کرن تھاپر
ہم میں سے اکثر کے لئے معیشت کا ابلنا دراصل روزگار اور ملازمتوں سے جڑا ہوا معاملہ ہے۔ ان میں سے کسی ایک کے بغیر ہم سے بیشتر لوگ ٹوٹ پھوٹ جاتے ہیں اور بیروزگار ہونے سے خود اعتمادی کو سب سے زیادہ نقصان ہوتا ہے اور انسان میں پائی جانے والی خود اعتمادی بکھر کر رہ جاتی ہے۔ ایسے میں اس اتوار کی صبح ہم بجٹ کا جائزہ لیتے ہیں اور یہ دیکھتے ہیں کہ اس بجٹ میں روزگار کے مسئلہ سے کس طرح موثر طور پر نمٹا گیا ہے۔
سنٹر فار مونیٹرنگ انڈین ایکنامی (CME) کو روزگار سے متعلق سب سے اہم اتھاریٹی تسلیم کیا جاتا ہے لیکن اسی سی ایم آئی ای کا کہنا ہے کہ لاک ڈاون کے فوری بعد 120 ملین سے زائد روزگار ختم ہوئے یعنی لاک ڈاون کا فوری اثر یہ ہوا کہ 120 ملین لوگ روزگار سے محروم ہوگئے۔ دسمبر تک جب وزیر فینانس بجٹ تیار کررہی تھی۔ بیروزگاری 14.7 ملین لوگوں کو متاثر کرچکی تھی اور یہ ایک ایسی سطح ہے جو ماقبل کووڈ ۔ 19 سطحوں سے کم ہے۔ دیگر سرویز میں بیروزگاری سے متاثر ہونے یا روزگار سے محروم ہونے والوں کی تعداد 18 ملین بتائی گئی ہے۔ تاہم جنوری میں روزگار کی سطح میں 11.9 ملین کا اضافہ ہوا، تاہم جنوری 2020 کی بہ نسبت یہ ہنوز 9.8 ملین کم ہے۔ ان اعداد و شمار سے یہ حقیقت چھپتی ہے کہ ایسے کئی لوگ جنہیں روزگار یا ملازمتیں حاصل ہوئی ہیں وہ کم تنخواہیں قبول کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ خاص طور پر تنخواہ یاب ملازمین سب سے زیادہ متاثر ہوئے اور ایسے 21 ملین ملازمین اپنی ملازمتوں سے محروم ہوئے۔ اسی زمرہ میں وائٹ کالر پیشہ وارانہ ملازمین کی ملازمتوں میں 31 فیصد تک کمی آئی۔ دوسرے بدترین صورتحال سے دوچار صنعتی ورکرس رہے اس شعبہ میں 26 فیصد ورکرس ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ تفصیلی چھان بین سے روزگار کے مسائل اور دیگر فکرمند کرنے والے حقائق کی تہہ تک پہنچنے میں مدد ملی۔ جو حقائق ہمارے سامنے آئے اس کے مطابق لیبر فورس کی شرح شراکت 40 فیصد کے اطراف گھومتی رہی، جبکہ عالمی شرح 66 فیصد ہے اور ہم اس شرح سے بہت پیچھے ہیں۔ یہ اس وقت بہت زیادہ بدترین ہو جاتی ہے جب آپ خاتون مزدوروں کی شراکت پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار میں 2011-12 اور 2017-18 کے درمیان 8 فیصد تا 23 فیصد کمی آئی ہے۔ سی ایم آئی نے تو اسے مزید کم بتاتے ہوئے 11 فیصد ظاہر کیا ہے اور اس نے یہ تقابل بنگلہ دیش، انڈونیشیا، تھائی لینڈ کے ساتھ کیا۔ مثال کے طور پر بنگلہ دیش میں خاتون مزدوروں کی شراکت 30 فیصد، انڈونیشیا میں 39 فیصد اور تھائی لینڈ میں 45 فیصد ریکارڈ کی گئی۔ بہرحال ہم پھر بجٹ کی طرف آتے ہیں۔ ہمارے ملک کا بجٹ ایک ایسے وقت پیش کیا گیا جبکہ بیروزگاری ایک سنگین مسئلہ ہے اور یہ بجٹ لیبر کی کم شراکت اور خاص طور پر خاتون مزدوروں کی فکر و تشویش میں مبتلا کردینے والی شراکت کے پس منظر میں پیش کیا گیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بجٹ اس بارے میں کیا کرے گا؟ مجھے اس سلسلہ میں سی ایم آئی ای کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر مہیش ویاس کے خیالات کا حوالہ دینے دیجئے، وہ کہتے ہیں کہ حکومت ہند نے ملک میں کسی بھی قسم کی بیروزگاری سے متعلق مسئلہ کی موجودگی کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ وزیر فینانس نے بھی پارلیمنٹ میں بجٹ پیش کرتے ہوئے جو تقریر کی اس میں بیروزگاروں کی مدد سے متعلق کسی مخصوص اسکیم یا راست طور پر روزگار پیدا کرنے کا کوئی ذکر نہیں کیا۔
سب سے پہلے ہم دیہی بیروزگاری پر غور کرتے ہیں مہاتما گاندھی قومی دیہی روزگار طمانیت اسکیم (MGNREGS) دراصل بیروزگاری سے نمٹنے کے لئے تیار کی گئی لیکن وزیر فینانس نے اس اسکیم کے تحت آئندہ سال کے لئے مختص رقومات میں تقریباً 35 یصد کی کمی کی، نتیجہ میں نہ صرف اس کی اہمیت متاثر ہوئی بلکہ مہیش ویاس کے مطابق نرملا سیتارامن نے اپنی بجٹ تقریر میں ایم جی این آر ای جی ایس کا کوئی اشارہ نہیں دیا اور ان کی خاموشی سب کچھ بیان کررہی ہے۔ اپنے کئی انٹرویوز میں وزیر فینانس کا کہنا تھا کہ بجٹ اسکیمس کے ذریعہ پارچہ جات اور بنیادی سہولتوں بالخصوص سڑکیں بچھانے اور امکنہ کو فروغ دینے کی اسکیمات اور امکنہ جیسے شعبوں کو فروغ دیا جائے گا۔ اس سے کافی تعداد میں روزگار پیدا کرنے میں مدد ملے گی لیکن کیا حقیقت میں ایسا ہوگا؟ کیونکہ بنیادی سہولتوںکے پراجکٹس ایک طویل مدت تک چلتے ہیں اور ان کے لئے مختص رقومات اکثر پوری طرح خرچ نہیں کی جاتیں یا یہ پراجکٹس بیوروکریسی یا سرخ فیتے کی رکاوٹوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ میں نے جو ناقابل بیان اور سیاسی طور پر بے حسی پائی ہے وہ دراصل گورنمنٹ کا یہ حقیقت تسلیم کرنے سے انکار کرنا ہے کہ گزشتہ سال 120 ملین افراد ملازمتوں سے محروم ہوئے نتیجہ میں ان کی زندگیاں اور ان کے بچوں کا مستقبل تباہ ہوسکتا ہے۔ اس کے باوجود اس معاملہ میں حکومت کی جانب سے کوئی ہمدردانہ الفاظ اور دلاسے کے آثار نظر نہیں آتے۔ یہ اسی طرح ہے جیسے ہم ان لاکھوں افراد کو یاد نہیں رکھ سکے جو لاک ڈاون کے بعد پیدل چل کر اپنے گاؤں پہنچنے کے لئے مجبور ہوئے تھے۔ ان کی زندگیاں تباہ و برباد ہوئی تھیں ان کا مستقبل غیر یقینی ہوگیا تھا۔ پھر ایک بار مجھے ویاس کے بیان کا حوالہ دینے دیجئے انہوں نے کہا تھا کہ اکنامی سروے اور وزیر فینانس کی تقریر کسی بھی طرح اس حقیقت کو نہیں مانتی کہ 2020-21 میں لاکھوں ہندوستانی اپنی زندگی کے سامان سے محروم ہوئے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جو لوگ اپنی ملازمتوں اور روزگار سے محروم ہوئے تھے حکومت کی مدد کے بغیر اپنی بقاء کو یقینی بنانے کی راہ خود تلاش کرلی ۔ اب ایسا لگتا ہے کہ آئندہ مالی سال بھی یہی حال ہوگا۔ اس اتوار کو اخبار میں آپ صنعت کاروں اور بینکرس کی جانب سے بجٹ کی تعریف و ستائش پڑھیں گے تب ان لاکھوں افراد کو فراموش مت کیجئے جو اپنے روزگار سے محروم ہوئے اور ان میں سے کئی ایسے ہیں جو اتوار کا ایک اخبار خریدکر پڑھنے کی استطاعت بھی نہیں رکھتے۔