دبئی، 29 ستمبر (ایجنسیز) مشرق وسطیٰ سمیت دنیا بھر میں دل کے امراض تیزی سے انسانی جانیں نگل رہے ہیں اور عالمی ماہرین صحت نے خبردارکیا ہے کہ اگر حکومتوں نے فوری اور جامع اقدامات نہ کیے تو آنے والے برسوں میں یہ بحران مزیدگہرا ہو جائے گا۔دبئی میں مقیم انویسٹمنٹ بینکر ولی خان کی مثال اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہے۔ وہ محض ذہنی دباؤکم کرنے کی دوا کے لیے ڈاکٹر کے پاس گئے لیکن ٹسٹ سے معلوم ہوا کہ وہ ایک بڑے دل کے دورے کے قریب تھے۔ فوری اسٹنٹ لگانے سے ان کی جان بچ گئی۔ خان نے اپنی طرزِ زندگی بدل کر سگریٹ نوشی ترک کی اور روزانہ پیدل چلنے کو معمول بنایا۔ انہوں نے کہاکہ اگر وہ کسی سست طبی نظام کا حصہ ہوتے تو شاید نتیجہ مختلف ہوتا۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق 2022 میں دنیا بھر میں تقریباً 1کروڑ 98 لاکھ افراد دل کے امراض کے باعث جاں بحق ہوئے، جو جملہ اموات کا 32 فیصد ہیں۔ ان میں سے 85 فیصد دل کے دورے اور فالج کے نتیجے میں ہوئیں جبکہ تین چوتھائی سے زیادہ اموات غریب اور متوسط آمدنی والے ممالک میں ریکارڈ کی گئیں۔ مشرق وسطیٰ میں مصر2021 میں سب سے زیادہ متاثر رہا جہاں 2 لاکھ 75 ہزار سے زائد اموات ہوئیں، اس کے بعد ترکی، ایران، عراق اور یمن نمایاں ہیں۔ ماہرہ صحت ڈاکٹر تسکین خان کے مطابق شہری طرزِ زندگی، غیر صحت مند خوراک، تمباکو نوشی، ذیابطیس اور موٹاپا دل کی بیماریوں کے بنیادی محرک ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انفرادی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ پالیسی سطح پر بھی اقدامات ناگزیر ہیں، جن میں تمباکو اور شکر پر ٹیکس، نمک میں کمی اور بنیادی صحت کے نظام کو مضبوط بنانا شامل ہیں۔ ورلڈ ہارٹ فیڈریشن کے مطابق دل کے امراض سے 80 فیصد اموات قابلِ بچاؤ ہیں۔ عالمی ماہرین نے کہا ہے کہ اگر بلڈ پریشرکے مریضوں کا مؤثر علاج بڑھا دیا جائے تو آئندہ برسوں میں کروڑوں زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں۔