ڈیرک اوبرین
نئے سال کی آمد ہوچکی ہے، مودی حکومت میں 2014 سے جو کچھ ہورہا ہے اس کا سلسلہ جاری ہے، مودی حکومت اور اس کے حامی یہی دعوے کررہے ہیں کہ نریندر مودی کی قیادت میں ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور ملک کی معاشی حالت مستحکم ہے ( انگریزی کے موقر روز نامہ ’ دِی ہندو‘ میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق ہمارے وطنِ عزیز ہندوستان پر بیرونی قرض کا بوجھ 711 ارب ڈالرس سے تجاوز کرگیا ہے)۔
بہرحال جب جولیس سیزر ( یہ دنیا کا پہلا جرنیل بادشاہ تھا جس کو اس کے اپنے ساتھیوں نے قتل کیا جب اس نے قاتلوں میں اپنے ساتھی بروش کو دیکھا تو اسے بہت غم ہوا، اور یہ کہتے ہوئے جان دے دی کہ بروش تم بھی ! پھر تو سیزر کو ضرور مرجانا چاہیئے۔ واضح رہے کہ سیزر کو قتل کرکے قاتلوں نے اس کے خون میں ہاتھ دھوئے اور آزادی کے نعرے لگائے ) کی سنپسٹ نے یکم؍ جنوری کو سال کا پہلا دن مقرر کیا تب اس کے پیچھے جو آئیڈیا کار فرما تھا نہ صرف ایک نئی شروعات کرنا تھا بلکہ ذمہ دار عہدہ داروں میں ان کی ذمہ داریوں کے تئیں احساس پیدا کرنا بھی تھا تاکہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی انجام دے سکیں۔ اور 45 قبلِ مسیح سے ہی یہ روایات چلی آرہی ہے۔
آیئے ! دیکھتے ہیں کہ ہمارے ملک کی موجودہ مخلوط حکومت جو نریندر مودی کی زیر قیادت کام کررہی ہے اُسے نئے سال 2025 میں ملک اور عوام کی ترقی و خوشحالی کیلئے کیا کام کرنا چاہیئے اس مخلوط حکومت کی جو ترجیحات کی فہرست ہے اس میں سرِفہرست 25 اقدامات ہونے چاہیئے۔
ہمارے ملک میں اگر دیکھا جائے تو پچھلے دس برسوں سے مہنگائی میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے جس سے عوام بالخصوص غریب شہری بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں‘ یہ مہنگائی ان کیلئے ناقابلِ برداشت ہے ۔ اس طرح عام آدمی سے لیکرمتوسط طبقہ بھی مہنگائی کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے ایسے میں مودی حکومت کو سال 2025 میں سب سے پہلے عام مہنگائی پر قابو پانا ہوگا، مہنگائی پر کنٹرول کرنا ہوگا۔ ملک میں بڑھتے افراط زر کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ ریٹیل افراط زر 6.21 فیصد تک پہنچ گئی جو گذشتہ 14 ماہ میں سب سے زیادہ ہے جبکہ گھرانوں یا خاندانوں کی بچت میں بہت زیادہ کمی آئی ہے جس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ گراوٹ پچھلے 50 برسوں میں سب سے زیادہ ہے۔ ویسے بھی خواتین پہلے اشیائے ضروریہ کے بشمول مختلف اشیاء کی خریداری کے دوران کافی بچت کرلیا کرتی تھیں لیکن گذشتہ دس برسوں میں وہ بچت کرنے سے قاصر ہیں‘ اس کی وجہ مہنگائی میں اضافہ ہے۔ مہنگائی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ عام آدمی سبزیاں خریدنے سے بھی قاصر ہے۔ مودی حکومت کیلئے دوسرا اہم کام یہ ہوگا کہ وہ جی ڈی پی کو بڑھائے کیونکہ ریزرو بینک آف انڈیا نے 2024 میں جی ڈی پی کی شرح نمو کا تخمینہ 7.2فیصد تا 6.6 فیصد کیا تھا( ڈسمبر 2024 میں ) آپ کو یہ بھی بتادیں کہ Repo Rate میں مسلسل گیارہ مرتبہ کٹوتی نہیں کی گئی۔ مودی حکومت کیلئے بیرونی راست سرمایہ کاری کیلئے راغب کرنا بھی ضروری ہے کیونکہ مالی سال 2022-23 اور 2023-24 کے درمیان بیرونی راست سرمایہ کاری میں 13 ہزار کروڑ (1.6 ارب ڈالرس ) کی کمی آئی۔ مرکزی حکومت کیلئے چوتھا اہم کام روپیہ کی قدر کو مستحکم بنانا ہے۔ ڈسمبر 2024 میں روپیہ مسلسل تیسرے راست سیشن میں بھی کمزور رہا، اب ڈالر کے مقابل روپئے کی قدر 85.27 ہوگئی یعنی ایک امریکی ڈالر 85.27 روپئے کے برابر ہوگیا ہے۔ ملک کے نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح پچھلے دو برسوں سے 10% ہے۔ اکنامک سروے کے مطابق گریجویشن کی تکمیل کرنے کے بعد 80 فیصد نوجوانوں کو ملازمت دینے کیلئے کوئی تیار نہیں ہے یعنی 50 فیصد گریجویٹس روزگار کے مواقع حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔ ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کیلئے عام آدمی کی مدد کرنی چاہیئے کیونکہ گذشتہ چار برسوں میں مرکزی حکومت نے صنعتی شعبہ کے 5.65 لاکھ کروڑ روپئے قرض معاف کئے ہیں اس کے برعکس ملک میں سب سے زیادہ روزگار دینے والے زرعی شعبہ پر قرض معافی کے معاملہ میں بہت کم توجہ دی گئی ہے خاص کر شیڈول کمرشیل بینکوں کی جانب سے اس شعبہ کو بری طرح نظرانداز کیاگیا۔
ہمارے ملک میں لاکھوں کی تعداد میں ایسے لوگ ہیں جنہیں دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں ایسے میں حکومت کو چاہیئے کہ سب کو غذا فراہم کرے۔ آپ کو بتادیں کہ مناسب خوراک نہ ملنے کے نتیجہ میں ہندوستان میں ہر سال 17 لاکھ ہندوستانی اپنی زندگیوں سے محروم ہوجاتے ہیں۔ سال 2025 میں مودی حکومت کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ تمام کیلئے مساوی تنخواہوں کو یقینی بنائے ساتھ ہی حکومت کو چاہیئے کہ کسانوں کیلئے احترام زندگی ( ان کی باوقار زندگی ) کو یقینی بنائے۔ این سی آر بی کے مطابق ہمارے ملک میں ہر روز 30 کسان خودکشی کرتے ہیں چنانچہ فبروری 2024 سے ایم ایس پی کی قانونی طمانیت کو یقینی بنانے کیلئے کئے گئے احتجاجی مظاہروں میں 20 کسان فوت ہوئے اور 160 زخمی ہوئے۔ سال 2025 میں مودی حکومت کو چاہیئے کہ خواتین کی سیفٹی کو بھی یقینی بنائیں۔ ہمارے ملک میں محروم طبقات پر توجہ دینے کی شدید ضرورت ہے، سال 2018 اور 2020 کے درمیان 443 افراد موریاں، ڈرینج صاف کرتے ہوئے مارے گئے ( ہاتھ سے موریوں و ڈرینج کی صفائی پر 2013 میں پابندی عائد کی گئی )۔ جاریہ سال مودی حکومت کو صحافت کا تحفظ بھی کرنا چاہیئے۔
یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ2014 اور 2019 کے درمیان 20 صحافیوں پر سنگین حملے کئے گئے۔ صحافیوں کی گرفتاریاں عمل میں آئی، سرکاری ایجنسیوں، نان ۔ اسٹیٹ پولٹیکل ایکٹرمس، مجرمین اور مسلح گروپوں نے 2022 میں نشانہ بنایا۔ مودی حکومت کو جو تیرہواں کام کرنا ہے وہ مساویانہ نمائندگی کو یقینی بنانا ہے۔ واضح رہے کہ 18 ویں لوک سبھا میں خواتین کی نمائندگی صرف 13.6 فیصد ہے جو 17 ویں لوک سبھا میں خاتون ارکان کی تعداد سے بھی کم ہے جس میں خاتون ارکان کی تعداد 14.4 فیصد تھی ۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بیجا نہ ہوگا کہ 24 پارلیمانی اسٹینڈنگ کمیٹیوں میں سے صرف دو کمیٹیوں کی سربراہی خواتین کرتی ہیں۔ جہاں تک مقننہ کو جانچ پڑتال کی اجازت دینے کا سوال ہے آپ کو بتادیں کہ سال 2019 سے 100 بلز صرف دو گھنٹوں سے بھی کم وقت میں منظور کئے گئے۔ 17 ویں لوک سبھا میں 10 بلز میں سے 9 بلز صفر یا نامکمل مشاورت کے ذریعہ منظور کئے گئے۔
مودی حکومت کو یہ بھی چاہیئے کہ وہ لوک سبھا کے ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب کرے کیونکہ 17 ویں لوک سبھا کی 5 سالہ میعاد میں کوئی ڈپٹی اسپیکر نہیں تھا اور اب بھی ڈپٹی اسپیکر کا عہدہ مخلوعہ ہے۔ عام طور پر یہ عہدہ اپوزیشن کو دیا جاتا ہے اس کے علاوہ حکومت خود میں اپوزیشن کی تنقیدوں کو برداشت کرنے کی صلاحیت پیدا کرے۔ پچھلے پانچ برسوں میں صرف اور صرف حکومت پر تنقید کیلئے جن اپوزیشن ارکان پارلیمان کو معطل کیا گیا ان کی تعداد میں 13 گنا اصافہ ہوا ہے جبکہ انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ نے پچھلے دس برسوں میں جو مقدمات درج کئے ہیں ان میں 95 فیصد مقدمات اپوزیشن قائدین کے خلاف ہیں جس سے اپوزیشن کے خلاف حکومت کے انتقامی رویہ کا پتہ چلتا ہے۔ حکومت اپوزیشن قائدین کی تنقید برداشت نہیں کرپارہی ہے اسے اب اپنا رویہ بدلنا ہوگا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ کمیشن برائے پسماندہ طبقات، کمیشن برائے درج فہرست طبقات اور حقوق اطفال کے تحفظ سے متعلق کمیشن کے اب تک کوئی نائب صدرنشین نہیں ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ درج فہرست طبقات و قبائیل اور دوسرے پسماندہ طبقات کی مدد کرے۔ حکومت کیلئے اس سال ایک اور چیلنج سے پُر کام ہے وہ یہ ہے کہ مردم شماری سال 2021 میں ہونی تھی لیکن ابھی تک نہیں کی گئی۔ پچھلی مرتبہ 2011 میں مردم شماری کا اہتمام کیا گیا تھا۔ حکومت نے بیٹی بچاؤ ۔ بیٹی پڑھاؤ کیلئے جو فنڈ مقرر کیا اس میں سے 80 فیصد فنڈ میڈیا میں تشہیر پر خرچ کردیا جبکہ حکومت نے اس فنڈ کا لڑکیوں کی صحت یا تعلیم پر خرچ نہیں کیا۔
سال 2025 میں نریندر مودی حکومت کو چاہیئے کہ وہ ریاستوں کو واجب الادا رقم ادا کردے۔ مثال کے طور پر مغربی بنگال کوMGNREGS اور آواس یوجنا کے تحت مرکز 1500 کروڑ روپئے باقی ہے، فنڈس کی عدم اجرائی سے 59 لاکھ MGNREGS ورکرس کی زندگیاں متاثر ہوئیں۔ مودی حکومت کیلئے 2024 کی طرح 2025 میں بھی منی پور ایک بہت بڑا چیالنج رہے گا، اسے منی پور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ منی پور میں نسلی تشدد کے نتیجہ میں 67 ہزار لوگ بشمول 14 ہزار اسکولی طلباء و طالبات متاثر ہوئے، درجنوں مرد و خواتین کا قتل کیا گیا، گرجا گھروں کو آگ لگائی گئی۔ مودی جی نے ابھی تک اس گڑبڑ زدہ ریاست کا دورہ نہیں کیا ۔ مودی حکومت کو بڑی سنجیدگی کے ساتھ اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنانا ہوگا، ان کی بہبود کیلئے اقدامات کرنا ہوگا۔ NCRB نے 2021 میں 378 فرقہ وارانہ فسادات ریکارڈ کئے۔ 2022 میں 272 اور 2023 میں اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کی گئیں اور بیانات جاری کئے گئے جس کے نتیجہ میں کئی مقامات پر تشدد پھوٹ پڑا۔ اپریل اور جون 2022 کے درمیان 128 جائیدادوں کو منہدم کیا گیا۔