رام چندر گوہا
ہندوستانی سوشلسٹ روایت اب دم توڑچکی ہے۔ با الفاظ دیگر ایک طرح سے وہ اپنے اختتام کو پہنچ چکی ہے لیکن ایک ایسا بھی دور اور وقت تھا جب سوشلسٹ روایت کا ہمارے ملک کی سیاست اور ہمارے سماج پر گہرا اثر ہوا کرتا تھا۔ اب حال یہ ہے کہ اب اس کے ماضی کے جوش اور سرگرمیوں کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ کانگریس کمیونسٹوں علاقائی جماعتوں اور امبیڈکر کو ماننے اور ان کے اصولوں کو بڑی سختی سے اپنائے ہوئے لوگوں )خاص طور پر حالیہ برسوں میں) جن سنگھ اور بی جے پی میں ایسے بے شمار مورخین اور اپنے خطابات کے ذریعہ عوام میں جوش و ولولہ پیدا کرنے والے بہت سارے قائدین ہوئے ہیں جنہوں نے اپنے متعلقہ نظریاتی حسب نسب اور تحریر کردہ سوانح عمریوں کا پتہ چلایا ہے اور کبھی کبھی اپنے بڑے رہنمائوں کی سوانح عمری کو منظر عام پر لایا ہے لیکن ہندوستانی سوشلسٹوں نے ایسا زیادہ کچھ نہیں کیا۔ ویسے بھی اکثر ہندوستانی مورخین نے ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا۔ سوشلسٹوں کو یاد رکھنے یا یاد کرنے کے لیے یہ ایک اچھا وقت ہے۔ اس لیے نہیں کہ ان میں ایک کی صد سالہ پیدائشی تقاریب جاریہ ماہ کے اواخر میں آرہی ہے، اس شخصیت کا شمار سوشلسٹوں کے بہترین نمائندوں میں ہوتا ہے اور وہ ہیں مدھو ڈنڈوتے، ان کی پیدائش 21 جنوری 1923 ء کو ہوئی، ایک طالب علم کی حیثیت سے ممبئی میں مدھو ڈنڈوتے کانگریس سوشلسٹ پارٹی (CSP) کے نظریات و اصولوں سے کافی متاثر ہوئے۔ خاص طور پر سی ایس پی کے کرشماتی لیڈروں جیسے جئے پرکاش نارائن، رام منوہر لوہیا اور یوسف مہرعلی سے بہت زیادہ متاثر ہوئے۔ سی ایس پی کا خیال تھا کہ مرکزی دھارے کی کانگریس بھی معاشی انصاف اور خواتین کے حقوق سے متعلق سوال پر قدامت پسند تھی۔ ساتھ ہی اس (CSP) نے خود کو کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا سے بھی دور رکھا جو سویٹ یونین کے نظریات سے چمٹی ہوئی تھی۔ سوشلسٹ/ کمیونسٹ کے درمیان اختلافات اس وقت پوری طرح منظر عام پر آئے جب 1942ء میں ہندوستان چھوڑو تحریک شروع ہوئی اس دوران سوشلسٹ / کمیونسٹ کافی تقسیم نظر آئے۔ سوشلسٹوں نے ہندوستان چھوڑو تحریک کی تائید و حمایت کی جبکہ کمیونسٹوں نے اس تحریک کی مخالفت کی۔ نظریاتی طور پر بات کی جائے تو سوشلسٹ تین چیزوں میں کمیونسٹوں سے بالکل مختلف تھے۔ سب سے پہلے یہ کہ کمیونسٹ اسٹالن اور روس سے اس قدر متاثر تھے کہ ان کے بارے میں یہ کہا جانے لگا تھا کہ یہ تو روس اور اسٹالن کی پوجا کرتے ہیں جبکہ سوشلسٹ بجاطور پر اسٹالن کو ایک آمر اور روس کو آمریت کے طور پر دیکھتے تھے۔ دوسری چیز یہ تھی کہ کمیونسٹوں نے تشدد کے کردار کو اہمیت دی اور اسے بلند کیا۔ ان کے برعکس سوشلسٹوں نے سیاسی تنازعات کے حل میں عدم تشدد کو ترجیح دی۔ تیسری اہم چیز یہ تھی کہ کمیونسٹ معاشی اور سیاسی طاقت کی آمریت پر یقین رکھتے تھے جبکہ سوشلسٹ اقتصادی اور سیاسی دونوں شعبوں میں غیر مرکوزیت کی وکالت کیا کرتے تھے۔ دونوں کے درمیان ایک اور اہم فرق یہ تھا کہ سوشلسٹ خود کو کمیونسٹوں سے الگ کرتے ہوئے مہاتما گاندھی سے متاثر تھے۔ جیسا کہ مدھو ڈنڈوتے نے اپنی کتاب Marx and Gandhi (مارکس اور گاندھی) میں تحریر کیا ہے کہ گاندھی جی نے پرتشدد طریقوں کی جو مخالفت کی اور عدم تشدد کی وکالت کی وہ انسانی زندگی کے احترام اور اس کے وقار پر مبنی تھی۔ سسٹم یا نظام کی خامیوں اور حماقتوں کے لیے ان افرادکو جو سسٹم کے اعضاء کے طور پر کام کرتے ہیں ان کو سزاء نہیں دی جانی چاہئے یا انہیں تباہ نہیں کیا جانا چاہئے۔ اس بات پر گاندھی کا اصرار تھا۔ گاندھی نے تجربہ سے یہ سیکھا تھا کہ پرتشدد انقلابات میں عوام کے وسیع تر طبقات کی حقیقی شمولیت نہیں ہوتی بلکہ ایک چھوٹی سی تعداد یا ایک اقلیت انقلاب میں حصہ لیتی ہے اور ان دیکھی اقلیت (مٹھی بھر لوگ) جو اقتدار پر فائز ہوتی ہے وہ عوام کے نام پر آمریت یا ڈکٹیٹرشپ قائم کرتی ہے۔ اس کتاب میں ڈنڈوتے نے گاندھی جی پر مزید تبصرہ کیا اور کہا کہ گاندھی کا معاشی اور سیاسی نقطہ نظر ایک حقیقی عدم تشدد پر مبنی جمہوری معاشرہ کی شروعات سے متعلق ان کی خواہش پر پروان چڑھا جس میں ظلم و جبر کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ اس معاملہ میں کمیونسٹوں کا کچھ اور نظریہ و خیال تھا۔ بہرحال آزادی کے بعد کانگریس سوشلسٹوں نے بنیادی کانگریس کو خیرباد کہتے ہوئے اپنی ایک نئی پارٹی شروع کی اس کے بعد کے دہوں میں ان کے درمیان اختلافات آئے اور اتحاد بھی ہوا۔ یہاں ایک بات ضرور کہی جاسکتی ہے کہ اقتدار میں ہو یا اقتدار سے باہر، منقسم ہو یا متحد، مرکز میں ہوں یا ریاستوں میں سوشلسٹوں نے ہر مقام پر اور ہر وقت اہم کردار ادا کیا۔ خاص طور پر 1960اور 1970کی دہائیوں میں سیاسی مباحث کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ رام منوہر لوہیا اور جئے پرکاش نارائن جیسے سوشلسٹ لیڈر سارے ملک میں جانے جاتے تھے اور ملک بھر میں ان کی تعریف و ستائش کی جاتی تھی۔ سوشلسٹوں کی پارٹی کی نمایاں خصوصیات میں صنفی مساوات کے تئیں ان کا مضبوط موقف تھا۔ درحقیقت کانگریس، جن سنگھ اور یہاں تک کہ کمیونسٹوں کے مقابل میں سوشلسٹوں میں بے شمار ممتاز خاتون رہنما تیار ہوئیں ان میں کملا دیوی چٹوپادھیائے، مرنال کور اور خود مدھو ڈنڈوتے کی اہلیہ پرمیلا شامل ہیں۔ اس کے علاوہ آپ کو بتادوں کہ سوشلسٹ ثقافتی میدان خاص طور پر تھیٹر اور موسیقی میں، شہری حقوق اور ماحولیاتی تحریکوں میں بہت سرگرم تھے۔ اپنے ہیرو جئے پرکاش نارائن کی طرح مدھو ڈنڈوتے اخلاقی اور جسمانی لحاظ سے غیر معمولی نرم و حوصلہ و ہمت کے مالک تھے۔ لوہیا کی طرح وہ بھی ایک اسکالر تھے۔ این جی گورے، ایس ایم جوشی اور سانے گروحی کی طرح مہاراشٹرا کے تئیں اپنی محبت کو ہندوستان کے تئیں اپنی محبت سے ملایا۔ جہاں تک مدھو ڈنڈوتے کا سوال ہے سوشلسٹ رہنمائوں میں ڈنڈوتے نمایاں ہیں۔ ان قائدین میں ڈنڈوتے کے نمایاں ہونے کی ایک وجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ انہوں نے لاکھوں ہندوستانیوں کی زندگیوں کو بہتر سے بہتر بنانے میں غیر معمولی مدد کرکے ایک پائیدار عملی میراث چھوڑی ہے۔ انہوں نے پہلی جنتا حکومت میں مرکزی وزیر ریلوے کی حیثیت سے بھی نمایاں خدمات انجام دیں اور عام ہندوستانیوں کا فائدہ کیا۔ دو سال کی مختصر میعاد میں مدھو ڈنڈوتے نے نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور خود ان پر گہرا اثر پڑا۔ انہوں نے ریاست اور ریلوے یونینوں کے درمیان اتحاد کو بحال کیا جو 1974ء کی ہڑتال اور اندرا گاندھی کی حکومت کے دبائو میں ختم ہوگیا تھا۔ ان کے دور میں ہی کمپیوٹرائز مشین کا عمل شروع ہوا اور شائد سب سے نمایاں طور پر دوسرے درجہ کے سیکشن کی پاسنجر ٹرینس کو مسافرین کے لیے آرام دہ بنانے کے لیے بھی اختراعی اقدامات کئے۔ ان کے ان اختراعی اقدامات کے نتیجہ میں اربوں ریلوے مسافرین کو دوران سفر کافی راحت نصیب ہوئی۔ اس قسم کی محفوظ اور آرام دہ سیٹس کے ساتھ پہلی ٹرین کو 26 ڈسمبر 1977ء میں سبز جھنڈی دکھائی گئی۔ یہ ٹرین ممبئی اور کلکتہ کے درمیان چلائی گئی۔ ریلوے بورڈ اسے ایسٹرن ایکسپریس کا نام دینا چاہتا تھا لیکن وہ وزیر ریلوے ہی تھے جنہوں نے اس ٹرین کو گپتانجلی ایکسپریس کا نام دیا جس میں رابندر ناتھ ٹیگور کے پورٹریٹس لٹکے ہوئے تھے۔ مدھو ڈنڈوتے کو بلا شک و شبہ اور بنا کسی جھجھک کے ملک کے بہترین وزیر ریلوے کہا جاسکتا ہے کیوں کہ انہوں نے بحیثیت وزیر ریلوے ہندوستان اور ہندوستانیوں کے لیے جو بہتر اور ضروری تھا وہ کیا۔ اس معاملہ میں ان کا چند ایک کابینی وزراء سے موازنہ یا تقابل کیا جاسکتا ہے جن میں سردار ولبھ بھائی پٹیل، سی سبرامنیم اور ڈاکٹر منموہن سنگھ شامل ہیں۔ ولبھ بھائی پٹیل نے 1947 اور 1950 کے درمیان وزیر داخلہ کی حیثیت سے خدمات انجام دی۔ سی سبرامنیم 1964 اور 1967 ء کے درمیان وزیر زراعت رہے اور ڈاکٹر منموہن سنگھ 1991 اور 1996 ء کے درمیان وزیر فینانس رہے۔ بعد کی جنتا پارٹی حکومت میں مدھو ڈنڈوتے نے وزیر فینانس کی حیثیت سے خدمات انجام دی۔ انہوں نے 1990ء میں اپنی بجٹ تقریر میں ماحولیاتی چیلنج پر خصوصی توجہ مرکوز کی اور کہا کہ ماحولیات کو خطرہ لاحق ہے۔ اسے کسی بھی طرح نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے جنگلات کے کٹائو کی شدت سے مخالفت کی تھی اور ایک اندازہ کے مطابق بتایا تھا کہ 139 ملین ہیکٹر اراضی متاثر ہوئی ہے۔ شہری علاقوں میں فضائی اور آبی آلودگی بڑھتی جارہی ہے جس کے لیے حمل و نقل کے ذرائع بھی ذمہ دار ہیں لیکن افسوس کہ بعد کی حکومتوں نے ان کے انتباہ اور وارننگس کو نظرانداز کردیا۔ مدھو ڈنڈوتے ہندوستان میں سکیولرازم کے دلدادہ تھے جولائی 2005ء کو جبکہ ان کی عمر 80 سال کی ہوئی انہوں نے پرزور انداز میں کہا تھا کہ 1984ء کے مخالف سکھ فسادات، شہادت بابری مسجد اور گجرات میں 2002ء کو ہوئے فرقہ وارانہ ہولوکاسٹ لوٹ مار قتل و غارت گری سارے واقعات ملک کے سکیولرازم کے لیے ایک بہت بڑا جھٹکہ ہے لیکن انہوںنے امید جتائی تھی کہ لاکھ کوششوں کے باوجود ہندوستان کے سکیولرازم اس کے اتحاد اس کی سالمیت کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔