محمد مبشر الدین خرم
دنیا کیمیائی یا حیاتیاتی جنگوں کے مقابلہ کی اہل ہے! دنیا نے کبھی کیمیائیو حیاتیاتی حملوں کا مقابلہ کیا ہے اور کیا دنیا میں کوئی ایسا میکانزم ہے جو دنیا میں ان قوتوں کو روک سکے جو کہ کیمیائی و حیاتیاتی ہتھیار تیار کرتے ہوئے ان کا استعمال کررہے ہیں۔دنیا میں سب سے زیادہ تباہی مچانے والے ہتھیار کے طور پر اب تک نیوکلیئر ہتھیار کو ہی پیش کیا جاتا رہا ہے اور نیوکلئیر ہتھیار کی تیاری پر روک لگانے کے لئے دنیا نے ایک ایسا میکانزم تیار کیا ہے جس میں کسی بھی ملک کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ خود کو نیوکلئیر پاؤر کے طور پر پیش کرسکے اور نیو کلئیر قوت کا مثبت انداز میں استعمال کرتے ہوئے اس کا استعمال برقی پیداوار کیلئے کرے۔ دنیا نے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی IAEA کا قیام عمل میں لاتے ہوئے نیوکلئیر طاقت کے حامل ممالک کو فوج اور جنگ کے دوران ان ہتھیاروں کے استعمال سے باز رکھنے کا پابند بنایا ہے اور جو نیوکلئیر ممالک اس ادارہ کے رکن ہیں وہ اس عہد کے پابند ہیں علاوہ ازیں یہ ادارہ نیو کلئیر قوت کے حامل ممالک کی جانب سے انجام دی جانے والی سرگرمیوں پر خصوصی نگاہ رکھے ہوئے ہے تاکہ کسی بھی طرح کی بد امنی کی صورت میں اس پر قابو پانے کے اقدامات کئے جاسکیں اور اس ادارہ کو اقوام متحدہ سے الحاق حاصل ہے۔ اس ادارہ کی جانب سے دنیا کے مختلف خطوں میں موجود ممالک کے ساتھ معاہدے موجود ہیں جن کے تحت نیو کلئیر ٹیکنالوجی کو محفوظ رکھنے کے اقدامات کئے جا رہے ہیں تاکہ اس قوت کا غلط استعمال نہ ہو۔دنیا نے جس لحاظ سے ترقی کی ہے اس میں نہ صرف نیو کلئیر ہتھیار سے ’اجتماعی تباہی ‘ لائی جا سکتی ہے بلکہ حیاتیاتی ‘ کیمیائی اور شعائی ہتھیار بھی اجتماعی تباہی کا ذریعہ بن سکتے ہیں اور کیمیائی ہتھیاروں کے علاوہ حیاتیاتی ہتھیاروں کے استعمال کی بھی تاریخ ملتی ہے حالیہ عرصہ میں امریکہ نے شام پر یہ الزام عائد کیا تھا کہ شام نے مخالفین حکومت کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کئے ہیں اور امریکہ نے عراق میں صدام حسین کے خلاف جنگ کیلئے کیمیائی ہتھیار کا ہی بہانہ تراشا تھا لیکن جنگ ختم ہونے کے بعد بھی اب تک عراق سے وہ کیمیائی ہتھیار برآمد نہیں ہوسکے جن کے لئے عراق پر جنگ مسلط کی گئی تھی ۔دنیا میں فی الحال نیو کلئیر ہتھیاروں سے زیادہ خطرناک ہتھیار اگر کوئی ہیں تو وہ شعائی ‘ کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیار ہیں اور ان ہتھیاروں کی تیاری کو روکنے کیلئے دنیا نے کئی ادارے تیار کئے ہیں لیکن اب تک بھی ان ادارو ںکی کارکردگی اور ان کے ذریعہ کئے جانے والے معاہدوں کے متعلق عوام کو کوئی معلومات نہیں ہیں جس کے سبب جب بھی بات ہوتی ہے صرف نیو کلئیر ہتھیاروں کی بات کی جاتی ہے اور نیوکلئیر قوت کی بات کی جاتی ہے جبکہ شعائی ‘ حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیار نیوکلئیر سے زیادہ تباہ کن اور خطرنا ک ہوسکتے ہیں اور ان کی تیاری میں کوئی مشکلات کا سامنا بھی نہیں ہوتا بلکہ یہ ہتھیار لیاب میں ترقی اور تحقیق کے نام پر تیار کئے جاسکتے ہیں ۔
حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیار میں فرق
حیاتیاتی و کیمیائی ہتھیاروں کو جاننے کے لئے لازمی ہے کہ ان میں فرق کو محسوس کیا جائے ۔ حیاتیاتی ہتھیار وہ ہوتے ہیں جن میں بیماریوں اور خلیات کا استعمال کرتے ہوئے انہیں تیار کیا جاتا ہے اور کیمیائی ہتھیار وہ ہیں جن میں کیمیائی مادوں کااستعمال کیا جاتا ہے۔ حیاتیاتی ہتھیاروں کی مثال اگر دیکھی جائے توماضی قریب میں اینتھراکس اور چیچک کے نام سامنے آتے ہیں ۔ دنیا میں حیاتیاتی ہتھیاروں کا استعمال دوسری جنگ عظیم کے دوران ہوچکا ہے اس بات سے بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا اور جاپان کی جانب سے چین پر کئے گئے حیاتیاتی حملہ کی توثیق بھی ہوئی ہے لیکن اس حملہ میں مارے جانے والوں کو معاوضہ کی ادائیگی نہیں ہوپائی ہے۔ حیاتیاتی ہتھیار کی تیاری کا طریقہ کار یہ ہے کہ اگر کسی میں کوئی وائرس پائے جاتے ہیں اور اس کے جسم کے خلیات حاصل کرتے ہوئے ان کی پرورش کی جاتی ہے اور انہیں کسی ذریعہ سے عوام کے درمیان لایاجاتا ہے تو ایسی صورت میں یہ حملہ کامیاب ہوجاتا ہے اور جن ممالک میں ادویات سازی کی صلاحیت موجود ہے ان ممالک کے پاس حیاتیاتی ہتھیار تیار کرنے کی صلاحیت کے موجود ہونے سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کیونکہ ان ممالک کے تجربہ گاہوں میں جینیاتی خلیات پر تجربات کا سلسلہ جاری ہی ہوتا ہے اور ان جینیاتی خلیات کے تجربات کے دوران متاثرہ خلیات کے ذریعہ بہ آسانی حیاتیاتی ہتھیار بنائے جاسکتے ہیں اسی طرح کیمیائی ہتھیاروں کی تیاری کیلئے ان کیمیائی مادوں کی ضرورت ہوتی ہے جن کیمیائی مادوں کے استعمال کے ذریعہ ہتھیار کی تیاری ممکن ہوتی ہے ۔ دونوں ہتھیاروں میںبنیادی فرق یہ ہے کہ کیمیائی ہتھیار جن علاقو ںمیں استعمال کئے جائیں صرف ان علاقو ںمیں تباہی مچا سکتے ہیں جبکہ حیاتیاتی ہتھیارمیں خلیات ہونے کے سبب یہ وبائی شکل اختیار کرتے ہیں۔
حیاتیاتی ‘ کیمیائی اور شعائی ہتھیاروں کی روک تھام
دنیا نیوکلئیر سے ہی خائف نہیں ہے بلکہ ان ہتھیاروں کے حملوں سے خدشات کے تحت ان ہتھیاروں کی تیاری کو روکنے اور ان ہتھیاروں کی تیاری کی اہلیت رکھنے والے ممالک پر نظر رکھنے کیلئے علحدہ علحدہ معاہدے کئے گئے ہیں۔ بائیو لوجیکل ویپن کنونشن (حیاتیاتی ہتھیار کنونش) جو کہ 10اپریل 1972کو کیا گیا معاہدہ ہے اور اس معاہدہ پر دنیا کے 183 ممالک نے دستخط کئے ہوئے ہیں اوراس عہد کے پابند ہیں کہ وہ حیاتیاتی ہتھیار تیار نہیں کریں گے۔ اس معاہدہ پر دستخط کرنے والے سرکردہ ممالک میں امریکہ ‘ ہندستان‘آسٹریلیاء‘چین ‘ ڈنمارک‘ جرمنی ‘ ایران ‘ عراق ‘کینیڈا‘ ترکی ‘ برطانیہ ‘ متحدہ عرب امارات‘ پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک شامل ہیں جن کے متعلق یہ باور کیا جاتا ہے کہ ان ممالک میں حیاتیاتی ہتھیار بنانے کی اہلیت ہے لیکن وہ اس معاہدہ کا حصہ ہیں۔جن ممالک نے اس معاہدہ پر دستخط نہیں کئے ہیں ان میں اسرائیل ‘جنوبی سوڈان و دیگر ممالک ہیں لیکن اسرائیل کی جانب سے مستقبل قریب میںکوئی دستخط کے آثار بھی نہیں ہیں۔اسی طرح کیمیکل ویپن کنونشن(کیمیائی ہتھیار کنونشن) کے تحت ایک معاہدہ طئے پایا جو کہ 29اپریل 1997 سے قابل عمل ہے اور اس معاہدہ پر دستخط کرنے والوں میں بیشتر تمام ممالک شامل ہیں لیکن اسرائیل کی جانب سے اس معاہدہ پر دستخط کے باوجود ابھی تک اس کی توثیق نہیں کی گئی ہے۔ اس معاہدہ کے ذریعہ کیمیائی ہتھیاروں کی تیاری پر ہی مکمل پابندی عائد کی گئی ہے اور اس معاہدہ پر دستخط نہ کرنے والے ممالک میں صرف تین ممالک ہیں جن میں مصر‘جنوبی سوڈان اور شمالی کوریا شامل ہیں۔1970میں شعائی ہتھیاروں کی تیاری پر بھی مکمل پابندی عائد کی جاچکی ہے۔ حیاتیاتی ہتھیاروں کی تیاری اور ان کے استعمال پر روک لگانے کے لئے کئے جانے والے ان معاہدوں پر کس حد تک عمل آوری کی جا رہی ہے اس کا جائزہ لینے کیلئے بائیولوجیکل ویپن کنونشن نامی اس ادارہ کے پاس 4 افراد پر مشتمل عملہ ہے جبکہ حیاتیاتی ہتھیار کے تجربہ کی خفیہ اطلاعات کے حصول کے لئے کافی عملہ درکار ہے کیونکہ یہ تجرباتانتہائی رازداری سے ہوسکتے ہیں کیونکہ ان کے لئے کوئی زیادہ وسائل ‘ مالیہ یا نقل و حرکت کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ نیو کلئیر ہتھیار کی تیاری کیلئے مالیہ‘ وسائل اور تجربہ گاہ کی تعمیر اور نقل حرکت کافی زیادہ ہوتی ہے اسی لئے ان اطلاعات کے حصول میں کوئی دشواری نہیں ہوتی بلکہ کسی بھی ملک میں نیو کلئیر سرگرمیوں کی اطلاعات جلد منظر عام پر آجاتی ہیں۔بتایاجاتا ہے کہ معاہدہ کی خلاف ورزی کرنے والے ممالک پر نظر رکھنے کیلئے کوئی طریقہ کار بھی موجود نہیں ہے کیونکہ BWC کے پاس کوئی ایسے ذرائع نہیں ہیں جس سے یہ پتہ چلایا جاسکے کہ کسی ملک میں حیاتیاتی ہتھیار تیار کئے جا رہے ہیں۔
ڈونالڈ ٹرمپ‘ ووہان‘ کورونا وائرس
امریکی صدر نے گذشتہ دنوں یہ کہا ہے کہ امریکی حکومت اس بات کی تحقیقات کر رہی ہے کہ آیا کورونا وائرس چین کی تجربہ گاہ سے نکلا ہے یا چین کسی حیاتیاتی ہتھیار کا تجربہ کررہا تھا جس کے سبب یہ وائرس دنیا میں پھیل رہا ہے۔ڈونالڈ ٹرمپ کے اس بیان نے ایک مرتبہ پھر سے دنیا کی توجہ چین کی جانب مبذول کروائی اور دوبارہ اس مفروضہ پر مباحث شروع ہوچکے ہیںکہ ووہان کی ایک لیباریٹری میں یہ تجربہ جاری تھا اور اس لیباریٹری میں تجربہ کرنے والے ایک محقق کی دختر اور اس کے بعد اس کے بوائے فرینڈ سے ہوتے ہوئے یہ وائرس دنیا بھر میں پھیل چکا ہے۔ امریکہ کی جانب سے اس کی تحقیق کے لئے اقدامات کئے جاتے ہیں تو ایسی صور ت میں بھی کیا کلیدی تیارککندہ تک پہنچا جاسکے گا یہ سوال برقرار رہے گا کیونکہ اگر یہ کوئی حیاتیاتی ہتھیار کا حملہ ہے تو تیار کنندہ یا سازش رچنے والا کوئی ایسا نا اہل تو نہیں ہوگا کہ اس تک رسائی حاصل ہوجائے اور دنیا کے سامنے اس کا انکشاف ہوجائے۔ کورونا وائرس نے دنیا کو لاک ڈاؤن کردیا ہے اور اس کے اثرات دنیا کے بیشتر تمام ممالک میں نظر آنے لگے ہیں اور ان اثرات کو زائل کرنے اور اس مرض پر قابو پانے کیلئے ہر مملکت کوشاں ہے لیکن کسی کو بھی اس میں بڑی کامیابی حاصل ہوتی نظر نہیں آرہی ہے لیکن ہندستان میں ادویات ساز کمپنی Cipla کی جانب سے صدرنشین نے اعلان کیا ہے کہ وہ اندرون 12ماہ اس مرض کا ٹیکہ تیار کرنے میں کامیابی حاصل کرلیں گے ۔امریکہ کی جانب سے تحقیقات کے اعلان کے بعد کسی بھی ملک کی جانب سے اب تک کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا گیا ہے لیکن کوروناوائرس کے پھیلنے کے بعد سے ہی اس کے لئے چین کو ذمہ دار قرار دینے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن چین کی جانب سے کورونا وائر س کو ووہان وائرس اور ین وائرس کہے جانے پر شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔
کورونا وبائی مرض ہے یا نہیں
کوروناوائرس ایسا مرض ہے جو کہ انتہائی محتاط انداز میں اپنے شکار کو تلاش کررہا ہے اور اس وقت تک وہ کسی پر حملہ آور نہیں ہوتا جب تک اس کو دعوت نہ دی جائے ۔اگر یہ مرض وبائی ہوتا جو کہ ہوا میں پھیل جاتا تو آن کی آن میں دنیا تباہ ہوجاتی لیکن اس مرض کی خصوصیت یہ ہے کہ اس مرض کے شکار فرد سے رابطہ میں آنے تک یہ مرض حملہ آور نہیں ہوتا ۔کوروناوائرس مذہب‘ قومیت ‘ ذات پات‘جینیات سے بے نیاز ایسا مرض ہے جو کہ رابطہ میں آنے والے کو ہی اپنا شکار بناتاہے اور حلق اور ناک کے ذریعہ ہی دوسرے تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے اسی لئے اس وائرس کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس وائرس نے اپنا شکارتلاش نہیں کرنا ہے بلکہ اس وائرس کو اپنانے والے خود اس کے شکار ہوتے ہیں۔ایک دوسرے سے پھیلنے والے اس مرض کو کورونا وائرس قرار دیا گیا ہے اور وائرس کا لفظ ہی ایک حیاتیاتی لفظ ہے جو کہ یہ تاثر دیتا ہے کہ یہ جو کچھ ہے اس میں حیات باقی ہے اور وہ لوگوں کو اپنا شکار بنا رہا ہے۔کورونا وائرس کے متاثرین کی تعداد دنیا بھر میں تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس مرض سے فوت ہونے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے لیکن اس پر قابو پانے کیلئے تاحال قرنطینہ اور سماجی فاصلہ کو ہی واحد حل قرار دیا جانے لگا ہے جس کے سبب دنیا بھر میں اب تک لاکھوں کروڑ کے نقصانات ہوچکے ہیں اور دنیا اس بات سے اب بھی پس و پیش کر رہی ہے کہ اس مرض کی بنیادوںکے متعلق پیش کی جانے والی سازشی فکر کے انکشاف کو یقینی بنایاجائے کیونکہ دنیا کی وہ طاقتیں جو خود کو سوپر پاؤر تصور کرتی ہیں بلکہ کہلانے میں فخر محسوس کرتی ہے ان طاقتوں کی جانب سے سے بھی برملا یہ کہنے سے گریز کیا جا رہاہے کہ یہ مرض کیسے دنیا بھر کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے اور اس کے پیچھے کونسے عناصر کارفرما ہیں۔عالمی ادارۂ صحت کی جانب سے اس مرض کی جس انداز میں زمرہ بندی کی گئی ہے وہ بھی بڑی احتیاط کے ساتھ کی گئی ہے اور تیسرے مرحلہ میں پھیلاؤ کے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ کسی بھی ملک کو اس وقت تیسرے درجہ میں شمار کیاجائے گا جب اس کے شہری اس مرض سے متاثر ہونے کے بعد یہ جاننے سے قاصر ہوں کہ انہیں یہ مرض کس کے ذریعہ لگا ہے اور جب یہ پتہ چلنا بند ہوجائے کہ مرض کس کے ذریعہ پھیل رہا ہے تواس وقت اس مرض کو معاشرتی وبائی مرض کے مرحلہ میں شمار کیا جائے گا۔ہندستانی ریاستوں میں اب تک 90 فیصد سے زیادہ مریضوں کے بنیادی کنٹاکٹ یعنی کس کے ذریعہ ان میں مرض منتقل ہوا ہے اس کا پتہ چلایا جاچکا ہے اور یہ مرض انسانوں سے ہی انسانوں میں منتقل ہوا ہے اور ہوا کے ذریعہ اس کے پھیلنے کے کوئی آثاردستیاب نہیں ہوئے ہیں جو کہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس پر کنٹرول حاصل ہے۔
حیاتیاتی ہتھیار
حیاتیاتی ہتھیار کی تیاری کیلئے جنیات اور خلیات ناگزیر ہوتے ہیں اور جب خلیات میسر آجاتے ہیں تو ایسی صورت میں حیاتیاتی ہتھیار کی تیاری آسان ہوتی ہے ۔کورونا وائرس کے آغاز سے ہی دنیا بھر میں یہ بحث جاری ہے کہ کورونا وائرس کا تذکرہ کئی برسوں سے موجود ہے اور بعض ادویات اور جراثیم کش ادویات پر بھی کورونا کا نام ہے لیکن بیماری کے طور پر اس کا تذکرہ پہلی مرتبہ سنا جا رہاہے۔کورونا وائرس دراصل 1930میں پہلی مرتبہ دیکھا گیا تھا اور اس کے بعد 1940 میں بھی اس کا تذکرہ ہوتا رہایہ ایک عارضۂ تنفس سے متعلق بیماری ہے جو پھیپڑوں پر اثر کرتی ہے ۔اب جس کورونا وائرس کا دنیا کو سامنا ہے وہ بھی پھیپڑوں پر اثر کرتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بیماری نظام مدافعت کو کمزور کرتے ہوئے اس کے جراثیم انسانی جسم میں موجود خلیات کو ہلاک کرنے لگتے ہیں جس کے سبب انسان کے اعضائے رئیسہ متاثر ہونے لگتے ہیں۔مستقبل قریب یعنی سال2010 میں بھی کورونا وائرس کے سبب اموات ہوئی ہیں اور برطانیہ میں اس کا تذکرہ کیا جاتا رہا ہے اور اب دنیا کو جس کورونا وائرس کا سامنا ہے اسے دنیا میں COVID19کا نام دیا گیا ہے اور جب یہ جراثیم موجود تھے تو اس کے ہتھیار کی تیاری کے سلسلہ میں شبہات کا ہونا غیر ضروری ہے بلکہ اس معاملہ میں تحقیق میں شدت پیدا کئے جانے کی ضرورت ہے کیونکہ اگر یہ حیاتیاتی ہتھیار کا حصہ ہے تو دنیا بھر میں لاکھوں افراد کی اموات سے کسے فائدہ ہوگا اس با ت کی جانچ کی جانے سے یہ پتہ لگ سکتا ہے ۔خداکرے یہ کوئی حیاتیاتی جنگ کا حصہ نہ ہو کیونکہ اگر یہ حیاتیاتی جنگ ثابت ہوجاتی ہے تو دنیا میں جتنے ممالک ادویات سازی کی صنعت رکھتے ہیں اور جن ممالک میں جینیاتی خلیات کی تحقیق ہوتی ہے وہ ممالک بھی اس طرح کے پروگرامس پر خفیہ طور پر عمل کرنا شروع کردیں گے اور ان کی تجربہ گاہیں بھی دنیا کی تباہی کا سبب بننے لگ جائیں گی کیونکہ حیاتیاتی ہتھیار کی تیاری پر روک لگانے کیلئے معاہد ہ کے علاوہ کوئی اور ادارہ نہیں ہے۔
عالمی ادارۂ صحت اور امریکہ
عالمی ادارہ ٔ صحت کو امریکہ نے امداد روک دینے کا اعلان ڈونالڈ ٹرمپ کی کوئی سیاسی چال تو نہیں ہے!عالمی ادارہ صحت کو امریکہ کی جانب سے مختلف مدات میں امداد فراہم کی جاتی ہے جن میں پولیو ‘ایڈس‘بنیادی طبی ضروریات کی فراہمی‘ ٹیکہ اندازی ‘تپ دق‘ہنگامی صورتحال پر قابو پانے کے علاوہ وبائی امراض پر قابو پانے کے اقدامات شامل ہیں۔ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے جو ٹاسک فورس تیار کی گئی ہے وہ کورونا وائرس کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لینے کی کوشش کر رہی ہے اور اس کے عالمی معاشی اثرات کے ساتھ دنیا بھر کے ممالک کی جانب سے کئے جانے والے اقدامات کا بھی جائزہ لے رہی ہے اور روزانہ کے اساس پر کی جانے والی پریس کانفرنس کے دوران اس بات کے اشارے دیئے جا رہے ہیں کہ کس طرح سے امریکہ اس مرض پر قابو پانے والوں پر نگاہیں مرکوز کئے ہوئے ہیں لیکن اب تک امریکہ کی جانب سے مشتبہ ممالک کا کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا بلکہ راست عالمی ادارۂ صحت کی امداد کو روکنے کا اعلان کرتے ہوئے یہ کہہ دیا گیا کہ امریکہ کی جانب سے WHO کو وہ امداد فراہم نہیں کی جائے گی جو اب تک کی جاتی رہی ہے اس طرح عالمی ادارہ صحت اپنے سب سے بڑے عطیہ دہندہ سے محروم ہوگیا تو دوسری جانب اقوام متحدہ کی جانب سے ڈونالڈ ٹرمپ کواس بات کے لئے سمجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ موجودہ حالات میں ان کا یہ اقدام دنیا کو مزید تباہی کے دہانے پر لا سکتا ہے اسی لئے اس فیصلہ سے دستبرداری اختیار کی جائے ۔گذشتہ ہفتہ امریکی صدر نے ہائیڈروکسی کلوروکوئین کے حصول کیلئے ہندستان کو دھمکی دی تھی اور بعد ازاں سفارتی لہجہ میں مسئلہ کی یکسوئی کر لی گئی اور اب ایسا ہی محسوس ہورہا ہے کہ عالمی ادارہ صحت کی امداد کو بند کرنے کے اعلان پر بھی از سر نو غور کرتے ہوئے اس اعلان سے دستبرداری اختیار کرلی جائے گی لیکن اس طرح کے اعلانات و دھمکیوں کے ذریعہ ڈونالڈ ٹرمپ کی ٹاسک فورس اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کررہی ہے کہ کون اس قدر طاقتور ثابت ہوسکتا ہے جو امریکہ کو جواب دے لیکن اب تک ایسا ہوا نہیں بلکہ چین کے خلاف دئیے گئے بیانات کو بھی چین کی جانب سے منظم انداز میں جواب دینے کی کوشش کی گئی اور ان الزامات کی سفارتی سطح پر تردید بھی کی جاتی رہی ہے کہ چین کا اس مرض کو پھیلانے سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔شائد امریکہ کی جانب سے مستقبل قریب میں مزید مشتبہ ممالک کے ساتھ اس طرح کی گفتگو کی جائے گی اور اس بات کا اندازہ لگایا جائے گا کہ کون اس قدر طاقتور ہوچکا ہے جو امریکہ کی معاشی حالت اور تباہی کے باوجود اب تک خاموش ہے اور سامنے آنے کیلئے تیار نہیں ہے لیکن امریکہ میں سازشی منصوبوں پر کام کرنے والوں کی جانب سے بھی ان لوگوں کی جانب اشارے کئے جانے لگے ہیں جن کو اب تک عیسائی اپنی غلطیوں کے سبب برداشت کرنے کے نام پر دنیا بھر میں سب سے طاقتور بنانے کا مؤجب بنے ہیں۔
اجتماعی تباہی پر قابو پانے والا سوپر پاؤر
عالمی سطح پر جاری تباہی انسانی کارکردگی ہو یا قدرتی عذاب ہر دوصورتوں میں اللہ کی مرضی کے بغیر ممکن نہیں ہے اسی لئے ان حالات کا نہ صرف باریکی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے بلکہ ان کھلے ہوئے دشمنوں کی حرکتوں ‘ قول و فعل کے علاوہ اس بیماری سے آگاہ کرتے ہوئے اس کا خوف پیدا کرنے والوں کی تاریخ سے بھی واقفیت حاصل کرنے کی ضرورت ہے کہ ان کے تعلقات سابق میں کس سے رہے ہیں اور وہ کن امور پر کام کرچکے ہیں ۔ نیوکلئیر ہتھیار کے استعمال کی صورت میں وہ تمام لوگ لقمۂ اجل بن جائیں گے جو اس کی زد میں آئیں گے لیکن کورونا وائرس کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ صرف ان لوگوں کو نشانہ بنائے گا جو کہ حکمراں طبقہ اور عالمی ادارۂ صحت کے نافرمان ہیں کیونکہ عالمی ادارۂ صحت کی ہدایات پر عمل کرنے کی صورت میں اس مرض سے محفوظ رہنے کی ضمانت دی جا رہی ہے اور یہ دعوی کیاجا رہاہے کہ جب تک اس وائرس سے رابطہ میں نہیں آئیں گے اس وقت تک یہ وائرس آپ کو اپنا شکار نہیں بنائے گا اور یہ وائرس اسی وقت آپ کو اپنا شکار بنائے گا جب آپ ان رہنمایانہ خطوط کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوں گے جو عالمی ادارۂ صحت کی جانب سے مرتب کرتے ہوئے آپ کی اپنی مملکت کے ذریعہ آپ پر نافذ کی گئی ہیں ۔محتاط حیاتیاتی مرض ان نافرمانوں کو نشانہ بنائے گا جو حکومت کے احکامات کی پرواہ کئے بغیر اپنی آزادی اور انسانی حقوق کے نام پر اقتدار سے ٹکر لینے کی کوشش کریں گے کیونکہ کورونا وائرس کوئی نظر آنے والا دشمن نہیں ہے کہ اس پر پتھراؤ یا اس کے خلاف احتجاج سے یہ چلاجائے گا ۔
@infomubashir