معاشی بدحالی : مودی حکومت کا بدنیت نظریۂ حکمرانی ذمہ دار

   

ڈاکٹر منموہن سنگھ
طبقہ شہریان کا سرکاری اداروں پر بھروسہ نہ کرنا اور حکومت میں اعتماد کا فقدان توسیعی معاشی تنزلی کا سبب بنے ہیں۔ ہندوستان کی معیشت کی حالت بہت پریشان کن ہے۔ میں یہ بات اپوزیشن سیاسی پارٹی کا ممبر ہونے کی حیثیت سے نہیں بلکہ اِس ملک کے شہری اور معاشیات کا طالب علم ہونے کے ناطے کہہ رہا ہوں۔ اب حقائق سب سے ظاہر ہوچکے ہیں … برائے نام جی ڈی پی شرح بڑھوتری 15 سال کی نچلی سطح پر ہے؛ بے روزگاری 45 سال میں سب سے بڑھی ہوئی ہے؛ گھریلو کھپت چار دہوں کی نچلی شرح پر ہے؛ بینکوں میں خراب قرضوں کی مقدار اب تک کی سب سے زیادہ ہے؛ برقی پیداوار میں بڑھوتری 15 سال میں کمترین ہے … ایسی اونچی اور نچلی سطحوں کی فہرست طویل اور اضطراب آمیز ہے۔ لیکن معیشت کی حالت ان پریشان کن شماریات کی وجہ سے تشویشناک نہیں ہے۔ یہ تو زیادہ گہری و پوشیدہ بے چینی کے محض اشارے ہیں، جو آج قوم کی معیشت کو مصیبت میں ڈال رہی ہے۔
کسی قوم کی حالت ِ معیشت اس کے سماج کے کام کاج اور اس کے اثر کی صورتحال بھی ہوتی ہے۔ کوئی بھی معیشت کی کارکردگی اس کے عوام اور ادارہ جات کے مابین تبادلوں اور سماجی ربط و ضبط کے مجموعی اثر کا نتیجہ ہوتی ہے۔ باہمی بھروسہ اور خوداعتمادی عوام کے مابین اس طرح کے سماجی تال میل کی ٹھوس بنیاد رہتی ہے، جو معاشی ترقی کو پروان چڑھاتی ہے۔ بھروسہ اور اعتماد کا ہمارا سماجی تانا بانا اب تار تار اور پھٹا ہوا ہے۔
صنعت کار تک خوف سے دوچار
آج ہمارے سماج میں خوف کا ماحول محسوس کیا جاسکتا ہے۔ کئی صنعت کار مجھ سے کہتے ہیں کہ وہ سرکاری حکام کی طرف سے ہراسانی کے خوف میں جی رہے ہیں۔ بینک والے نئے لون جاری کرنے میں پس و پیش کا شکار ہیں، کیونکہ انھیں معاندانہ کارروائی کا خوف ہے۔ انٹرپرینرز نئے پراجکٹس شروع کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں کیونکہ انھیں دور رَس محرکات سے منسوب ناکامی کا خوف ہے۔ ٹکنالوجی اسٹارٹ اپس جو معاشی ترقی اور جابس کا اہم نیا انجن ہے، ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ مسلسل نگرانی اور گہرے شبہات کے سائے میں چل رہے ہیں۔ حکومت کے پالیسی ساز اور دیگر ادارے سچائی بولنے یا سوجھ بوجھ پر مبنی دیانت دارانہ پالیسی بات چیت میں شامل ہونے سے خوفزدہ ہیں۔ ان لوگوں میں گہرا خوف اور بے اعتمادی ہے جو معاشی ترقی کے کارندوں کے طور پر کام کرتے ہیں۔ جب اس طرح کی بے اعتمادی کا ماحول ہو، تب کسی بھی سماج میں معاشی لین دین پر شدید اثر پڑتا ہے۔ جب عوام اور ادارہ جات کے مابین لین دین پر منفی اثر پڑے، تب یہ صورتحال معاشی سرگرمی میں سست روی، اور آخرکار جمود کا موجب بنتی ہے۔ شہریوں میں خوف، بے اعتمادی اور بھروسہ کے فقدان کی یہ خطرناک حالت ہمارے تیزی سے معاشی انحطاط کی بنیادی وجہ ہے۔

معیشت پر اندھیرے میں تیر چلانا
بے کسی و لاچاری کی کیفیت بھی پائی جاتی ہے۔ متاثرہ و پریشان حال شہریوں کو کچھ سجھائی نہیں دے رہا کہ اپنی شکایات کس سے رجوع کریں۔ آزاد اداروں جیسے میڈیا، عدلیہ، قانونی حکام اور تحقیقاتی ایجنسیوں پر عوامی بھروسہ بری طرح ٹوٹ چکا ہے۔ اعتماد ٹوٹ جانے کی وجہ سے عوام کیلئے ایسے معاون سسٹم کا فقدان ہوگیا کہ وہ غیرقانونی ٹیکس ہراسانی یا غیرمنصفانہ قانونی کشاکش سے بچنے کی راہ تلاش کرسکیں۔ یہ صورتحال انٹرپرینرز کو جوکھم مول لینے کی چاہ سے محروم کرچکی ہے حتیٰ کہ وہ نئے پراجکٹس شروع کرنے اور اس کے نتیجے میں جابس پیدا کرنے سے خائف ہیں۔ ہمارے سماج میں گہری بے اعتمادی، جاگزیں خوف اور ناامیدی کا احساس کی مضر ترکیب معاشی سرگرمی اور اس کے نتیجے میں معاشی بڑھوتری کا گلا دبا رہی ہے۔
ہمارے سماجی تانا بانا شکستہ ہوجانے کا بنیادی سبب مودی حکومت کا ’’بدنیتی تاوقتیکہ اس کے برعکس ثابت نہ ہو‘‘ پر مبنی نظریہ حکمرانی ہے۔ حکومت کے پالیسی فریم ورک کی ابتدائی چیز یوں ظاہر ہوتا ہے کہ معاشی شرکاء بدنیتی پر مبنی ارادہ رکھتے ہیں جب تک کہ وہ اس کو برعکس ثابت نہیں کردیتے۔ ایسا شبہ کہ ہر انڈسٹریلسٹ، بینکر، پالیسی میکر، ریگولیٹر، انٹرپرینر اور سٹیزن حکومت کو دھوکہ دینے کے درپے ہے، ہماری سوسائٹی میں بھروسہ مکمل ٹوٹ جانے کا موجب بنا ہے۔ اس نے معاشی ترقی کو روک دیا ہے، کیونکہ بینکرس قرض دینے سے قاصر ہیں، صنعت کار سرمایہ مشغول کرنے سے قاصر ہیں اور پالیسی ساز کچھ عمل کرنے سے قاصر ہیں۔
مودی حکومت سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ہر چیز کو اور ہر کسی کو شبہ اور بے اعتماد کے داغ دار شیشے سے دیکھتی ہے جس کے باعث سابقہ حکومتوں کی ہر پالیسی خراب نیت والی مانی جاتی ہے، پہلے منظور کیا گیا ہر قرض غیرواجبی سمجھا جاتا ہے اور ہر نئے صنعتی پراجکٹ کو اپنوں کے مفادات کی تکمیل کا ذریعہ مانا جاتا ہے۔ اور حکومت نے خود کو ایک قسم کا مسیحا باور کرتے ہوئے احمقانہ نوعیت کی پالیسیوں پر عمل کیا ہے جیسے نوٹ بندی، جو ناقص حکمت عملی پر مبنی اور تباہ کن ثابت ہوچکی ہے۔ ہر کسی کو غلط طور پر بدی کے کردار میں دیکھنا اور ’’اچھی بمقابلہ بری حکمرانی‘‘ کا نظریہ معقول معاشی بڑھوتری کیلئے حل نہیں ہوسکتا ہے۔

معاشی ترقی میں سماجی بھروسہ کا رول اچھی طرح مصدقہ ہے، جو آڈم اسمتھ کے وقتوں سے بدلتی معاشیات کے جدید دور کے رجحان تک عیاں ہے۔ بھروسہ کے ہمارے سماجی تانے بانے کو شکستہ کردینا ہماری موجودہ معاشی بے چینی کی جڑ ہے۔ معاشی بڑھوتری کے احیاء کیلئے نہایت اہم ہے کہ خوف اور بے اعتمادی کے ہمارے پھٹ چکے سماجی تانے بانے کو دوبارہ جوڑا جائے تاکہ بھروسہ اور اعتماد پیدا کیا جاسکے۔ بزنس مین، سرمایہ فراہم کرنے والوں اور ورکرس کو بہت اہم ہے کہ پُراعتمادی اور روانی کا احساس ہو، نہ کہ وہ خوفزدہ اور مایوس رہیں۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب حکومت اپنے ’’بدنیتی تاوقتیکہ برعکس ثابت ہو‘‘ پر مبنی نظریہ کو ترک نہ کردے اور انڈیا کے انٹرپرینرز پر بھروسہ کرنا شروع کرے۔
ہندوستان کی معیشت موجودہ طور پر نازک حالت میں کھڑی ہے۔ آمدنی بڑھ نہیں رہی ہے۔ گھریلو کھپت سست رو ہے۔ عوام اپنی کھپت کی یکساں سطحوں کو برقرار رکھنے کیلئے اپنی بچتوں میں کمی کررہے ہیں۔ جو کچھ بھی جی ڈی پی شرح نظر آرہی ہے، وہ لگ بھگ پوری طرح اونچے طبقے کے سبب ہے۔
جمود کا جوکھم
حقیقی پریشان کن رجحان یہ ہے کہ ’ریٹیل اِنفلیشن‘ کے تازہ اعداد و شمار میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، جس میں خاص طور پر غذائی افراط زر کا عدد نمایاں ہے۔ یہ شرح افراط زر آنے والے مہینوں میں مزید بڑھنے کا اندیشہ ہے۔ افراط زر میں مسلسل اضافہ اور اس کے ساتھ سست طلب اور زیادہ بے روزگاری ایسی صورتحال کا موجب بنیں گے جسے ماہرین معاشیات stagflation قرار دیتے ہیں، جو خطرناک حالت ہے جہاں سے بڑی معیشتوں کیلئے سنبھلنا نہایت مشکل ہوجاتا ہے۔ اگرچہ موجودہ طور پر ہم اس طرح کے جمود کی حالت میں نہیں ہیں، لیکن دانشمندی اسی میں ہے کہ اقتصادی پالیسی اقدامات کے ذریعے کھپت کی طب کو بحال کرنے میں تیزی دکھائیں کیونکہ مالیاتی پالیسی کا اثر کچھ نظر نہیں آتا ہے۔
یہ میرا ماننا ہے کہ ہندوستان کی کمزور معاشی صورتحال دہرے پالیسی اقدامات کی متقاضی ہے: اقتصادی پالیسی کے ذریعے طلب کو بڑھائیں اور ہماری سوسائٹی کے معاشی شرکاء میں بھروسہ اور اعتماد پیدا کرکے ’سوشل پالیسی‘ کے ذریعے خانگی سرمایہ کاری کو بحال کریں۔
انڈیا اب 3 ٹریلین ڈالر کی عالمی معاشی طاقت ہے جو بڑی حد تک پرائیویٹ انٹرپرائز پر منحصر ہے۔ یہ حکم اور کنٹرول والی کوئی چھوٹی معیشت نہیں ہے جسے مرضی کے مطابق دباؤ ڈال کر ہدایت دی جاسکتی ہے۔ نا ہی اسے رنگارنگ شہ سرخیوں اور پُرشور میڈیا تبصرے کے ذریعے چلایا جاسکتا ہے۔ بری خبر پہنچانے والوں کو دبا دینا یا معاشی رپورٹس اور ڈیٹا کو چھپا دینا بچکانہ عمل ہے اور اُبھرتی عالمی معاشی طاقت کے شایان شان نہیں۔ کوئی حیلہ بہانہ 1.2 بلین عوام کی 3 ٹریلین ڈالر والی مارکیٹ اکنامی کے پرفارمنس اور تجزیے کو چھپا نہیں سکتا ہے۔ معاشی شرکاء سماجی اور معاشی ترغیبات پر راغب ہوتے ہیں، نہ کہ ہدایات یا جبر و استبداد یا تعلقات عامہ کی طرف۔
افسوس کہ یہ خود کا پیدا کردہ معاشی زخم ایسے وقت لگا ہے کہ جب عالمی معیشت میں ہندوستان کیلئے منفرد اور اچھے موقع کا دور ہے کہ فائدہ اٹھایا جائے۔ چین کی معیشت اور برآمدات میں سست روی نے انڈیا کیلئے اکسپورٹ کا بڑا موقع کھول دیا ہے کہ خلاء کو پُر کرلے۔ ہندوستان کا مقصد اس برآمدی موقع کا زیادہ سے زیادہ حصہ کا حصول ہونا چاہئے، جس کیلئے اعتماد اور معاشی حرکیات کا ماحول پیدا کیا جائے جو خوف، بے اعتمادی اور منفی ذہنیت کے موجودہ ماحول سے پرے ہو۔ چونکہ حکومت کو لوک سبھا میں قطعی اکثریت حاصل ہے اور تیل کی عالمی قیمتیں کم ہیں، اس لئے یہ نسل میں ایک مرتبہ کا معاشی موقع ہے کہ ہندوستان کو معاشی ترقی کے اگلے مرحلے تک چھلانگ لگانے کے قابل بنائیں جسے ہمارے سینکڑوں لاکھوں نوجوانوں کیلئے نئی نوکریاں پیدا ہوں گی۔ میری وزیراعظم سے اپیل ہے کہ صنعت کاروں اور انٹرپرینرز پر اپنے گہرے شبہات کو بالائے طاق رکھیں اور ہمیں دوبارہ پُراعتماد اور باہمی طور پر قابل اعتبار سماج کی طرف لے جائیں جو فطری قابلیت کو بحال کرے اور ہماری معیشت کو بلندی پر لے جانے میں مدد کرے۔