رویش کمار
نیوزچیانلوں کا مشاہدہ کریں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سارا ملک کشمیر، آبادی اور ریزرویشن کے موضوعات پر مصروف ہے۔ لیکن ڈیڑھ لاکھ بینکرس ان موضوعات پر مصروف نہیں ہیں۔ بلکہ گزشتہ دنوں انھیں تو ٹی وی کا مشاہدہ کرنے کا تک موقع نہیں ملا ہوگا کہ کشمیر کے بارے میں کیا بیان سامنے آیا ہے۔ وہ یہ تک نہیں جانتے ہوں گے کہ شیوراج سنگھ چوہان اور سادھوی پرگیہ نے جواہر لعل نہرو کو مجرم کہا تاکہ اس مباحث میں دیگر زاویوں سے شامل ہوسکیں۔ جیسے ہی نہرو کے خلاف کچھ بھی کہا جائے، آپ چیانلوں کے اسکرین پر اس کو نمایاں دیکھ سکتے ہو۔ چونکہ لیڈرس تو نہرو کو مجرم گرداننے میں مصروف ہیں، اس لئے ڈیڑھ لاکھ بینکرس سے کہنا ہوگا کہ کم از کم وہ معیشت کے امور میں مصروف رہیں اور کوئی آئیڈیا دیں کہ کس طرح ہندوستان کی معیشت کو 5 ٹریلین (ڈالر) کی بنایا جاسکتا ہے۔ آئندہ الیکشن میں ان سے کہا جاسکتا ہے کہ 500 الفاظ کی تحریر لکھیں کہ اگر میں وزیراعظم بنوں گا… اور بہترین تحریر میں اپنی امیدواری کے بارے میں کم از کم کچھ باتیں ضرور ہونا چاہئیں۔ لیکن (کسی بھی بینک کا) برانچ منیجر اسی شش و پنج میں مبتلا ہے کہ 5 ٹریلین کی معیشت کیسے بنائی جائے گی؟ اب اس تعلق سے بعض غیرضروری سوالات نہیں پوچھے جانے چاہئیں۔ آخر ریزرو بینک، نیتی آیوگ، منسٹری آف فینانس، معاشی مشیر برائے وزیراعظم، وغیرہ جو ہیں۔ کیا وہ دانش نہیں رکھتے؟
ہفتہ اور اتوار کی چھٹی میں معیشت کے تعلق سے سوچنا بڑی بات ہے۔ ویسے بینکروں نے گزشتہ ہفتے جمعہ سے ہی سوچنا شروع کردیا تھا۔ کسی نے بھی نوٹ بندی کے بعد ان کے رول کو یاد نہیں رکھا ہے۔ امید ہے اسے یاد رکھا جائے گا۔ ڈیڑھ لاکھ بینکرس اتوار کو بھی غوروخوض کرتے رہے کہ کس طرح ہندوستان کی معیشت کی جسامت 2024ء تک 5 ٹریلین کی ہوجائے گی؟ بینکوں کی بُری حالت ہے۔ وہ اپنی جائیدادیں فروخت کررہے ہیں۔ منیجروں کو زبردست تناؤ میں کام کرنا پڑرہا ہے۔ چنانچہ وہ سر جوڑ کر کوئی آئیڈیا ڈھونڈیں گے اور خود کیلئے راحت لے آئیں گے، لیکن اگر ایسانہ ہو تو کیا ہوگا؟ کئی بینکروں نے درحقیقت کچھ آئیڈیا دیا ہے جو ہر کوئی پہلے سے جانتا ہے کہ کس طرح بینکوں سے لون کا بہاؤ جاری رہا ہے۔ اوسط درجہ کی کمپنیاں رجسٹرڈ ہونے پر ان کو قرضے دینا چاہئے۔ کسانوں کو جن کا قرضوں کی واپس ادائیگی کا اچھا ریکارڈ ہے، بیٹی کی شادی یا گھر خریدنے کیلئے قرضے دینا چاہئے۔ منیجر کو برانچ لیول پر اچھا ماحول فراہم کرنا چاہئے۔ ٹرانسفر کی شفاف پالیسی ہونا چاہئے۔ بڑے قرض داروں کی جوابدہی طے کرنا چاہئے اور قرضے دباؤ میں نہیں دینا چاہئے۔ فینانس منسٹری اپنی مہم چلارہی ہے۔ اگست اختتام پذیر ہونے پر توقع ہے انڈیا بینکروں سے آئیڈیا حاصل کرنے کے بعد 5 ٹریلین ڈالر کی معیشت کی طرف چل پڑے گا۔ بینکروں نے یہ بھی غور کیا کہ تنخواہ کا کیا ہوگا جس میں 2017ء سے اضافہ نہیں ہوا ہے۔
ہندوستان کی معیشت مراجعت؍ واپسی؍ سست روی سے دوچار ہے۔ ورلڈ بینک رپورٹ کے مطابق بڑی معیشت کے معاملے میں ہندوستان کا رینک نمبر سات ہے۔ موجودہ طور پر انڈیا کی جی ڈی پی (مجموعی دیسی پیداوار) 2.7 ٹریلین ڈالر ہے۔ ہندوستان کا ٹارگٹ 2024ء تک 5 ٹریلین ڈالر کی معیشت کا حصول ہے۔ آپ ماہ اگست کے بزنس نیوزپیپرز کی بعض خبروں کا مطالعہ کیجئے۔ ہم آپ کیلئے بعض خبروں کا نمونہ پیش کرتے ہیں:
اگلے سہ ماہی میں آٹو انڈسٹری 5 لاکھ نوکریوں سے محروم ہوسکتی ہے۔ اندرون 400 کروڑ کے سالانہ کاروبار والی کمپنیوں کی حالت بہت خراب ہے۔ سیلزمین، پینٹنگ، ویلڈنگ، کاسٹنگ کی نوعیت کے جابس عنقریب غائب ہوجائیں گے۔ پہلے ہی اس شعبے میں 2 تا 3 لاکھ نوکریاں ختم ہوچکی ہیں۔ ہر بڑی کمپنی کم از کم 10 فیصد ملازمین کی عارضی یا مستقل طور پر چھٹی کررہی ہے۔ یہ 19 اگست کی نیوز ہے۔
کیئر ریٹنگس کا کہنا ہے کہ نئے جابس میں بھی ہندوستان کی معاشی سست روی کے سبب انحطاط دیکھنے میں آئے گا۔ بلومبرگ کے انیربن ناگ کی رپورٹ ہے کہ بینکوں، انشورنس، آٹو اور لاجسٹکس اور انفراسٹرکچر سیکٹرز کی کمپنیاں رکروٹمنٹ میں کٹوتی لائیں گی۔ کیئر ریٹنگس کا جائزہ 1000 کمپنیوں کے سروے پر مبنی ہے۔ یہ بھی 19 اگست کی رپورٹ ہے۔ فینانشل اکسپریس نے پرتھوی راج کی رپورٹ شائع کی کہ مہندرا منیجنگ ڈائریکٹر کو اندیشہ ہے کہ کئی کار ڈیلرز کنگال ہوسکتے ہیں۔ مہندرا اینڈ مہندرا ایم ڈی پون گوئنکا کا کہنا ہے کہ اگر آٹو سیکٹر میں تہواروں کے دوران تبدیلی نہیں آتی ہے تو ڈیلرز اور سپلائرز کا دیوالیہ شروع ہوجائے گا۔ آٹو سیکٹر میں 12 ماہ سے انحطاط ہے۔ ایک سال میں 300 ڈیلروں نے اپنے دکان بند کردی ہے۔ 2 لاکھ افراد اپنے جابس سے محروم ہوگئے۔ یہ بھی 19 اگست کی خبر ہے۔
روڈ ڈیولپرز، ٹول کی وصولیات کا معاملہ بھی پریشان کن ہے، جو 19 اگست کی نیوز میں اجاگر کیا گیا۔ لوگوں نے سفر میں کمی کردی ہے اور ٹول فیس کی وصولی کم ہوگئی ہے۔ ایل اینڈ ٹی چیئرمین کا بیان ہے کہ ’میک اِن انڈیا‘ سے جابس پیدا نہیں ہورہے ہیں۔ لائیو منٹ کی رپورٹ کے مطابق چیئرمین اے ایم نائک کا دعویٰ ہے کہ ہر سال عام طور پر ایک ملین نوجوان جابس مارکیٹ میں داخل ہوا کرتے تھے۔ تاہم، حکومت کا پروگرام معقول جابس پیدا کرنے میں ناکام ہوا ہے، کیونکہ زیادہ تر سیکٹرز میں کمپنیاں درآمد کو ترجیح دیتی ہیں۔ مقامی طور پر نوجوانوں کو تیار کرنے کا رجحان نہیں ہے۔ وہ جابس کو اکسپورٹ کررہے ہیں۔ ہمیں جواب ڈھونڈنا ہوگا کہ کیوں ہندوستانی کمپنیاں ایسا کررہی ہیں۔ انڈین کمپنیوں کے پاس فنڈز کی بڑی قلت ہے۔ ان کے پاس بہت کم متبادل ہیں۔ اسی رپورٹ کے مطابق یہ معلوم ہوا کہ نیشنل اِسکل ڈیولپمنٹ سنٹر کے تحت تقریباً 40 لاکھ افراد کو ٹریننگ دی گئی، لیکن 12 فیصد کو ہی کام ملا۔ (19 اگست کی خبر)
نئی نوکریاں بند کی جارہی ہیں۔ سب سے بڑے شکار کنٹراکٹ ورکرس رہے ہیں، اور اُن کی آواز ٹی وی پر سنی نہیں جاتی ہے۔ شعبہ پارجہ جات کی حالت بھی کافی خراب ہے۔ 2016ء میں جب 6,000 (کروڑ روپئے) کا پیاکیج دیا گیا، تب دعویٰ کیا گیا تھا کہ تین سال میں 1 کروڑ جابس پیدا کئے جائیں گے۔ کیا کسی منسٹر نے اس تعلق سے بات کی ہے، کیا آپ نے ٹی وی پر سنی ہے؟ بنگلہ دیش اور سری لنکا اس شعبے میں آگے بڑھنے والے ہیں۔
سابق ریزرو بینک گورنر رگھورام راجن نے کہا ہے کہ معاشی سست روی کافی پریشان کن ہے۔ حکومت کو جلد ہی اس کا سدباب کرتے ہوئے نان بینکنگ فینانشل سیکٹر کو درست کرنا اور سرمایہ کاری کیلئے نئے اصلاحات لانے پڑیں گے۔ ہندو بزنس لائن کی ریسرچ ٹیم کا کہنا ہے کہ انڈیا کی اسٹاک مارکیٹ کا 2019ء میں پرفارمنس بدترین رہا۔ اس مالی سال کے پہلے سہ ماہی میں کارپوریٹ فوائد میں گراوٹ آگئی۔
اب ہندوستان کے ٹکسٹائل سیکٹر میں 25 لاکھ افراد کی نوکریاں چلے جانے کی خبر ہے۔ یہ اطلاع صدر فریدآباد ٹکسٹائل اسوسی ایشن انیل جین نے فون پر سشیل مہاپاترا کو دی۔ انیل جین نے کہا کہ پانی پت، فریدآباد، غازی آباد کے ٹکسٹائل سیکٹر میں زائد از 1 لاکھ افراد اپنے جابس کھو چکے ہیں۔ لگ بھگ 20 لاکھ افراددہلی کے اطراف و اکناف پارجہ جات صنعت سے جڑے ہیں۔ انیل جین نے کہا کہ ٹکسٹائل سیکٹر میں فروخت 30 تا 35 فیصد تک گھٹ گیا ہے۔ بنگلہ دیش سے آنے والا کپڑا سستاثابت ہورہا ہے۔ ہندوستان کی برآمدات پیداوار کی اونچی لاگتوں کے سبب انحطاط پذیر ہیں۔ 100 ملین افراد پارچہ جات سے راست اور بالواسطہ طور پر وابستہ ہیں۔ انیل نے یہ بھی بتایا کہ پہلے دھاگہ بنانے کی فیکٹری کبھی بند نہیں ہوتی تھی، لیکن اب ہفتے میں ایک یا دو دن بند ہورہی ہے۔
ہمارے رفیق کار سشیل مہاپاترا فریدآباد اور پلوال (متصل دہلی) میں تین ٹکسٹائل فیکٹریوں کو گئے۔ ایک بند ہے اور دو میں معاشی انحطاط کے اثرات نظر آرہے ہیں۔ جہاں کہیں سشیل گئے، ہر کسی نے کہا کہ چونکہ انھیں PNG یعنی قدرتی گیس خریدنے پر مجبور کیا جارہا ہے، پیداواری لاگت میں قابل لحاظ اضافہ ہوگیا ہے۔ اس کے سبب وہ نہ اکسپورٹ کرنے کے قابل ہیں اور نہ دیسی منڈی کیلئے پیداوار کرپارہے ہیں۔ ہم ایسی معاشی صورتحال سے گزر رہے ہیں۔ قومی مباحثوں میں مفروضہ اور قیاس پر مبنی سوالات کو حقیقی بناکر پیش کیا جارہا ہے۔ ان لاکھوں لوگوں کے تعلق سے کوئی سوال جواب نہیں جو اپنے جابس کھوچکے ہیں، جن کی شناخت کرنا ہوگا اور جن کو نیا جاب حاصل نہیں ہورہا ہے۔
جموں و کشمیر میں گزشتہ دنوں حکومت کی اطلاع کے مطابق لینڈلائن سرویس بحال کردی گئی۔ امید ہے لوگوں کو باہمی ربط قائم کرنے کا موقع ملے گا۔ ڈائریکٹر، محکمہ تعلقات عامہ، جموں و کشمیر سید شہریش اصغر نے کہا کہ وادیٔ کشمیر میں لا اینڈ آرڈر کا کوئی بڑا واقعہ پیش نہیں آیا اور صورتحال بتدریج معمول پر آرہی ہے۔ سرینگر میں اسکولس تو کھل گئے ہیں لیکن طلبہ غیرحاضر ہیں۔ ڈائریکٹر آف اسکول ایجوکیشن محمد یونس ملک نے بتایا کہ سرینگر میں 500 اسکولس ہیں لیکن دوبارہ کشادگی پر صرف 72 میں حاضری درج کی گئی۔٭
[email protected]