محمد مصطفی علی سروری
ریاست مغربی بنگال کے ضلع نادیہ میں واقع تحتا (Tehatta) پولیس اسٹیشن حدود میں 55 سال کا ایک رکشہ راں پھانسی لے کر خود کشی کرلیتا ہے۔ پولیس کی اطلاع کے مطابق رکشہ راں کی شناخت شمبھو جیرن ناتھ کی حیثیت سے کی گئی۔ شمبھو کے بیٹے 28 سالہ پرسن جیت نے تحتا پولیس کو ایک تحریری شکایت دی کہ ان کے والد شہریت ترمیمی قانون کے مسئلے پر بڑے پریشان تھے اور انہوں نے اسی وجہ سے پھانسی لے کر خود کشی کرلی۔ کولکتہ کے انگلش روزنامہ دی ٹیلیگراف نے 9؍ فروری 2020کو اس تعلق سے اپنے نمائندے سبھاشیش چودھری کی ایک رپورٹ شائع کی۔ رپورٹ کے مطابق خود کشی کا یہ واقعہ 8؍ فروری کو پیش آیا۔ خود کشی کی وجوہات کے بارے میں اخبار نے لکھا کہ شمبھو چرن ناتھ کا تعلق بانگلہ دیش سے تھا۔ اس نے 1960ء میں ہندوستان میں سکونت اختیار کرلی۔ بانگلہ دیش سے متصل ضلع نادیہ کے تحتا علاقے میں رہنے والا رکشہ راں شمبھو یہ سونچ کر پریشان تھا اگر شہریت ترمیمی قانون پر عمل ہوتا ہے تو اس کے بیٹے پرسن جیت کو غیر ملکی قرار دے کر حراستی کیمپ میں قید کردیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ پرسن جیت کے پاس جو شناختی کاغذات تھے اس میں بہت ساری غلطیاں تھیں۔ پرسن جیت کے ہاں اپنی شہریت کو ہندوستانی ثابت کرنے کے لیے راشن کارڈ، ووٹر شناختی کارڈ کے علاوہ آدھار کارڈ بھی تھا لیکن ان سب میں بہت ساری غلطیاں تھیں اور کئی مرتبہ درخواستیں دینے کے باوجود بھی پرسن جیت کے نام کی غلطیاں درست نہیں ہوسکیں۔ اخبار نے مزید بتلایا کہ شمبھو چرن ناتھ کے دو ہی بیٹے تھے۔ اس کا چھوٹا بیٹا تین برس قبل ہی سانپ کے کاٹنے سے مرگیا تھا اور شمبھو کو ڈر لگ رہا تھا کہ شناختی کاغذات میں غلطیوں کی وجہ سے اس کا دوسرا بیٹا بھی چلا جائے گا۔ اس کو حراستی کیمپ میں قید کردیا جائے گا۔
شہریت ترمیمی قانون سے صرف مسلمان ہی پریشان نہیں بلکہ دیگر مذاہب کے ماننے والے بھی خدشات کا شکار اور پریشانی کی حالت میں ہیں۔ مغربی بنگال کے ضلع نادیہ کی یہ خبر اسی کی عکاسی ہے۔
16؍ جنوری 2020 جمعرات کا دن تھا۔ دہلی کے شاہین باغ علاقے کا منظر تھا۔ شام سے ہی بارش ہو رہی تھی۔ علاقے میں لوگوں کا ہجوم بڑھتا جارہا تھا۔ اسٹیج سے 100 میٹر کے فاصلے پر واقع فٹ اوور برج کے پاس لوگ میاٹس پر بیٹھے ہوئے کھانے کا انتظار کر رہے تھے۔ انہیں گرما گرم پوری اور سبزی سربراہ کی جارہی تھی کیونکہ 15؍ جنوری سے پنجاب کے کسان جن میں سکھوں کی اکثریت شامل تھی۔ شاہین باغ پہنچنے لگے۔ پنجاب سے آنے والوں، سکھوں اور دیگر لوگوں کے لیے عارضی طور پر کھانے کا انتظام کیا گیا تھا۔ شاہین باغ کے احتجاجیوں کے ساتھ اظہار یگانگت کے بعد یہ پنجابی سکھ کسان واپس اپنے گھر چلے گئے لیکن ان لوگوں کے کھانے کے لیے جو عارضی لنگر لگایا گیا تھا اس کو بند کرنے کا وقت آیا تو ایک سردار جی جن کا نام ڈی ایس بندرا بتلایا گیا انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اس لنگر کو بند نہیں ہونے دیں گے۔ قارئین ڈی ایس بندرا پیشہ کے اعتبار سے ایک ایڈوکیٹ ہیں۔ (بحوالہ فرقان امین کی رپورٹ ۔ مطبوعہ ٹیلی گراف۔ 17؍ جنوری 2020)
دہلی کے مضافات میں واقع کرکر ڈوما کورٹ میں وکالت کرنے والے ڈی ایس بندرا نے کاروان ڈیلی کے نمائندے محمد آصف کو بتلایا کہ واہے گرو نے مجھے شاہین باغ آنے اور لنگر لگانے کی توفیق دی ہے۔ 17؍ جنوری 2020 سے شاہین باغ کے احتجاجیوں اور وہاں آنے والے دیگر افراد کے لیے ڈی ایس بندرا اپنی جانب سے کھانے کا انتظام کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتلایا کہ شاہین باغ کی خواتین کا احتجاج اتنا طویل ہوگا ان کو پتہ نہیں تھا۔ روزآنہ لنگر کے نام پر کھانا کھلاتے ہوئے ڈی ایس بندرا کے پاس پیسے ختم ہونے لگے تھے۔ انہوں نے طئے کیا کہ وہ مزید پیسوں کا انتظام کریں گے مگر لنگر کے تحت فری میں کھانے کے سلسلے کو روکیں گے نہیں۔ اب لنگر کو چالو بھی رکھنا تھا اور پیسوں کا انتظام بھی کرنا تھا۔ ڈی ایس بندرا نے طئے کیا کہ وہ اپنا ایک فلیٹ بیچ کر اس کی رقم سے شاہین باغ میں لوگوں کو کھانا کھلانے کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔
شاہین باغ کے پلیٹ فارم سے سو میٹر کے فاصلے پر فٹ اوور وبرج ہے۔ اسی برج کے نیچے ڈی ایس بندرا اپنی بیوی اور بچے کے ساتھ لنگر چلا رہے ہیں۔ بندرا کے حوالے سے کاروان نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ آج اس ملک میں بی جے پی مسلمانوں کے ساتھ سب سے برا سلوک کر رہی ہے۔ اس لیے وہ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کی تائید کرنی چاہیے۔ شاہین باغ میں احتجاج کرنے والی مسلم خواتین کے جذبۂ قربانی کو خراج پیش کرتے ہوئے بندرا نے کہا کہ یہ عورتیں شیرنیوں سے کم نہیں ہیں جو ظلم کے خلاف آواز بلند کر رہی ہیں۔ ان کے لیے مدد کرنا اس سے بڑھ کر دوسرا کوئی کام نہیں ہوسکتا ہے۔
ایڈوکیٹ ڈی ایس بندرا کہتے ہیں کہ ہندو ، مسلم، سکھ، عیسائی، آپس میں ہیں بھائی بھائی کا نعرہ لگانا بڑآسان ہے اور میں اپنے لنگر کے ذریعہ اس نعرہ کی عملی تفسیر پیش کرنا چاہتا ہوں۔
کیا ایڈوکیٹ بندرا کے لیے شاہین باغ میں لنگر چلانا آسان ہے، اس سوال کے جواب میں انہوں نے بتلایا کہ ایک دن دہلی پولیس والے ان کے پاس آئے اور لنگر کو بند کروانے کی کوشش کی اور ان کے سارے برتن لے کر چلے گئے۔ پولیس کی اس حرکت کے باوجود بھی ایڈوکیٹ بندرا نے اپنا لنگر بند نہیں کیا اور کھانا کھلانے کا کام جاری رکھا۔
شاہین باغ میں لوگوں کے کھانا کھلانے کے کام میں ڈی ایس بندرا اتنے مصروف ہوگئے ہیں کہ ان کی کورٹ کی پریکٹس بھی متاثر ہوگئی۔ اب وہ صبح سے شام تک کھانا پکانے اور پھر لوگوں کو کھلانے میں ، صحیح سے اپنی نیند بھی پوری نہیں کر پارہے ہیں۔لیکن ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتلایا کہ اب وہ اپنا لنگر کسی حال میں بھی بند نہیں کریں گے جب تک شاہین باغ کی عورتیں احتجاج پر بیٹھی ہیں تب تک کھانا کھلانا ان کی ذمہ داری ہے اور جب ایڈوکیٹ بندرا سے پوچھا گیا کہ لنگر چلانے کے لیے اگر مزید رقم کی ضرورت پڑے تب کیا ہوگا انہوں نے واضح کردیا کہ وہ اپنے مال و جائیداد کو فروخت کرنے سے پیچھے نہیں ہٹنے والے ہیں۔ لیکن کھانا کھلانا وہ روکنے والے نہیں ہے۔
شہریت ترمیمی قانون صرف مسلمانوں کے خلاف نہیں بہوجن ونچت اگھاڑی کے صدر پرکاش امبیڈکر کے مطابق لاکھ دعوے کرنے کے باوجود یہ سچ ہے کہ شہریت ترمیمی قانون سو فیصدی مسلمانوں کے خلاف ہے۔ اس کے علاوہ یہ 40 فیصدی ہندوئوں کے بھی خلاف ہے۔ اس لیے یہ لڑائی سب کو مل کر لڑنی ہوگی۔ (بحوالہ۔ ممبئی مرّر۔ 27؍ دسمبر 2019)
کوثر عمران ایک گرہست خاتون ہیں۔ لکھنؤ کے ترائی گنج کی رہنے والی اس 35 سالہ گرہست خاتون نے لکھنؤ کے کلاک ٹاور میں اپنے تین بچوں اور ایک بھانجی کو لے کر پوسٹر تیار کیے۔ گھر گھر جاکر دوسری خواتین کو کلاک ٹاور میں جمع ہونے کی ترغیب دلائی اور 17؍ جنوری بروز جمعہ خود اپنے بچوں کے ساتھ کلاک ٹاور پہنچ گئیں اور شاہین باغ کے طرز پر لکھنؤ میں بھی عورتوں کا احتجاج شروع کردیا۔
لکھنؤ کے کلاک ٹاور پر کوثر عمران نے پہلی رات اندھیرے میں گذاری کیونکہ پولیس نے اس علاقے کی لائٹ کی سپلائی بند کروادی تھی۔ کوثر عمران نام کی اس احتجاجی خاتون کے حوالے سے 20؍ جنوری 2020ء کو خبر رساں ادارے (IANS) نے خبر دی کہ مسلم خواتین کی جانب سے شروع کردہ اس احتجاج میں شامل عورتوں کو چائے سے لے کر مختلف کھانے، پینے کی اشیاء پہنچائی جانے لگی ہیں اور غیر مسلم خواتین اور حضرات بھی اس احتجاج میں شامل ہونے لگے۔ (بحوالہ اخبار دی اکنامک ٹائمز …؍ جنوری 2020)
قارئین بہت سارے غیر مسلم حضرات شہریت ترمیمی قانون سے ناراض ہیں۔ اس کا ایک واضح ثبوت دہلی اسمبلی الیکشن کے نتائج ہیں۔ “Shaheen Soars above barriers” سرخی کے تحت اخبار دی ٹیلی گراف نے 12؍ فروری 2020 کو ایک خبر شائع کی۔ خبر کی تفصیلات میں بتلایا گیا کہ شاہین باغ کا علاقہ دہلی اسمبلی کے حلقہ اوکھلا کے تحت آتا ہے۔ جہاں پر عام آدمی پارٹی کے امیدوار امانت اللہ خان نے کامیابی حاصل کی۔ اوکھلا حلقہ اسمبلی کے متعلق اخبار نے لکھا کہ اس حلقہ میں مسلم رائے دہندوں کی تعداد 45 فیصد ہے۔ لیکن عام آدمی پارٹی کے امیدوار امانت اللہ خان نے 66.09 فیصدی ووٹ حاصل کیے۔ رپورٹ کے مطابق ووٹوں کی تعداد سے پتہ چل جاتا ہے کہ امانت اللہ خان کو مسلمانوں کے علاوہ اکثریتی فرقے کے لوگوں نے بھی ووٹ دیا۔
یعنی مسلمانوں کے علاوہ دیگر ہندوستانی بھی شہریت ترمیمی قانون کو لے کر تحفظات کا شکار ہیں اور میڈیا میں ایک نہیں کئی خبریں اس حوالے سے ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔
کیا کسی نے غور کیا ہے، ایسے ہی پس منظر میں مسلمانوں کو مشورہ دیا گیا ہے کہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کو مساجد سے نہیں عوامی مقامات سے شروع کیا جانا چاہیے تاکہ یہ سبھی ہندوستانیوں کا احتجاج بن سکے؟
کاش کہ کوئی سمجھائے
لوگ کہتے ہیں بدلتا ہے زمانہ سب کو
مرد وہ ہیں جو زمانہ بدل دیتے ہیں
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)
[email protected]