مسلم لیگ اور ہندو مہا سبھا کی مشترکہ خصوصیات

   

رام پنیانی

ملک میں آج کل کانگریس کا انتخابی منشور موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ کانگریس قائدین نے موجودہ حالات میں ملک کے دستور، جمہوریت اور سیکولرازم کے ساتھ ساتھ گنگا جمنی تہذیب کو بچانے کے لئے ٹھوس اقدامات کرنے کے وعدے کئے ہیں۔ کانگریس نے اپنے انتخابی منشور کو نیائے پتر (وعدہ انصاف) کا نام دیا ہے جس میں بلا لحاظ مذہب و ملت، رنگ و نسل، ذات پات تمام ہندوستانیوں سے انصاف اور مساویانہ سلوک کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اس انتخابی منشور میں ملک کی معیشت کو مستحکم کرتے ہوئے تمام کو مساویانہ مواقع فراہم کرنے کا بھی وعدہ کیا گیا ہے۔ جاریہ ماہ کے اوائل میں (4 اپریل 2024 کو انتخابی منشور جاری کیا گیا) یہ انتخابی منشور جاری کیا گیا جس کے ساتھ ہی حکمراں بی جے پی کے خیموں میں ہلچل مچ گئی۔ نیائے پتر میں ملک کی سب سے قدیم پارٹی نے ذات پات پر مبنی مردم شماری، موجودہ پچاس فیصد تحفظات کی حد بڑھانے، بیروزگار نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی، انٹرن شپ اور غریبوں کی مالی مدد کے بھی وعدے کئے ۔ کانگریس کے انتخابی منشور میں خواتین، قبائیلیوں، دلتوں، او بی سیز (دیگر پسماندہ طبقات کسانوں اور طلباء، نوجوانوں کے ساتھ بھرپور انصاف کرنے کی بات کی گئی ہے۔ کانگریس کے ترجمانوں میں سے ایک ترجمان کا کہنا ہیکہ انتخابی منشور میں ایسے اقدامات کرنے کا اعلان کیا گیا ہے جو نریندر مودی کی زیر قیادت بی جے پی کے دس سالہ دور حکومت میں معاشرہ کے مختلف طبقات کے ساتھ کی گئی ناانصافیوں کا خاتمہ کریں گے۔ انتقامی سیاست کو فروغ دیا گیا۔ گنگا جمنی تہذیب سے متعلق ہندوستانی روایات کو ناقابل یقین حد تک نقصان پہنچایا گیا لیکن حسب توقع وزیر اعظم مسٹر نریندر مودی نے کانگریس کے انتخابی منشور پر یہ کہتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنایا کہ اس میں مسلم لیگ کا عکس نظر آتا ہے اور مابقی حصہ بائیں بازو کے نظریہ سے بھرا ہوا ہے۔ نریندر مودی کی اس تنقید کے ساتھ کسی کے بھی ذہن میں فوری طور پر ہندوقوم پرستی کی آئیڈیالوجی ابھر آتی ہے، آر ایس ایس کے دوسرے سرنچالک ایم ایس گولوالکر نے اپنی کتاب بنچ آف تھاوٹس میں ہندوستان کو درپیش خطرات کے حوالے سے لکھا ہے کہ مسلمان، عیسائی اور کمیونٹس تین داخلی خطرات ہیں۔ ان میں سے دو خطرات کو بی جے پی مختلف سطحوں پر واضح کرتی رہی ہے اور اب بھی اس کا اعادہ کررہی ہے۔ بی جے پی کا سب سے اہم ہتھیار مسلم لیگ کا انتخابی منشور کا لائحہ عمل ہے جو اس نے 1937 کے اسمبلی انتخابات میں اپنایا تھا جو مسلم شناخت کے مطالبہ کے اطراف گھوما کرتا تھا اور اس میں کمزوروں کے لئے اثباتی اقدامات کی کبھی بات نہیں کی گئی تھی۔ مسلم لیگ کا لائحہ عمل اس لائحہ عمل اور پالیسیوں کے برعکس اور متضاد تھا جو ہندو قوم پرستوں نے اپنایا تھا۔ ایک جانب وزیر اعظم نریندر مودی نے کانگریس کے انتخابی منشور کے بارے میں تنقید کرتے ہوئے پرزور انداز میں کہا کہ یہ مسلم لیگ کے انتخابی منشور کی طرح ہے۔ دوسری طرف صدر کانگریس ملک ارجن کھرگے نے اس تنقید کا پوری سنجیدگی سے جواب دیا اور بی جے پی قائدین کو ان کے آبا و اجداد ان کے رہنماؤں کے مسلم لیگ کے ساتھ ساز باز کے کئی واقعات یاددلائے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر سچائی اور حقیقت کیا ہے، کیا ان مذہبی قوم پرستوں مسلم لیگ اور ہندو مہاسبھا، آر ایس ایس کیا مشترکہ باتیں شیر کرتی تھیں، یعنی دونوں مذہبی قوم پرستوں میں مشترکہ چیز کیا تھی۔ نوآبادیاتی ہندوستان میں جہاں انگریزوں کا تسلط تھا صنعتیانے کے عمل، عصری تعلیم عدلیہ، انتظامیہ اور مواصلات جیسے ہی فروغ پانے لگے تھے سماجی طبقات نمودار ہونے لگے، منظرعام پر آنے لگے، کام کرنے والے طبقات (ورکنگ کلاسس) عصری تعلیم سے لیس کلاسیس اور جدید صنعتوں نے ملک میں معاشرہ میں ایک نئی سوچ و فکر کے فروغ کا کام کیا۔ قدیم حکمراں، زمیندار اور راجہ رجواڑے و نوابوں نے ان تبدیلیوں کو خود کے لئے خطرہ سمجھا کیونکہ اس سے ان کی سماجی و سیاسی اقتصادی اجارہ داری زوال سے دوچار ہونے لگی تھی۔ ابھرتے ان طبقات کے نمودار ہونے سے نارائن میگھ جی لکھانڈے اور کامریڈ سنگارویلو و دیگر کی قیادت میں مزدوروں کی تنظیمیں قائم اور فروغ پانے لگیں اور ایسے ہی ابھرتے گروپوں کا سیاسی اعتبار خیال انڈین نیشنل کانگریس کے قیام کا باعث بنا۔ ان کے بنیادی اقدار میں آزادی، مساوات اور اخوت کو سب سے زیادہ اہمیت دی گئی۔
آر ایس ایس کے غیر سرکاری ترجمان آرگنائزر نے 14 اگست کو اپنے شمارہ میں کچھ یوں لکھا ’’ہندوستان میں صرف ہندو ہی ایک قوم بناتے ہیں اور قومی ڈھانچہ کی تعمیر اسی محفوظ اور مضبوط بنیاد پر کی جانی ضروری ہے۔ قوم و ملک کی تعمیر خود ہندوؤں کی جانب سے ہندو روایات تہذیب و ثقافت، نظریات اور امنگوں و خواہشات پر کی جانی چاہئے۔
مسلم لیگ اور ہندو مہاسبھا نے بنگال، سندھ اور این ڈبلیو ایف پی میں 1939 کے دوران مشترکہ وزارتیں قائم کی وہ سندھ ہی تھا جہاں مسلم لیگ نے اسمبلی میں قرارداد پاکستان منظور کی جبکہ اس موقع پر ہندو مہاسبھا کے ارکان خاموش بیٹھے ہوئے تھے۔ بعد میں نیتاجی سبھاش چندر بوس نے جرمنی سے اپنے ایک نشریہ میں مسلم لیگ اور ہندو مہاسبھا سے انگریزوں کے خلاف تحریک میں شامل ہونے کی درخواست کی لیکن افسوس ان دونوں نتنظیموں (مسلم لیگ اور ہندو مہاسبھا) نے انگریزوں کے خلاف 1942 کی بڑے پیمانے پر شروع کردہ عوامی تحریک سے خود کو دور رکھا۔ ساورکر نے انگریزوں کی جنگی کوششوں میں بہت ہی سرگرم انداز میں تائید و حمایت کی۔ انہوں نے پرزور اندازمیں کہا کہ ملک کے ہر تاون اور ہر گاؤں میں ہندو مہاسبھا کی ہر شاخ کو برطانوی فوج بحریہ اور فضائیہ اور جنگی جہازوں و طیاروں کی مینوفیکچرنگ میں ہندوؤں کو زیادہ سے زیادہ بھرتی کروانے میں سرگرم ہو جانا چاہئے۔ ایسے وفت جہبکہ سبھاش چندر بوس کی آزاد ہند فوج برطانوی فوج کے خلاف لڑرہی تھی ساورکر برطانوی فوج کی مدد کررہے تھے۔ کوئی بھی اس بات کو محسوس کرسکتا ہے کہ اس وقت ہندو مہاسبھا اور مسلم لیگ دونوں نے انگریز سامراج کے مفاد میں کام کیا۔ نیتاجی سبھاش چندر بوس ان دونوں تنظیموں کی فرقہ وارانہ سیاست کے سخت خلاف تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ہندو مہاسبھا اور مسلم لیگ نے انگریزوں کے خلاف جدوجہد میں شامل ہونے سے متعلق سبھاش چندر بوس کی اپیل کو نظرانداز کردیا تھا۔ بنگال میں مسلم لیگ کے ساتھ مشترکہ وزارت کا حصہ رہے شیام پرساد مکرجی نے برطانوی وائسرائے کو 1942 کی تحریک پر کنٹرول کے لئے مکتوب لکھا تھا جس میں انہوں نے وائسرائے سیوعدہ کیا تھا کہ بنگال میں اس تحریک کو دبا دیا جائے گا اور اسے کچلنے کو یقینی بنایا جائے گا۔