پی چدمبرم
سابق مرکزی وزیر داخلہ
پارلیمنٹ نے 1995 ء میں وقف ایکٹ 1954 ء کو منسوخ کرتے ہوئے یعنی اس قانون کی تنسیخ کرتے ہوئے ایک نیا وقف ایکٹ ؍ قانون منظور کیا تھا اور اس قانون میں سال 2013 ء میں بڑی ترامیم کی گئیں میں نے ان 57 ترامیم کی گنتی کی ہے ۔ اُس قانون کو منظور ہوئے بمشکل12 سال گذرے ہیں اگر حصہ داروں کی شکایت کی بنیاد پر حکومت یہ نتیجہ اخذ کرتی کہ ترامیم ضروری ہیں یا مناسب ہیں تو وہ ترمیمی بل کے ذریعہ اصلاحات لاسکتی تھی تاہم قانون کی اصلاح وہ نہیں جو وقف ( ترمیمی ) بل 2025 ء کرتا ہے اس کے برعکس حکومت نے موجودہ قانون کی دھجیاں اُڑائی ہیں اور اسے اب ناقابل پہچان بنادیا ہے ۔
مذاہب مساوی نہیںہیں : کسی بھی ہمہ مذہبی جمہوری ملک کا پہلا اُصول یہ ہے کہ تمام مذاہب برابر ہیں اور مذہبی اداروں کا نظم مذہبی فرقہ سے تعلق رکھنے والے افراد کے ہاتھوں میں ہی ہونا چاہئے ۔ ہندوستان میں جہاں عوام کی اکثریت ہندو مذہب کے ماننے والوں کی ہے یہ اُصول ہندو مذہبی اور خیراتی اداروں پر بھی لاگو ہوگا یا اس کا اعلان ہوگا ’’اقلیتی ‘‘ ( اقلیتوں کے ) مذاہب کی صورت میں بھی دستور ہند کے مطابق مذکورہ اُصول کا ہی اطلاق ہوگا۔ دستور ہند کی دفعہ 26 کچھ یوں کہتی ہے ’’مذہبی اُمور کے نظم کی آزادی ۔ امن عامہ ، اخلاقیات اور صحت کے تابع ہر مذہبی فرقہ یا اُس کے کسی بھی طبقہ کو یہ حق حاصل ہوگا ‘‘ ۔
(a مذہبی و خیراتی مقاصد کیلئے ادارے قائم کرنے اور اُن کے انتظام ( نظم ) کا حق ۔ (b مذہب کے معاملات میں خود اپنے اُمور چلانے کا حق ۔ (c منقولہ و غیرمنقولہ جائیداد کو اپنی ملکیت میں رکھنے اور حاصل کرنے کا حق اور (d قانون کے مطابق اس قسم کی جائیداد کے نظم کا حق ۔
یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ ہندو مذہبی اور خیراتی اداروں کو صرف ہندو ہی چلاتے ہیں یعنی ان اداروں کے انتظامات کسی غیرہندو کے ہاتھوں میں نہیں ہوتے ۔ کوئی بھی ایسا مشورہ نہیں دے گا یا ایسے مشورہ کو قبول نہیں کرے گا کہ ہندو منادر اور مذہبی ؍ خیراتی ادراوں کے انتظام یا نظم میں غیرہندوؤں کا کوئی کردار ہوسکتا ہے (حقیقت میں دیکھا جائے تو چیف منسٹر آندھراپردیش این چندرا بابو نائیڈو نے مطالبہ کیا تھا کہ غیرہندو افراد کا تروپتی ترملا دیوستھانم کے ملازمین کی حیثیت سے بھی تقرر نہ کیا جائے ۔ ان کے مطالبہ کے بعد تروملا تروپتی دیوستھانم میں خدمات انجام دینے والے غیرہندو ملازمین کو دوسرے محکموں میں منتقل کردیا گیا ) اسی طرح کے خیالات دوسرے مذہب کے ماننے والے کروڑوں لوگ رکھتے ہیں ، فی الوقت ہندو مت ، عیسائیت ، سکھ مت یا بدھ مت کے مذہبی مقامات یا مذہبی ؍ خیراتی اداروں میں دوسرے مذہب کے ماننے والوں کو کوئی بھی کردار ادا کرنے کی اجازت نہیں ہے ۔
اُصول کو ہی اُلٹ دیا : وقف ایکٹ 1995 کے تحت اس اُصول کو پورے غوروفکر سے دیکھا گیا ۔ وقف کا مطلب کسی بھی فرد کی جانب سے کسی بھی پاکیزہ نیک مذہبی یا خیراتی مقصد کیلئے اپنی جائیداد یا املاک کو مستقل طورپر وقف کردینا ہے اور ان جائیدادوں ؍ املاک کا مسلم قانون ( فقہ ) کے ذریعہ تسلیم شدہ ہونا ضروری ہے ۔ عدالتوں نے ایک ایسے وقف کو تسلیم کیا ہے جو ایک غیرمسلم نے بنایا اور اس کی ڈھیر ساری مثالیں ہیں۔ مزید براں یہ کہ موجودہ قانون کے تحت ایک وقف بحیثیت مجموعی آزاد اور خودمختار ہے اور ریاست میں اعلیٰ ترین ریگولیٹری باڈی وقف بورڈس ہیں جو ارکان اور چیف ایگزیکٹیو آفیسر پر مشتمل ہوتے ہیں اور وقف بورڈس کے تمام ارکان اور چیف ایکزیکٹیو آفیسر کا مسلمان ہونا ضروری ہوتا ہے ۔ بورڈ کو اپنے اختیارات کے استعمال میں وقف کی ہدایات ، وقف کے مقاصد اور وقف کے کسی بھی استعمال یا رواج کے مطابق کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ وقف ٹریبونل واحد ادارہ ہے جس کے پاس وقف کے بارے میں عدالتی دائرہ اختیار ہے ۔ ٹریبونل ایک عدالتی ادارہ ہے جس کی صدارت یا قیادت ضلعی جج کرتا ہے لیکن متنازعہ ترمیمی بل یہ وقف کے قابل احترام اصولوں اور طریقوں کے بالکل برعکس اور متضاد ہیں۔
( I کوئی بھی شخص اپنی جائیداد ؍ املاک وقف نہیں کرسکتا یا اپنی جائیداد کو موقوفہ نہیں بناسکتا ۔ صرف وہ شخص اپنی جائیداد ؍ املاک وقف کرسکتا ہے یا عطیہ دے سکتا ہے جو یہ ظاہر کرے کہ وہ کم از کم 5 برسوں سے دین اسلام پر عمل پیرا ہے ۔ وہ ایسا کیوں ظاہر کرے اور کوئی بھی شخص یہ کیسے بتاسکتا ہے کہ وہ دین اسلام پر عمل پیرا ہے ؟ اس بارے میں حکومت کے پاس کوئی جواب نہیں ہے ۔
( II وقف کرنے والے کیلئے یہ بھی ظاہر کرنا ضروری ہے کہ اپنی جائیداد ؍ املاک وقف کرنے کے پیچھے کوئی تدبیر یا اختراع نہیں ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر تدبیر کیا ہے ؟ اس کا جواب بھی حکومت کے پاس نہیں ہے۔
( III ترمیم شدہ بل کے مدون ہونے کے بعد وقف جائیداد استعمال کرنے والا کوئی بھی شخص جائیداد کو وقف نہیں بتاسکتا ۔ (حالانکہ عدالتیں تسلیم کرتی ہیں ) آخر کیوں ؟ اس کا بھی حکومت کے پاس کوئی جواب نہیں ہے ۔
( IV اگر موقوفہ جائیداد کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ سرکاری املاک ہے تب ایک سینئر سرکاری عہدیدار اس امر کی تحقیقات کرے گا کہ آیا یہ موقوفہ اراضی ہے یا پھر سرکاری زمین ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ایک سرکاری عہدیدار موقوفہ یا سرکاری زمین ہونے کا تعین کرے گا اور وہ ریونیو ریکارڈ کو درست کرے گا ۔ کیا یہ اپنے آپ میں جج کا معاملہ نہیں ہوگا ۔ یعنی ایک سرکاری عہدیدار وہ کام کرے گا جو ایک جج انجام دیتا ہے ( اس سے قیمتی اوقافی اراضیات کو سرکاری قرار دیئے جانے کے خدشات پائے جاتے ہیں ) ۔ اس کا بھی حکومت کے پاس کوئی جواب نہیں ہے ۔
(v) موجودہ قانون میں واضح طورپر کہا گیا کہ ریاستی وقف بورڈس کے ارکان کا مسلمان ہونا ضروری ہے لیکن پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں منظور وقف ایکٹ 2025 ء میں اس شرط کو حذف کردیا گیا ۔ ایسے میں اب ریاستی وقف بورڈس میں ارکان کی حیثیت سے غیرمسلموں کو شامل کیا جائے گا ۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو ایک فتنہ انگیز حکومت اس بات کو یقینی بناسکتی ہے کہ ارکان کی اکثریت غیرمسلموں کی ہو ۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا یہ رجعت پسند گنجائش جو قانون میں فراہم کی گئی اس کا دیگر مذاہب کے زیرانتظام مذہبی اداروں میں بھی اطلاق ہوگا ۔ حکومت دوسرے مذاہب کے اداروں میں بھی (غیرہندو ، غیرعیسائی ، غیرسکھ ، غیربدھ وغیرہ ) ارکان کو شامل کرے گی ؟ کیا حکومت ہندو مذہبی ؍ خیراتی اداروں میں غیرہندوؤں؟کو شامل کرے گی ؟ حکومت کے پاس اس طرح کے سوالات کے جوابات بھی نہیں ہے ؟
(VI) جو Limitation Act ہے اس کا وقف جائیدادوں کے دوبارہ حصول یا Recovery کیلئے اطلاق نہیں ہوگا ، لیکن اب اس کا اطلاق ہوگا ۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ترمیم قابضین کو تحفظ فراہم نہیں کرے گی ، کیا یہ ترمیم قابضین کا تحفظ نہیں کرے گی جو ملکیت کا دعوی کرتی ہیں ؟ اس سوال کا بھی حکومت کے پاس کوئی جواب نہیں ہے ۔
(VII) وقف ( ترمیم ) بل کا جو نمونہ ہے وہ منفرد ہے ۔ آیا اس ماڈل کو اپنایا جائے گا اور خاص طورپر دیگر مذہبی برادریوں کے اداروں سے متعلق قوانین میں ترمیم کی جائے گی ؟ اس سوال کا جواب بھی حکومت کے پاس نہیں ہے ۔
اگر ہم موجودہ وقف ترمیمی قانون کا جائزہ لیتے ہیں یا 2014 ء سے بی جے پی حکومت کے اقدامات پر غور کرتے ہیں تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ 2014 ء میں اقتدار حاصل ہونے کے ساتھ ہی بی جے پی نے کسی نہ کسی بہانے مسلمانوں کو ستایا ( ڈرایا دھمکایا ) ان پر حملے کئے اور اس کی شروعات بی جے پی کی زیرقیادت این ڈی اے حکومت نے این آر سی ؍ سی اے اے (شہریت ترمیمی قانون ) سے کی ، آپ کو یاد دلادیں کہ یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کا پہلا تجربہ بی جے پی زیرقیادت ریاست اُتراکھنڈ میں کیا گیا ۔ حد تو یہ ہے کہ ہمارے ملک کی واحد مسلم اکثریتی ریاست جموں و کشمیر کو تقسیم کرکے اسے مرکزی زیرانتظام علاقہ کے موقف تک محدود کردیا گیا ۔ 2019-20 تا 2023-24 پانچ برسوں میں اقلیتوں کیلئے بجٹ میں 18274 کروڑ روپئے مختص کئے گئے لیکن اس میں سے 3574 کروڑ روپئے خرچ ہی نہیں کئے گئے ۔ یہی نہیں بلکہ اقلیتی طلبہ کو دی جانے والی کم از کم 5 تعلیمی امدادی اسکیمات بشمول مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ کو ختم کردیا گیا جبکہ وقف ترمیمی بل مسلم برادری پر ایک اور حملہ ہے جس سے حکومت کی بدنیتی کا اندازہ ہوتا ہے ۔ اگر دیکھا جائے تو 2024 ء کے عام انتخابات میں بی جے پی کو (240 حلقوں میں کامیابی ) سے کچھ نہیں بدلا ہے ۔ بی جے پی ہر حال میں اپنے ایجنڈہ کو آگے بڑھارہی ہے ۔