مسلم ممالک کے اعتراض پر ٹونی بلیئر کو’غزہ امن کونسل‘سے ہٹا دیا گیا

   

غزہ، 9 دسمبر (یو این آئی) عرب اور مسلم ممالک نے سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کے کردار پر اعتراض کیا، جس کے نتیجے میں انہیں غزہ کے انتظام کے لیے تجویز کردہ ‘امن کونسل’ سے ہٹا دیا گیا ہے ، اب متوقع ہے کہ وہ اس کے بجائے ایک چھوٹی ایگزیکٹو کمیٹی میں شامل ہوں گے ۔ یہودی اخبار یدیعوت احرونوت نے رپورٹ کیا کہ ٹونی بلیئر اب اس کونسل کی رکنیت کے لیے زیرِ غور نہیں ہیں، جس کی تجویز امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے دی تھی، یہ معلومات ان لوگوں سے حاصل ہوئی ہیں جو بات چیت سے واقف ہیں۔ ٹونی بلیئر واحد عوامی طور پر منسلک شخصیت تھے ، جب ٹرمپ نے غزہ کی جنگ کے بعد انتظام کے لیے اپنے 20 نکاتی منصوبے کا اعلان کیا تھا۔ اس وقت ٹرمپ نے بلیئر کو ایک مضبوط امیدوار قرار دیتے ہوئے ان کی تعریف کی تھی۔ بلیئر نے بھی اس کونسل میں خدمات انجام دینے پر آمادگی ظاہر کی تھی، جس کی صدارت ٹرمپ کرنا چاہتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے ، ہفتے کے دن ریاستی ٹی وی چینل ‘کان’ نے اطلاع دی تھی کہ اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے بلیئر کے ساتھ ایک خفیہ ملاقات کی تھی، جس کا مقصد غزہ میں آنے والے دنوں کے انتظامات پر بات چیت کرنا تھا۔ یہ ملاقات علاقے کے ‘بعد کے دنوں’ کی منصوبہ بندی سے متعلق وسیع اقدامات کا حصہ تھی۔
ایران کے ‘پریس ٹی وی’ نے رپورٹ کیا کہ حماس کے عہدیدار طاہر النونو نے کہا کہ بلیئر کو ممکنہ طور پر ہٹانے کی رپورٹس حماس کی اس بات سے ہم آہنگ ہیں کہ وہ بار بار ثالثوں سے یہ مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ انہیں غزہ سے متعلق کسی بھی ادارے میں شامل نہ کیا جائے ۔ تاہم، فنانشل ٹائمز کی رپورٹ میں کہا گیا کہ بلیئر اب بھی کسی کم مرکزی کردار میں رہ سکتے ہیں، لیکن بلیئر کے دفتر نے تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ النونو نے دوہرایا کہ یہ تحریک ‘طویل مدتی جنگ بندی کے لیے تیار ہے ، بشرطیکہ اسرائیلی حکومت مکمل جنگ بندی کی تمام شرائط کو پورا کرے ، جسے تل ابیب نے اب تک واضح طور پر کئی بار توڑ دیا ہے ، حالاں کہ اکتوبر کے شروع میں جنگ بندی کا معاہدہ ہوا تھا۔ حماس کے عہدیدار نے یہ بھی زور دیا کہ کسی بھی منصوبے میں بین الاقوامی فورس کے ذریعے فلسطینی مزاحمتی گروہوں کو زبردستی ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنا ‘مسترد کیا گیا ہے اور کبھی زیرِ بحث نہیں آیا’۔ انہوں نے کہا کہ حماس کو غزہ میں ممکنہ بین الاقوامی موجودگی کے مینڈیٹ کے بارے میں وضاحت نہیں ملی، اور یہ بھی نوٹ کیا کہ تحریک کا ماننا ہے کہ ممالک اس مشن پر متفق نہیں ہوں گے ۔