مذہبی رواداری ہندوستان کی بنیادی شناخت ہے:مولانا سید ارشد مدنی م

   

ممبئی: (پریس ریلیز) ہماراملک ہندوستان صدیوں سے امن واتحاد اور محبت کا گہوارہ رہا ہے، یہ ایک کثیر ثقافتی اور کثیر لسانی ملک ہے جس میں تمام مذاہب کے لوگ صدیوں سے ایک ساتھ رہتے آئے ہیں، مذہبی رواداری ہندوستان کی بنیادی شناخت ہے، ہمارے ملک کا آئین ہرشہری کو برابرکے حقوق دیتاہے اور مذہب زبان، علاقہ کی بنیادپر کسی شہری کے ساتھ بھیدبھاؤ کرنا ہندوستان کے آئین کے روح کے سراسرخلاف ہے،مگر افسوس ادھر چندبرسوں سے جس طرح ملک کی موجودہ حکومت صرف سیاسی مفادات کی تکمیل کے لئے مذہبی بنیادپر نفرت کا بازارگرم کئے ہوئے ہے اور جس طرح اقلیت واکثریت کے درمیان اختلافات کی دیوارکھڑی کرکے ووٹ بینک کی سیاست کررہی ہے،اس سے ملک کے حالات انتہائی دھماکہ خیز ہوچکے ہیں، ان خیالات کا اظہار جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا سیدارشدمدنی نے ممبئی میں شروع ہورہے جمعیۃعلماء ہندکے چارروزہ مجلس عاملہ اور مجلس منتظمہ کے اجلاس سے قبل ممبئی کے مراٹھی پتر کار سنگھ میں ایک پرہجوم پریس کانفرنس میں صحافیوں کے ساتھ گفتگو کے دوران کیا، انہوں نے کہا کہ حکومت سی اے اے، این پی آراور این آرسی کی آڑمیں فرقہ ورانہ ایجنڈے کے تحت ملک کو ہندوراشٹر بنانے کے اپنے ناپاک عزائم کی طرف عملی طورپر قدم بڑھارہی ہے جس میں مذہبی اقلیتیں اپنے مذہبی تشخص سے محروم ہوکر اکثریت میں ضم ہوکر رہ جائیں گی، جو یقینا ملک کی سالمیت ویکجہتی کے لئے خطرناک بات ہوگی،صحافیوں کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے مولانا مدنی نے کہا کہ سی اے اے کوئی مسئلہ نہیں ہے آپ جن لوگوں کو شہریت دینا چاہتے ہیں دیں ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں لیکن جس طرح مذہب کی بنیادپر ایک مخصوص طبقہ کو اس قانون کے دائرہ سے الگ کردیا گیا ہے ہمیں اس پر اعتراض ہے کیونکہ یہ ملک کے سیکولردستورکے سراسرخلاف ہے، آپ مذہب کی بنیادپر کسی شہری کے ساتھ امتیاز نہیں برت سکتے اس کی کھلی وضاحت آئین میں موجود ہے ایک اورسوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم این پی آرکی موجودہ شکل کے خلاف ہیں اس کے خلاف جمعیۃعلماء ہند نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے انہوں نے وضاحت کی کہ این پی آرکی موجودہ شکل اس لئے انتہائی خطرناک ہے کہ اس میں جو نئی نکات جوڑی گئی ہیں وہ غیر ضروری ہیں مولانا مدنی نے کہا کہ جب این پی آر شروع ہوگا تو سرکل افسرکو یہ اختیاربھی حاصل ہوگا کہ وہ جس شخص کو بھی چاہے ڈی ووٹر قراردیدے ہم نے آسام میں اس کا خطرناک تجربہ دیکھاہے اس صورت میں مشکوک قراردیئے گئے شخص کو ووٹ دینے کا اختیارنہیں ہوگا انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر ایسا ہوا تو اس کی زدمیں مسلمان ہی نہیں ہندوبھی بڑی تعدادمیں آجائیں گے ان سے جب پوچھاگیا کہ حکومت نے ابھی این پی آرکا کوئی فارمیٹ جاری نہیں کیا ہے تو آپ اس طرح کے خدشات کا اظہارکیوں کررہے ہیں اس پر مولانا مدنی نے کہا کہ یہ بات سامنے آگئی ہے کہ 1951سے لیکر 2010خطوط پر این پی آریا مردم شماری ہوتی رہی ہے اس باران خطوط پرنہیں ہوگی بلکہ اس میں بعض ایسی معلومات بھی طلب کی جائیں گی جن کی تفصیل فراہم کرنا ہر شہری کیلئے ایک مشکل امر ہوگا انہوں نے یہ بھی کہاکہ ہم اندیشے کا شکار اس لئے بھی ہیں کہ پچھلے چھ برس سے موجودہ حکومت فرقہ ورانہ ایجنڈے پر عمل پیراہے، سی اے اے جیسے قانون کو لانا اس کا بین ثبوت ہے اور اب این پی آرکو لیکر جو کچھ سامنے آرہا ہے وہ حکومت کے ایجنڈے کو ظاہر کردیتاہے انہوں نے یہ بھی کہا کہ این پی آرہی این آرسی کی اولین شکل ہے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ شہریت ترمیمی قانون، قومی رجسٹربرائے شہریت (این آرسی)اور این پی آر کے علاوہ ملک کی موجودہ صورت حال مسلمانوں کو درپیش مسائل سمیت کئی دیگر اہم مسائل پر ملک کی قدیم ترین ملی جماعت جمعیۃعلماء ہند کا ممبئی میں جو چارروزہ اجلاس ہورہا ہے، اس کا اختتام 23/فروری کو آزادمیدان میں کل ہند تحفظ جمہوریت کانفرنس پر ہوگا، انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اترپردیش حکومت کی جانب سے دیوبند میں اجلاس عام منعقد کرنے کی اجازت نہ ملنے کے بعد اب جمعیۃعلماء ہند اسی اجلاس کو ممبئی میں منعقدکررہی ہے، واضح رہے کہ گزشتہ سال 19-18-17/اکتوبر کو اجلاس مجلس منتظمہ دیوبند میں منعقد ہونا تھا مگر اجازت ملنے کے بعدبھی انتظامیہ کے ذریعہ اچانک اجلاس کو روک دیا گیا اور یہ کہاگیا تھا کہ ضمنی انتخاب ہورہا ہے اس لئے اجلاس نہیں ہوسکتا، یہ پہلاموقع تھا کہ جب جمعیۃعلماء ہند کے اجلاس کو روکا گیا اس کے بعد دہلی میں انہی تاریخوں میں اجلاس کرنے کی کوشش کی گئی مگر یہاں بھی کامیابی نہیں مل سکی، لیکن ہمیں پروگرام کرنا تھا کیونکہ ہم ملک کے موجودہ حالات سے غفلت نہیں برت سکتے تھے،ہمیں اپنے لوگوں کو ایک لائحہ عمل اور پیغام دینا تھا اسی لئے یہ اہم اجلاس یہاں ہورہا ہے۔مولانا مدنی نے ایک بارپھرکہا کہ ہم نہ تو کسی خاص پارٹی کے حامی ہیں اور نہ ہی مخالف، ہم ملک کے اتحاد اور سالمیت کے حامی ہیں، کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ہم بی جے پی کی مخالفت کرتے ہیں مگر یہ سچ نہیں ہے ہم تو صرف اس ذہنیت یا نظریہ کی مخالف ہیں جو ملک کے اتحاداور یکجہتی کی بنیادکو اکھاڑدینے کی سازشوں میں مصروف ہیں ملک میں ایک اور تقسیم کے حالات پیداکرنے کی کوشش کی جارہی ہے، مولانا مدنی نے کہا کہ یہ حکومت اچھے دن لانے کا وعدہ کرکے اقتدارمیں آئی تھی لیکن اب اس نے اپنی تمام ترتوجہ فرقہ وارانہ ایجنڈے پر مرکوزکردی ہے، جو ایک سیکولرملک کے لئے کسی المیہ سے کم نہیں۔، سی اے اے جیسے سیاہ قانون کے خلاف پرامن احتجاج کو جگہ جگہ ڈنڈے کے زورسے کچلنے کی کوشش ہورہی ہے، مولانا مدنی نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ گزشتہ 15/دسمبر کو اترپردیش میں آئین کے ذریعہ دیئے گئے احتجاج کے حق کا استعمال کرتے ہوئے مظاہرین جب پرامن طورپر سڑکوں پر اترے تو پولس نے نہ صرف اپنی وحشیانہ کارروائی کا نشانہ بنایا بلکہ مظاہرین کے سینوں پر سیدھے سیدھے گولیاں ماری گئیں، بعد میں دلیل دی گئی کہ خودمظاہرین نے پولس پر حملہ کیا جس کے جواب میں لاٹھی چارج ہوا، انہوں نے کہا کہ یہ کتنی حیر ت انگیز بات ہے کہ مظاہروں کے دوران ہوئے مالی نقصان کی بھرپائی مظاہرین پر بھاری جرمانہ عائد کرکے کی جارہی ہے مگر پولس کے ہاتھوں جو جانی نقصان ہوا اس کی بھرپائی کے بارے میں نہ تو یوپی حکومت نے سوچااور نہ ہی مرکزی حکومت نے۔ انہوں نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ یہ ڈراور خوف کی سیاست ہورہی ہے اور غیر جمہوری وغیر آئینی فیصلوں کو عوام پر جبراتھوپنے کی سازش ہورہی ہے، چنانچہ جو لوگ جمہوری طریقہ سے ان فیصلوں کی مخالفت کررہے ہیں انہیں غداراور ملک دشمن قراردیا جارہا ہے، مولانا مدنی نے آخرمیں کہا کہ ہم سی اے اے اور این پی آرکے نفاذ کے خلاف سپریم کورٹ میں گئے ہیں اور عدالت نے اس پر حکومت ہند کو نوٹس بھی جاری کردیا ہے کیونکہ جمعیۃعلماء ہند ایسے تمام معاملوں میں جن کا سیاسی طورپر کوئی حل نہ نکل سکے قانونی جدوجہد کا راستہ اختیارکرتی ہے، متعدد اہم معاملوں میں عدلیہ سے ہمیں انصاف ملا ہے اس لئے ہم پرامید ہیں کہ سی اے اے اور این پی آر کے معاملوں میں بھی کوئی بہتر اور قابل قبول فیصلہ سامنے آئے گا انہوں نے کہا کہ منتظمہ کے اجلاس میں ان تمام امورپر بحث اور غوروخوض ہوگا اس کے بعد جو بھی لائحہ عمل تیارہوگا اس کا اعلان 23/فروری کو آزادمیدان کے اجلاس میں ہوگا انہوں نے کہا کہ یہ جو حالات پیداہوئے ہیں یا جو ایشوز ہمارے سامنے ہیں ان کا ہندوومسلمان سے کوئی تعلق نہیں ہے اسے مذہب کی عینک سے دیکھنا صحیح نہیں ہوگا بلکہ بڑاسوال آئین کی بالادستی اور ملک کے سیکولرکردارکو باقی رکھنے کا ہے اور اس کے لئے ملک کے ہر سچے شہری کو سوچناہوگا۔