مغربی کنارہ: رائے عامہ کے ایک جائزے سے معلوم ہوا ہے کہ جنگ کے دوران ہلاکتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر غم و غصے کے دوران حماس کے لیے فلسطینیوں کی حمایت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ خاص طور پر نسبتاً اس پرامن مغربی کنارے کے علاقے میں بھی، جہاں حماس کا کنٹرول نہیں ہے۔مغربی کنارے کے تقریباً 44 فیصد جواب دہندگان نے فلسطینی ادارے ‘سینٹر فار پالیسی اینڈ سروے ریسرچ’ کو بتایا ہے کہ وہ حماس کی حمایت کرتے ہیں، جبکہ تین ماہ قبل یہ تعداد صرف 12 فیصد ہی تھی۔تین ماہ قبل کیے گئے ایک سروے کے مطابق غزہ میں 42 فیصد نے حماس کی حمایت کی تھی جبکہ 38 فیصد اس کے خلاف تھے۔تازہ سروے میں دونوں علاقوں میں جواب دہندگان کی اکثریت نے کہا کہ انہیں اس بات کا یقین ہے کہ حماس تنازعات سے ابھر کر سامنے آئے گی اور غزہ پر اس کا کنٹرول جاری رہے گا۔ حالانکہ غزہ کے رہائشی اس حوالے سے سوال پر بہت منقسم بھی ہیں، تاہم ایک چھوٹی اکثریت نے یہ بھی کہا کہ یہ ان کی ترجیح ہوگی۔دس میں سے ایک سے کم جواب دہندگان نے یہ بات تسلیم کی کہ ان کے خیال میں حماس کے جنگجوؤں نے سات اکتوبر کے حملوں میں شہریوں کو اغوا یا قتل کرنے جیسے جنگی جرائم کا ارتکاب کیا۔الفتح اور فلسطینی اتھارٹی (پی اے) کے رہنما محمود عباس کی مخالفت میں اس قدر اضافہ ہوا ہے کہ تقریباً 90 فیصد افراد نے ان کی کارکردگی کو نامنظور کر دیا۔ عباس اور ان کی انتظامیہ کو اکثر بدعنوانی اور نا اہلی کی وجہ سے گھر میں ہی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔بین الاقوامی برادری کی طرف سے فلسطینی حل کی ایک وکالت اب یہ کی جا رہی ہے کہ جنگ کے خاتمے کے بعد محمود عباس اور پی اے پورے فلسطین کا چارج سنبھال لے، تاکہ دو ریاستی حل کا منصوبہ کامیاب ہو سکے۔ لیکن یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اب اس پر عمل کرنا کس قدر مشکل ہے۔ حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ نے کہا کہ مستقبل کا کوئی بھی فلسطینی حل، جس میں حماس گروپ شامل نہ ہو، محض ایک فریب ہے۔
واضح رہے کہ امریکہ، جرمنی اور یورپی یونین نے حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے چکے ہیں۔اسماعیل ہنیہ نے مزید کہا کہ حماس اسرائیل کی مہم کو ختم کرنے اور مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی دونوں میں فلسطینیوں کا نظم و نسق سنبھالنے کے بارے میں بات چیت کے لیے تیار ہے۔