مدرسہ عالیہ حیدرآباد وہ درسگاہ جس نے دکن کی فکری دنیا روشن کی

   

ایک صدی پر محیط علم و تہذیب کا سفر ، علمی تہذیب کی داستان عروج و زوال
حیدرآباد ۔ 24 ۔ نومبر : ( سیاست نیوز) : حیدرآباد کے تاریخی ورثے میں اگر کسی ادارے نے علم وقار اور تہذیب کی بنیاد رکھی تو وہ مدرسہ عالیہ ہے ۔ یہ وہی درس گاہ ہے جس نے دکن کے علمی سفر کو سمت دی اور ایسی نسل تیار کی جس نے علم و کردار دونوں میں بلندیوں کو چھوا ہے ۔ انیسوی صدی کے اواخر میں نظام حیدرآباد کی سرپرستی میں قائم یہ ادارہ دینی و عصری علوم کے امتزاج کی ایک منفرد مثال تھی ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب دکن میں علم و شعور کے چراغ روشن ہورہے تھے اور حیدرآباد ’ تعلیم و تہذیب کے گہوارے ‘ کے طور پر ابھر رہا تھا ۔ مدرسہ عالیہ کا قیام اس عہد میں ہوا جب تعلیم محض حصول نوکری نہیں بلکہ اخلاقی تربیت اور فکری بلندی کا ذریعہ سمجھی جاتی تھی ۔ یہی وجہ تھی کہ بیسوی صدی کے آغاز تک خصوصا 1916 میں یہ ادارہ ریاست حیدرآباد کے سب سے معیاری تعلیم مراکز میں شمار ہوتا تھا ۔ اس درس گاہ میں عربی ، فارسی ، منطق ، فلسفہ ، ریاضی ، تاریخ اور جدید علوم کا امتیاز پایا جاتا تھا ۔ اساتذہ کی علمی دوستی اور طلبہ کے شوق تعلیم نے اسے ’ جامع علم و تہذیب ‘ بنادیا ۔ مدرسہ عالیہ کے فارغ التحصیل طلبہ نے دکن کی علمی ، قانونی اور انتظامی دنیا میں گہرے نقوش چھوڑے ۔ یہی وہ طلبہ تھے جنہوں نے بعد میں عثمانیہ یونیورسٹی کے قیام کے لیے فکری بنیاد فراہم کی ۔ کئی شاعر ، ادیب ، مفکر ، صحافی اور اساتذہ اسی درس گاہ سے نکلے ۔ جنہوں نے حیدرآباد کی علمی فضا کو زندگی بخشی ۔ ان کے کارنامے آج بھی اس ادارے کی عظمت کا پتہ دیتے ہیں ۔ یہ ادارہ صرف تعلیم نہیں دیتا تھا نسلیں بھی تراشتا تھا ۔ وقت کے دھارے نے جب رخ بدلا تو مدرسہ عالیہ بھی اس کی زد میں آگیا ۔ سرکاری عدم توجہی ، نصاب میں جدت کی کمی اور نئی تعلیمی پالیسیوں کی غفلت نے اس تاریخی ادارے کو ماضی کا قصہ بنادیا ۔ جہاں کبھی علم و فکر کی محفلیں سجی کرتی تھیں ۔ آج وہاں سناٹا چھایا ہوا ہے ۔ عمارت موجود ہے ۔ مگر اس جذبے کی چمک ماند پڑ چکی ہے ۔ جو کبھی طلبہ کے دلوں میں دہک رہی تھی ۔ یہ زوال صرف ایک عمارت کا نہیں بلکہ ایک فطری نظریے کا زوال ہے ۔ مدرسہ عالیہ کی کہانی ہمیں یہ پیغام دیتی ہے کہ جب تعلیم کا مقصد صرف ڈگری حاصل کرنا رہ جائے اور کردار و تہذیب پس پشت چلے جائیں تو ادارے خالی عمات بن جاتے ہیں ۔ آج کے نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ اپنے علمی ورثے سے رشتہ جوڑیں ۔ مدرسہ عالیہ جیسے ادارے صرف ماضی کا فخر نہیں بلکہ ہماری تہذیبی شناخت کا حصہ ہے ۔ ماضی کی بنیاد پر مستقبل تعمیر ہوتا ہے ۔ شرط یہ ہے کہ ہم اپنی تاریخ کو یاد رکھیں ۔ مدرسہ عالیہ محض ایک تعلیمی ادارہ نہیں بلکہ دکن کے اس روشن دور کی علامت ہے جب علم ، وقار اور تہذیب ایک ساتھ سانس لیتے تھے ۔۔ 2