مسلمانوں کو ذریعہ معاش پر توجہ کی ضرورت

   

رام پنیانی
نصیرالدین شاہ نے پولیس انسپکٹر سبودھ کمار سنگھ کی ہلاکت پر ’کاروانِ محبت‘ کو انٹرویو میں اپنے غم و غصہ کا اظہا رکیا ہے۔ نصیرالدین کے انٹرویو نے ہندوستان میں بالخصوص مذہبی اقلیتوں کی عدم سلامتی کے مسئلے کو اُجاگر کیا ہے۔ جہاں اس بات نے قوم کو یاددہانی کرائی کہ ہندوستان گزشتہ چند سال کے دوران کس سمت میں بڑھتا رہا ہے، وہیں نصیرالدین کے تاثرات پر سماج کے عدم روادار گوشوں کی طرف سے برہمی کا ردعمل ظاہر ہوا، جنھوں نے انھیں (نصیرالدین کو) مختلف ’ناموں‘ سے ’نوازنے‘ اور سوشل میڈیا میں اُن کی ہتک کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس دوران آر ایس ایس کے ترجمان ’آرگنائزر‘ نے نصیرالدین شاہ کے کزن سید رضوان احمد کا انٹرویو شائع کیا۔ احمد کا تعارف اسلامی اسکالر کے طور پر کیا گیا۔ احمد کا انٹرویو میں کہنا ہے کہ مسلمان غیرمحفوظ صرف وہی اقوام میں ہیں جہاں وہ اکثریت میں ہیں، اور یہ کہ ہندوستان میں عدم رواداری مسلمانوں کی دیگر مذاہب کے ساتھ پُرامن بقائے باہم کے معاملے میں عدم ہم آہنگی کا نتیجہ ہے۔ وہ ہندوستانی مسلمانوں کو (ہی) اس ملک میں اُن کی زبوں حالی کیلئے موردِالزام ٹھہراتے ہیں کیونکہ وہ شاہ بانو اور کشمیری پنڈتوں جیسے معاملوں میں فعال رول ادا کرنے میں ناکام ہوگئے۔ یہی سبب ہے کہ ہندوؤں کو محسوس ہونے لگا کہ ان سے بے اعتنائی برتی جارہی ہے۔ اُن کے مطابق عدم رواداری نقلی سکیولرس اور عدم روادار مسلمانوں کا نقلی بیان ہے۔

جہاں تک مسلمان اور دیگر مذہبی اقلیتوں کا معاملہ ہے اُن کی زبوں حالی کا محاسبہ کرنا اچھی بات ہے۔ مظلومیت کا احساس رکھنا درست نہیں ہے۔ لیکن کیا ہم وسیع تر سیاسی آفاقی رجحان کو اس طرح سطحی انداز میں سمجھ سکتے ہیں، جہاں مسلمان خود اُن کی زبوں حالی کیلئے ذمے دار قرار دیئے جاتے ہیں؟ کیا ہم ہندوؤں کو یکساں کمیونٹی کے طور پر پیش کرسکتے ہیں جو یکساں مسلم برادری کے خلاف نبردآزما ہے؟ عالمی سطح پر یہ درست ہے کہ مغربی ایشیا کے اکثر مسلم ملکوں میں خانہ جنگی اور زیادہ عدم سلامتی دیکھنے میں آرہے ہیں۔ ہم یہاں یہ بھی نوٹ کریں کہ جہاں ہندوستان کی طرف سے ہم پاکستان کو دہشت گردانہ حرکتوں کیلئے موردِالزام ٹھہراتے ہیں، وہیں بے قصور شہریوں کی اموات کی تعداد ہندوستان سے کہیں زیادہ پاکستان میں، اور یہ نہ بھولئے کہ پاکستان نے اپنی سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کو دہشت گردانہ حملے میں کھویا۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ خانہ جنگی، جنگیں اور دہشت گردانہ حملے تیل کی دولت سے مالامال خطے میں زیادہ ہوتے رہے ہیں۔ اس خطے میں مجاہدین، القاعدہ اور طالبان کا اسی ترتیب میں اُبھرنا ان علاقوں میں دہشت گردانہ حرکتوں اور تشدد کی شروعات کا موجب بنا۔ کیا یہ اسلام کے سبب ہوا ہے؟ کیوں یہ رجحان سرد جنگ کے دَور یا اس سے قبل نہیں تھا؟ مغربی ایشیا میں تشدد کو بنیادی طور پر تیل کی دولت پر کنٹرول حاصل کرنے کی امریکی پالیسی کے ذریعے بڑھاوا دیا جاتا رہا ہے۔ افغانستان پر روسی اجارہ داری کے زمانے میں امریکہ خود اپنی آرمی بھیجتے ہوئے اس کو زائل کرنے سے قاصر تھا کیونکہ امریکی فوج ویتنام جنگ میں ذلت آمیز شکست کے سبب اپنا حوصلہ ٹوٹ جانے پر کراہ رہی تھی۔
امریکہ نے عیارانہ چالوں کے ذریعے ان خطوں میں کٹرپسند گروپوں کو فروغ دیا، پاکستان کے چند مدرسوں میں مسلم نوجوانوں کی ذہن سازی پر توجہ دی اور اس عمل کے ذریعے اُبھر آنے والے گروپوں کو زبردست فنڈز (آٹھ ہزار ملین ڈالر) فراہم کئے اور بھاری طور پر مسلح کیا (سات ہزار ٹن اسلحہ بشمول عصری ہتھیار)۔ اس طرح تشدد، دہشت گردی کے بیج بوئے گئے جو اس خطے میں عدم سلامتی کا موجب بنے۔

محمود مدنی کی کتاب Good Muslim-Bad Muslim اس طریقۂ کار کو ٹھیک ٹھیک بیان کرتا ہے جسے ’سوپر پاور‘ نے دہشت گردانہ گروپوں کو اُبھارنے کیلئے استعمال کیا۔ زخموں پر نمک ڈالنے کی طرح 2001ء میں 9/11 کے ’ٹوئن ٹاور‘ حملے کے بعد امریکی میڈیا نے فقرہ ’اسلامی دہشت گردی‘ کو خوب پھیلایا اور عالمی سطح پر اسلام سے خوف (اسلاموفوبیا) کی بنیاد رکھی۔ اکثر مسلم ممالک کی دولت یعنی تیل اُن کیلئے سب سے بڑی رکاوٹ بن گئی!
ہندوستان میں اسلام عرب تاجروں کے ذریعے آیا اور بعد میں کئی لوگوں نے اسلام قبول کیا جس کی اہم وجوہات میں ذات پات کے نظام کے ظلم و ستم سے بچنے کی خواہش رہی۔ یاد کیجئے کہ مسلم بادشاہوں جیسے اکبر نے بین مذہبی ربط و ضبط کو فروغ دیا اور حتیٰ کہ سب سے زیادہ تنقیدوں کے شکار اورنگ زیب کے کئی اعلیٰ افسران ہندو تھے۔ ہندوستان میں جہاں یہ تاثر پیدا کیا جارہا ہے کہ مسلمان عدم روادار ہیں، وہیں حقیقت ہے کہ قرونِ وسطی کے دوران ہندو۔مسلم کے باہمی تال میل نے گنگا جمنا تہذیب پیدا کی، جسے جواہر لعل نہرو کی ’ڈسکوری آف انڈیا‘ میں اچھی طرح پیش کیا گیا اور اس کتاب پر مبنی شیام بنیگل کے ناقابل فراموش سیرئیل ’’بھارت کی کھوج‘‘ میں خوبصورتی سے ڈھالا گیا ہے۔
تحریک آزادی کے دوران مسلمانوں کی اکثریت انڈین نیشنل کانگریس کے ساتھ رہی اور وہ تحریک آزادی میں مساوی شراکت دار رہے۔ اس بات کی اچھی طرح عکاسی مسلم مجاہدین آزادی جیسے مولانا ابوالکلام آزاد، خاں عبدالغفار خاں، اور رفیع احمد قدوائی و دیگر کی شکل میں ہوتی ہے۔ تقسیم ہند برطانوی سامراج کی شاطرانہ چال رہی تاکہ ہندوستان کو کمزور کیا جائے اور جنوبی ایشیا میں پاکستان کی شکل میں تابع مملکت قائم کی جائے۔ اس موقع پر فرقہ پرستی کا زہر فرقہ پرستانہ تنظیموں جیسے مسلم لیگ؛ ہندو مہاسبھا اور آر ایس ایس کی طرف سے پھیلایا گیا۔ سردار پٹیل نے تو یہاں تک کہا کہ آر ایس ایس کے پھیلائے گئے فرقہ پرستی کے زہر کے سبب بابائے قوم مہاتما گاندھی کا قتل پیش آیا۔
بعدازاں بڑھتے فرقہ وارانہ تشدد پر بے قصور مسلم نوجوانوں کو دہشت گردانہ حرکتوں کے بہانے گرفتار کیا جانے لگا، پھر گائے۔بیف کے نام پر لنچنگ نے زبردست عدم سلامتی پیدا کردی۔ ہم بڑھتی عدم سلامتی اور الگ تھلگ کردینے کے رجحان میں اضافہ، بڑھتی بنیادپرستی اور برقعہ کے استعمال میں اضافہ و دیگر کے درمیان باہمی تعلق دیکھ سکتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ مسلم کمیونٹی کی طرف سے غلطیاں نہیں کی گئی ہیں۔ شاہ بانو کیس میں سپریم کورٹ فیصلے کی مخالفت میں کھڑے ہونے والے مسلم برادری کے گوشے نے ساری کمیونٹی کو پیچھے ڈھکیل دیا۔ مسلم قیادت کے گوشے کا بابری مسجد انہدام کو اُجاگر کرتے رہنا بھی اس کمیونٹی کے بڑے گوشے کیلئے اچھا نہیں رہا ہے۔ بلاشبہ، بابری مسجد مسئلہ یہ ظاہر کرنے کیلئے گھڑا گیا کہ یہی لارڈ رام کی جائے پیدائش ہے، پھر بھی مسلم قیادت کو ایسے علامتی مسائل سے کہیں زیادہ معاش سے متعلق مسئلوں پر زیادہ توجہ مرکوز کرنا چاہئے۔ مسلم قیادت کو حق و انصاف کے مسائل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اب غالب فرقہ وارانہ موضوع یہ ہے کہ متذکرہ بالا نام نہاد اسلامک اسکالر کی دانست میں مسلم برادری کی زبوں حالی کی تمام تر ذمہ داری خود مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے! سچ سے آگے کچھ نہیں ہوسکتا، یہ ایسا ہی ہے کہ مظلوم کو ہی جرم کیلئے موردِ الزام ٹھہرایا جائے!
ram.puniyani@gmail.com