محمد سمیع دسویں جماعت کامیاب نہیں کرپائے؟

   

نئی دہلی ۔27 اپریل (سیاست ڈاٹ کام )محمد سمیع گزشتہ کچھ عرصے سے بھلے ہی اپنی شخصی زندگی کے سبب تنازعہ میں گھرے رہے لیکن کرکٹ میں انہوں نے خود کوایک قابل اعتماد فاسٹ بولر ثابت کیا ہے اورورلڈ کپ ٹیم میں جگہ بنائی ہے۔ محمد سمیع مرادآباد کے ایک چھوٹے سے گاوں سہسپورمیں رہتے تھے۔ یہیں رہ کرانہوں نے کرکٹ کھیلنا شروع کیا۔ محمد سمیع کا گاوں سہسپورمرادآباد سے 22 کلومیٹرکی دوری پرہے۔ یہیں سے وہ ٹرین سے مرادآباد آتے اورپھرکرکٹ کی کوچنگ لے کرواپس جایا کرتے تھے۔ حالانکہ اس دوران پڑھائی سے ان کا ساتھ چھوٹ گیا۔ ان کی تعلیم کے متعلق کچھ واضح نہیں ہے لیکن گاوںوالوں کا کہنا ہے کہ وہ 10 ویں کامیاب نہیں ہیں۔ محمد سمیع کے کوچ بدرالدین صدیقی کے بموجب انہوں نے پہلی مرتبہ15 سال کے محمد سمیع کوکھیلتے دیکھا توانہیں ٹریننگ دینے کا فیصلہ کیا۔ سمیع ایک بھی دن ٹریننگ نہیں چھوڑتے تھے۔ باصلاحیت ہونے کے باوجود انہیں جب اترپردیش کی ٹیم میں جگہ نہیں ملی تووہ اپنی قسمت آزمانے کیلئے بنگال چلے گئے۔ یہاں وہ موہن بگان کلب سے کھیلنے لگے۔ اسی دوران انہیں نیٹس میں سوروگنگولی کوبولنگ کرنے کا موقع ملا۔ گنگولی نے ان کی صلاحیت کودیکھ کرسلیکٹروں سے ان پرخاص توجہ دینے کوکہا۔ اس کے بعد سال 2010 میں وہ بنگال کی رانجی ٹیم میں شامل ہوگئے۔ اس کے تین سال بعد سال 2013 میں انہوں نے دہلی کے فیروزشاہ کوٹلہ میدان پرآسٹریلیا کے خلاف کرئیر کا آغازکیا۔ محمد سمیع آج ہندوستانی ٹیم کیساتھ آئی پی ایل میں پنجاب کیلئے کھیلتے ہیں۔ ٹیم نے انہیںچارکروڑ80 لاکھ روپئے میں خریدا۔ بی سی سی آئی کے سینٹرل کنٹریکٹ میں وہ اے زمرے میں شامل ہیں اورسالانہ پانچ کروڑروپئے حاصل کرتے ہیں۔ پڑھائی میں بھلے ہی محمد سمیع کمال نہ کرپائے، لیکن جب میدان پراترتے ہیں توبڑے بڑے بیٹسمینوں کی بولتی بند کردیتے ہیں۔ ان کی پڑھائی نہیں گیند بولتی ہے۔ آج محمد سمیع کے پاس وہ سب کچھ ہے، جو شاید پڑھ لکھ کربھی وہ حاصل نہیں کرپاتے، جس گاوں سے وہ ٹریننگ کیلئے مرادآباد جایا کرتے تھے، وہ گاوں آج ان کے نام سے جانا اتا ہے۔