پروفیسر اپوروانند
یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی کہ ملک میں مسلمانوں سے ناانصافیاں ہورہی ہیں۔ ان کے ساتھ تعصب و جانبداری برتی جارہی ہے، امتیازی سلوک روا رکھا جارہا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ان کے مکانات، دکانات کو بلڈوزروں کے ذریعہ زمین کے برابر کیا جارہا ہے۔ ان حالات میں غیر مسلم بھی مسلمانوں کی تائید و حمایت میں آواز اُٹھارہے ہیں جو ایک اچھی بات ہے لیکن مسلمانوں کے حق میں غیر مسلم مرد و خواتین کے کچھ کہنے سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کرنا چاہئے کہ مسلمانوں کو اپنے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے یا اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں، تعصب و جانبداری کے خلاف تن تنہا آواز نہیں اُٹھانی چاہئے۔ ملک کے موجودہ ماحول میں یہ ضروری ہوگیا ہے کہ مسلمانوں کے کاز کے لئے ہندو اُٹھ کھڑے ہوں اور ہندوؤں کے کاز ے لئے مسلمان آواز اُٹھائیں تاہم یہاں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں صرف اور صرف مسلمان پریشان ہیں۔ ان کے ساتھ ہی اکثر ناانصافیوں و دیگر جرائم کا ارتکاب کیا جارہا ہے۔ سب سے بڑی تشویش کی بات یہ ہے کہ ان کے دستوری حقوق بڑی بے شرمی کے ساتھ پامال کئے جارہے ہیں۔ آج اگر کوئی مسلمانوں کی حالت زار کے بارے میں دریافت کرے گا تو اس کا اگر دیانتداری کے ساتھ جواب دیا جائے گا تو وہ یہی ہوگا کہ یہ مسلمان ہی جن کے خلاف منظم ناانصافی کی جارہی ہے۔ ایسے میں خود مسلمانوں کو اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے حرکت میں آنا چاہئے۔ مسلمانوں کے خلاف روا رکھے جارہے معاندانہ سلوک کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش ہی باقی نہیں کہ آج مرکزی حکومت اور کئی ریاستوں میں جہاں مرکز میں برسر اقتدار جماعت کی حکومتیں ہیں اور جو مسلمانوں اور عیسائیوں کے تئیں مخالف نظریہ پر یقین رکھتی ہیں۔ کیا ہم سب گزشتہ دس گیارہ برسوں کے دوران یہ نہیں دیکھ رہے ہیں کہ بی جے پی لیڈران تو دور کی بات ہے ہمارے وزیراعظم خود انتخابی جلسوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کو ہوا دیتے ہیں۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ حال ہی میں مجھے شہری حقوق کے لئے کام کرنے والی ایک تنظیم یا ادارہ کے اجلاس میں شرکت کا موقع ملا، جس شخصیت کو پہلے خطاب کے لئے مدعو کیا گیا اُس نے ادارے اور اس کے منتظمین سے اظہار تشکر کیا۔ اس کے فوری بعد منتظمین کی توجہ اس جانب مبذول کروائی کہ اس اجلاس میں جو لوگ شریک ہوئے ہیں ان میں زیادہ تر مسلمان ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ادارہ کو اس بات کی کوشش کرنی چاہئے کہ اس میں ہندو بھی شرکت کریں ورنہ یہی لگتا ہے کہ یہ جدوجہد صرف مسلمانوں کی ہے پھر ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ دلتوں اور دوسرے ہندوؤں کے شہری حقوق بھی کئی جگہوں پر پامال کئے جارہے ہیں، اس جانب بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بہرحال ان صاحب نے تقریر تو کردی لیکن راقم الحروف ان کی تقریر کے بارے میں مسلسل سوچتا رہا۔ میرے ذہن میں جو سب سے پہلا سوال گردش کرنے لگا وہ یہ تھا کہ صرف مسلمانوں کی موجودگی کی وجہ سے یہ اجلاس نامکمل یا معمول سے ہٹ کر کیوں محسوس ہوتا ہے؟ کیا یہی بات کسی ایسی میٹنگ یا اجتماع کے بارے میں کہی جاسکتی ہے جن میں نناوے فیصد ہندو ہوں؟ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمیں اس میں کچھ بھی عجیب نہیں لگتا نہ ہی حیرانی ہوتی ہے۔ ہم یہ نہیں دریافت کرتے اس میں مسلمان، سکھ یا عیسائی کیوں نہیں ہیں۔ اس کے برعکس کسی میٹنگ یا اجتماع میں 99 فیصد مسلم شرکاء مسلمان ہوں تو ہندو شرکاء کی غیر موجودگی یقینی طور پر کھٹکنے لگتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایسے اجلاس میں مسلمان بات کریں یا کسی قسم کا کوئی فیصلہ لیں تو وہ بھی نامکمل ہوگا کیوں کہ اس میں ہندو شرکاء شامل نہیں ہیں۔ مجھے کچھ سال قبل پٹنہ جانے کا موقع ملا وہاں مجھے ایک لیکچر دینے کے لئے دعوت دی گئی تھی اس وقت لیکچر ہال میں پہنچا تو دیکھا کہ 99 فیصد شرکاء مسلمان ہیں جس کے ساتھ ہی ہمارے ذہن میں جو پہلا خیال عود کر آیا یہ شرکاء نارمل نہیں ہیں بعد میں سوچتا رہا کہ پہلے اس جگہ پر بے شمار اجلاس منعقد ہوئے اور ہم نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ زائداز 99 فیصد شرکاء میں سامعین ہندو ہیں تو ان کی موجودگی غیر معمولی ہے۔ ہاں!! اگر ایک مقام پر زیادہ سے زیادہ مسلمان نظر آجائیں تو یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ کچھ نہ کچھ گڑ بڑ ہے۔ آپ کو یہ بھی بتادوں کہ جس جلسے میں بات ہورہی تھی وہ شہری حقوق کے تحفظ سے متعلق سوال پر تھا۔ آج ملک کے جو حالات ہیں اس بارے میں سب اچھی طرح جانتے ہیں کیا یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ آج ہمارے ملک میں کس طبقہ کے حقوق کی ہر لحاظ سے خلاف ورزیاں ہورہی ہیں۔ کون سے لوگوں کے مکانات اور دکانات پر بلڈوزر چلائے جارہے ہیں؟ کن کی عبادت گاہوں پر جان بوجھ کر حملے کئے جارہے ہیں؟ اور کس کی گرفتاریاں عمل میں لائی جارہی ہیں؟ ہمارے ملک میں سب کو یہ بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ کس کے خلاف قانون سازی کی جارہی ہے؟ نت نئے قوانین بنائے جارہے ہیں؟ یہ بھی سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ مین اسٹریم میڈیا جو خود کو قومی دھارے کا میڈیا کہتا ہے کس کے خلاف مسلسل پروپگنڈہ کررہا ہے؟ یہاں تک کہ کس کے خلاف اس ملک کے کونے کونے میں نسل کشی اور قتل عام کے نعرے بلند کئے جارہے ہیں، جلسے کئے جارہے ہیں، جلوس نکالے جارہے ہیں اور کس کے خلاف مسلسل نفرت انگیز اشتعال انگیز مہم چلائی جارہی ہے؟ دیانتداری سے ان سوالات کے جواب دیں تو ہمیں یہ کہنا پڑے گا کہ یہ مسلمان ہیں جن کے خلاف ایک منصوبہ بند سازش کے تحت منظم ناانصافی کی جارہی ہے۔ یہ بھی ایک انسانی فطرت ہے کہ اگر کسی کی دکان مکان زمین دوز کئے جارہے ہیں، انھیں قتل و غارت گری کا نشانہ بنایا جارہا ہے تو وہ اس کے انسداد کے لئے لازم جوابی کارروائی کرے گا، عدالت سے رجوع ہوگا، قانون کی مدد لے گا، اسے اپنے گرفتار لوگوں کی ضمانت کے لئے وکیل کا انتظام کرنا ہوگا، اس کے لئے رقم جمع کرنی ہوگی۔ ان حالات میں دوسروں کو بھی ان کے ساتھ کھڑے ہونا چاہئے۔ یہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ جو حملوں کا شکار ہیں جو متاثر ہیں وہ اس وقت تک انتظار کرے جب تک کہ دوسرا شخص اس کے ساتھ کھڑا نہ ہوجائے۔ آپ کو بتادوں کہ مذکورہ سوال اس وقت بھی پیدا ہوا تھا جب مسلمان سی اے اے (شہریت ترمیمی قانون) کے خلاف احتجاج کرنے کے لئے منظم ہوئے تھے۔ اُس وقت شہریت ترمیمی قانون کے ساتھ ساتھ نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس (NRC) کے اعلان نے مسلمانوں میں خوف و خدشات پیدا کردیئے تھے۔ اگر دیکھا جائے تو اُصولی طور پر یہ قانون ہمارے وطن عزیز کے سیکولرازم کے متضاد تھے اس لئے غیر مسلموں کو بھی اس کی شدت سے مخالفت کرنی چاہئے کیوں کہ وہ خود اس حقیقت سے اچھی طرح واقف تھے۔ این آر سی / سی اے اے نے ان میں (غیر مسلموں میں) وہ شکوک و شبہات اور خوف پیدا نہیں کیا جو مسلمانوں میں پیدا ہوا تھا۔ ویسے بھی مسلمانوں کا وہ خوف بے وجہ نہیں تھا کیوں کہ قانون پیش اور منظور کرنے والے اسے نافذ کرنے والے وہ لوگ تھے جو اپنے مسلم مخالف جذبات کو کبھی نہیں چھپاتے تھے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ NRC کی اشاعت کے بعد پتہ چلا کہ ریاست آسام میں مسلمانوں سے کہیں زیادہ جو لوگ رجسٹر سے باہر ہوئے وہ مسلمان نہیں ہندو تھے لیکن اس کے ساتھ ہی فرقہ پرست جماعتوں ان کے قائدین یہاں تک کہ حکومت میں یا اقتدار میں بیٹھے لوگوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ ان ہندوؤں کو رجسٹر میں شامل کیا جائے گا جنہیں رجسٹر سے نکال باہر کیا گیا اور جو رجسٹر میں آگئے ہیں (مسلمان) انہیں رجسٹر سے باہر کردیا جائے گا۔ اس طرح حکومت اور اس میں بیٹھے لوگوں نے یہ صاف صاف اشارہ دے دیا تھا کہ ہندوؤں کو ڈرنے گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ افسوس کہ یہ بات ملک کے وزیرداخلہ بھی کہہ چکے ہیں۔ ایسے میں کس کو گھبرانا اور خوف و دہشت میں مبتلا ہونا چاہئے؟ آپ نے اور ہم سب نے دیکھا کہ جو لوگ گھبرائے ہوئے اور خوف و دہشت میں مبتلا تھے، سڑکوں پر اُتر آئے وہ کون تھے؟ وہ سب مسلمان تھے اور اچھی بات یہ ہوئی کہ بعض مقامات پر ان کے ساتھ احتجاج میں غیر مسلم بھی شامل ہوئے۔ شاہین باغ میں تو مسلم خواتین نے ایک تاریخ رقم کی اور بتادیا کہ ضرورت پڑنے پر وہ اپنے خلاف روا رکھی جانے والی ناانصافی پر آواز اُٹھانے کے لئے میدان میں آسکتی ہیں۔ غیر مسلموں کا اس بارے میں کہنا تھا کہ یہ مسلمانوں کا مسئلہ ہے۔ بہرحال مسلمانوں کو کوئی ان کی مدد کے لئے آئے یا نہ آئے ان کے ساتھ کھڑا رہے یا نہ رہے اپنے حقوق کے لئے آواز تو اُٹھانی ہی پڑے گی۔