سیاست فیچر
جاریہ ماہ کے اوائل میں مودی حکومت نے 549.14 ارب ڈالرس مصارف بجٹ یعنی 45 کھرب روپئے کا بجٹ پیش کیا۔ مرکزی وزیر فینانس نرملا سیتا رامن کی جانب سے پیش کردہ یہ پانچواں بجٹ تھا۔ انہوں نے اپنی 80 منٹ کی بجٹ تقریر میں بے شمار دعوے کئے جن میں ایک دعویٰ یہ بھی تھا کہ ہندوستانی معیشت 10 ویں مقام سے پانچویں مقام پر آگئی۔ ان کا دوسرا دعویٰ یہ رہا کہ معیشت کی شرح نمو کا تخمینہ 7% جو دنیا کی دیگر معیشتوں میں سب سے زیادہ ہے۔ بہرحال عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ نرملا سیتا رامن کے دعوؤں میں کتنی سچائی ہے اور اس سچائی کا ثبوت ملک میں پٹرول و ڈیزل، اشیائے مایحتاج بالخصوصی خوردنی تیل، دالوں، چاول، آٹا غرض ہر چیز کی آسمان کو چھوتی قیمتیں اور بیروزگاری ہے کیونکہ بیروزگاری، غربت غریبوں کی تعداد مہنگائی اور بدامنی میں بے تحاشہ اضافہ سے کسی بھی ملک کی ترقی کا اندازہ بہ آسانی لگایا جاسکتا ہے۔ ہم چونکہ بجٹ کی بات کررہے ہیں تو اس معاملے میں بھی مودی حکومت خود اپنے نعرہ ’’سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس‘‘ سے بہت دور نظر آتی ہے۔ اپوزیشن نے مودی جی کے اس نعرہ کو بڑی حقارت سے مسترد کرتے ہوئے ’’سب بکواس‘‘ قرار دیا ہے جہاں تک بجٹ میں اقلیتوں کے حصہ کا سوال ہے، ہمیشہ کی طرح اس سال بھی بجٹ نے اقلیتوں کو مایوس کردیا۔ گزشتہ مالی سال 2022-23ء 5,020.50 کروڑ روپئے اقلیتی بہبود کیلئے مختص کئے گئے تھے، اب اس میں خطرناک حد تک کمی کرتے ہوئے 3,097 کروڑ روپئے کردیا گیا۔ اس طرح گزشتہ سال کی بہ نسبت اس مرتبہ بجٹ میں 38% تخفیف کی گئی ہے۔ واضح رہے کہ بجٹ برائے مالی سال 2022-23ء میں مختص 5 ہزار کروڑ روپیوں میں سے 2,800 کروڑ روپئے خرچ نہیں کئے گئے یعنی تقریباً 48% بجٹ استعمال ہی نہیں کیا گیا۔ اقلیتوں کو تعلیمی لحاظ سے بااختیار بنانے کیلئے مختص بجٹ جو 2022-23ء میں 2515 کروڑ روپئے تھا، اب اسے گھٹاکر 1,689 کروڑ روپئے کردیا گیا۔ جاریہ سال کے بجٹ میں اقلیتوں کو فراہم کی جانے والی پری میٹرک اسکالرشپ سب سے زیادہ متاثر رہی۔ 2022-23ء میں اس کیلئے 1,425 کروڑ روپئے مختص کئے گئے تھے لیکن اب اسے 433 کروڑ روپئے کردیا گیا۔ حکومت نے اس اسکیم کو صرف 9 ویں اور دسویں جماعت کے طلباء و طالبات کیلئے محدود کردیا ہے۔ ہاں پوسٹ میٹرک اسکالرشپ کیلئے مختص بجٹ کو 515 کروڑ روپئے سے بڑھاکر 1,065 کروڑ روپئے کیا گیا ہے۔ وزارت اقلیتی بہبود کی اسکیمات میں ایک نئی اسکیم ’’وراثت کا سموردھن (پی ایم وکاس) جوڑی گئی ہے اور اس کیلئے 540 کروڑ روپئے مختص کئے گئے۔ اب ہم بات کرتے ہیں۔ صلاحیتوں کو فروغ دینے والی اسکیمات جیسے USTAD نئی منرل جیسی اسکیمات اور اقلیتی خواتین کیلئے لیڈرشپ ڈیولپمنٹ اسکیم ایسا لگتا ہے۔ منظر عام سے تقریباً غائب ہوگئی ہیں۔ ان اسکیمات کیلئے گزشتہ سال 332.91 کروڑ روپئے مختص کئے گئے تھے۔ اب اسے اس قدر زیادہ گھٹا دیا گیا کہ وہ صرف 3.4 کروڑ روپیوں تک محدود ہوکر رہ گیا۔ اس طرح میرٹ پر مبنی مینس اسکالرشپ (یہ اسکالرشپ اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے پیشہ ورانہ اور ٹیکنیکی کورسیس کرنے والے طلبہ کو دی جاتی ہے) اور اس سے جڑی دوسری اسکیمات و پروگرامس کیلئے پہلے مختص 365 کروڑ روپئے سے کم کرکے 44 کروڑ روپئے کردیا گیا ہے۔ اسی طرح مفت کوچنگ اور اس قسم کی دوسری اسکیمات کیلئے مختص بجٹ 79 کروڑ سے کم کرکے 30 کروڑ روپئے کردیا گیا۔ اس طرح اس میں تقریباً 60% کمی آئی ہے۔ دوسری طرف یو پی ایس سی، ایس ایس سی اور اسٹیٹ پبلک سرویس کمیشن کی جانب سے منعقد کئے جانے والے پریلمنری امتحانات میں کامیابی حاصل کرنے والے طلبہ کی امداد کیلئے اب کوئی بجٹ مختص نہیں کیا گیا۔ گزشتہ سال اس کیلئے 8 کروڑ روپئے کا بجٹ مختص کیا گیا۔ تحقیقی اسکیمات کیلئے مختص 41 کروڑ روپئے کے بجٹ کو بھی 41 کروڑ روپئے سے کم کرکے 20 کروڑ روپئے کردیا گیا۔ فروغ مہارت اور ذریعہ معاشی کی اسکیمات کے جملہ فنڈ کو بھی 491 کروڑ روپیوں سے کم کرکے 64.40 کروڑ روپئے کردیا گیا۔اس بجٹ میں مدارس کیلئے تعلیمی اسکیم کے مد میں 10 کروڑ روپئے مختص کئے گئے۔ گزشتہ سال اس کیلئے 160 کروڑ روپئے مختص کئے گئے تھے۔ اس کے علاوہ اقلیتوں کے خصوصی اسکیمات میں بھی 50% کٹوتی کردی گئی جس میں ریسرچ، اسٹیڈیز پبلیسٹی، مانیٹرنگ اور ترقیاتی اسکیمات کا ارتقاء اقلیتوں کے آثار قدیمہ کے تحفظ کی اسکیمات شامل ہیں۔