومی تشدد کے واقعات ہورہے ہیں۔ اس حقیقت کو جھٹلانا خود وطن دشمنی کی علامت ہے کیونکہ کوئی شخص جو ملک سے محبت کرتا ہے وہ کسی معقول وجہ کے بغیر کسی بھی انسان کا اس طرح قتل ا پنے ملک اور سارے ہندوستانی سماج کیلئے بدنامی کا سبب سمجھتا ہے۔ اس کے لئے انگریزی اصطلاح (موب لنچنگ) Mob Lynching استعمال کی جارہی ہے ، یہ صحیح ہے کہ اس قسم کے واقعات عام طور پر نہیں ہوتے اور ان کا کوئی تسلسل بھی نہیں ہے لیکن ایسے واقعات ہورہے ہیں اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ابھی تک کسی بھی ہجومی تشدد کی موت کو حکومت نے سنجیدگی سے نہیں لیا ۔ برائے اشک شوٹی (جھوٹ موٹ آنسو پونچھنے کیلئے) کچھ تحقیقات کی گئی اور ایف آئی آر چاک کیا گیا ۔ اس سلسلہ کا پہلا قتل دادری میں محمد اخلاق کا ہوا تھا لیکن اس پر جس طرح کی سختی برتی جانی چاہئے تھی ، نہیں برتی گئی ، پھر ایسے دردناک واقعات ہوتے رہے ہیں۔ اعداد و شمار کے لحاظ سے ہجومی تشدد کی اموات کی تعداد 20 سے زیادہ ہے لیکن ان میں سے کسی بھی واقعہ میں مکمل تحقیقات نہیں کی گئی اور نہ اس قتل کے جرم میں کسی کو کوئی سزا ملی ۔ واقعات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے حوصلے جو اس طرح سے بے گناہ اور معصوم مسلمانوں کا قتل کرتے ہیں ، انہیں یہ کام کرنے کا گویا لائسنس مل گیا ہے ۔ فلم انڈسٹری سے تعلق رکھنے والوں نے بھی اس صورتحال پر اپنے تردد و فکر کا معقول انداز میں اظہار کیا ہے ۔ فلمی دنیا کے شہرہ آفاق اداکار جیسے شاہ رخ خان ، عامر خان ، نصیرالدین شاہ اور دیگر نے بھی اس قسم کی فکرمندی کا اظہار کیا ہے ۔ بعض نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ انہیں اپنی فکر نہیں ہے بلکہ اپنی آنے والی نسلوں کے بارے میں فکر لاحق ہوگئی ہے تو کیا محض اس اظہار خیال کی بنیاد پر انہیں وطن دشمن کہا جاسکتا ہے ۔ مودی جی آپ نے اور آپ کے اصحاب نے معیار بنایا ہے۔ نہ تو کانگریس کو ووٹ دینے والے وطن کے دشمن ہیں اور نہ وہ جو بی جے پی کو ووٹ دیتے ہیں وہی صرف وطن دوست ہیں ، اس تنگ نظری نے سارے ملک کے مزاج کو بدل کر رکھ دیا ہے اور بی جے پی کے ہم خیال لیڈرس کو یہ کہنے کا موقع مل گیا کہ جو موجودہ مودی حکومت کو اپنی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، وہ سب کے سب خدا نہ کرے اس ملک کے دشمن ہیں۔ عجیب اتفاق یہ بھی ہے کہ ہجومی تشدد کے تمام واقعات بی جے پی کے اقتدار پر آنے کے بعد ہوئے جب تک غیر بی جے پی حکومتیں تھیں ، ایسے المناک واقعات کہیں نہیں ہوئے تو پھر بی جے پی سے اختلاف کرنے کی گنجائش معقول بنیادوں پر پیدا ہوتی ہے ۔ ا پنے دامن میں جھانک کر اگر بی جے پی مسئلہ کو سمجھنے کی کوشش کرے اور ملک میں قانون کی حکمرانی مضبوطی کے ساتھ قائم ہوجائے تو اس ہجومی قتل کی وارداتوں کو یقیناً قانون کے ذریعہ ختم کیا جاسکتا ہے ۔ ابھی تک اس نوعیت کے کسی واقعہ میں مجرموں کو سزا کا نہ ملنا قاتلوں کے حوصلوں کو بلند کرتا رہا ہے ، اگر بی جے پی یا مودی سرکار یہ سمجھتی ہے کہ وہ اپنی اس دیدۂ دانستہ غلطی کی وجہ سے کوئی نقصان نہیں اٹھائے گی تو یہ انتہائی خطرناک سوچ ہوگی ۔ اندیشہ یہی ہے کہ یہ سلسلہ ایک رجحان بن جائے گا ۔ ابھی یہ کوئی Trend یا رجحان نہیں بنا ہے لیکن جس رفتار سے یہ جرم ہورہا ہے ، اس سے ہر ہندوستانی شہری کو یہ اندیشہ لاحق ہوگیا ہے کہ یہ عام رواج ہوجائے گا یا ایک عام رجحان ہوجائے گا۔ ملک میں اس قسم کے قتل پر سارے ہندوستانی باشندوں کو تشویش ہے کہ یہ صرف حساس فنکاروں کی پریشانی کا مسئلہ نہیں ہے ۔ ہجومی تشدد کو اگر اسی طرح سے کھلی چھوٹ مل جائے تو اس کے پھیلنے کا قوی امکان ہوجائے گا ۔ اگر چند مٹھی بھر شہری اس صورتحال پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہیں تو وزیراعظم مودی کو ان کی تشویش دور کردینی چاہئے اور اپنے لئے وہ اعتماد پیدا کرنا چاہئے جس کے بغیر وزیراعظم کا یہ نعرہ کہ ’’سب کا ساتھ ، سب کا وکاس ‘‘ اور موجودہ ا ضافہ سب کا وشواس صرف نعرہ ہی رہے گا ۔ ملک کے تمام عوام کا اعتماد حاصل کرنا ایک کامیاب حکومت کا فرض ہوتا ہے اور اس فرض کو پورا کرنے میں کوتاہی نہایت مضرت رساں ثابت ہوسکتی ہے ۔