پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)
سپریم کورٹ کے معزز ججس پر مشتمل بینچ اور مرکزی وزیر قانون کے درمیان حال ہی میں جو تبادلہ خیال ہوا (جیسا کہ اخبارات میں شائع ہوا) پیش کیا جارہا ہے۔
سپریم کورٹ : مرکز اعلیٰ عدلیہ میں جج صاحبان کی تقرری کے عمل کو کالجیم کی جانب سے تجویز کردہ ناموں کی عدم منظوری کے ذریعہ مایوس کررہا ہے۔
وزیر قانون : کبھی یہ مت کہنا کہ مرکزی حکومت نے فائیلس روک رکھی ہیں اور فائیلس حکومت کو نہ بھیجیں۔ آپ اپنا تقرر خود کیجئے۔ آپ خود اس معاملے میں برتری کے حامل ہیں۔ آپ ہی اس عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچاتے ہیں۔
سپریم کورٹ : انہیں اختیارات دینے دیجئے، اس سلسلے میں ہمیں کوئی مسئلہ نہیں جب کوئی کہے کہ انہیں خود کرنے دو، ہم خود کریں گے، کوئی مسئلہ نہیں۔
اس معاملے میں بہت گہرائی ہے۔ مجھے یہ تلخ حقیقت بیان کرنے میں ہچکچاہٹ ہے کہ دستور ہند کی دفعہ 124(2) اور 217(1) کی تشریح و توضیح پر سپریم کورٹ اور مقننہ کے درمیان اختلافات پاے جاتے ہیں۔ حقیقی دفعات کے تحت تقرری کا اختیار پوری طرح مقننہ کے پاس ہے اور ان دفعات کے مطابق مقننہ ان اختیارات کا استعمال سپریم کورٹ اور متعلقہ ہائیکورٹ سے صلاح و مشورہ کے ذریعہ کرے گا، ویسے بھی گزشتہ چالیس برسوں سے جو پریکٹس یا عمل تھا، وہ یہ تھا کہ ریاستی حکومت متعلقہ ہائیکورٹ سے مشاورت کرتی اور مرکزی حکومتوں کو نام روانہ کرتی اور پھر مرکزی حکومت دستور کی دفعہ 217 میں اسے دیئے گئے اختیارات کے تحت مقرر کئے جانے والے ججس کے نام پیش کرتی، اسی طرح دستور کی دفعہ کے تحت سپریم کورٹ کے ججس کے تقررات عمل میں لائے جاتے یعنی ریاستی حکومتوں کی تجویز پر ہائیکورٹ اور مرکز کی تجویز پر سپریم کورٹ ججس کے تقررات عمل میں لائے جاتے رہے چنانچہ مقننہ کی جانب سے بہت سے معزز جج صاحبین کے تقررات عمل میں لائے گئے۔ یہ اور بات ہے کہ عدالتوں میں چند بدعنوان اور خراب عناصر بھی جگہ پاتے ہیں۔
آئین یا دستور کی تبدیلی: دوسرے ججس کیس (1993) اور تیسرے ججس کیس (1998) میں عدالتی تشریح و توضیع کے ذریعہ اس پریکٹس یا عمل کو تبدیل کردیا گیا اور پھر کالجیم نامی ایک نئے میکانزم کی ایجاد عمل میں لائی گئی، اس طرح کالجیم نے عدالت عظمی (سپریم کورٹ) اور ہائیکورٹس کے ججس کے تقررات سے متعلق اختیار حاصل کرلیا۔ مرکزی حکومت کالجیم کی سفارشات کو قبول یا واپس کرسکتی ہے اور اگر سفارش دوبارہ کی جاتی ہے یا اس کا اعادہ کیا جاتا ہے تو پھر حکومت کیلئے تقرر کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔ ایسے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ نئے طریقہ کار کے تحت جن ججس کے تقررات عمل میں آئے، اُن کا معیار ان ججس سے برتر و اعلیٰ ہے، جن کے تقررات پہلے چالیس برسوں میں کئے گئے۔ کئی ممتاز ججس کے تقررات کئے گئے لیکن بعض بدعنوان عناصر کو بھی منتخب او مقرر کیا گیا۔
سال 1993ء سے اقتدار پر فائز ہونے والی ہر حکومت تبدیل شدہ طریقہ کار سے کافی خوف میں مبتلا رہی ہے اور برسرپیکار رہی ہیں لیکن موجودہ حکومت کا اس معاملے میں حال برا ہے۔ نریندر مودی حکومت میں ججس کے تقررات کو روکنا ایک معمول بن گیا ہے۔ ایک باقاعدہ عمل بن گیا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اس حکومت نے کالجیم کے دہرائی گئی سفارشات کو تک روک دیا ہے جس کی دو معزز جج صاحبان نے نشاندہی کی جو عدالت عظمیٰ کے اعلان کردہ قانون کے متضاد ہے، اسی کے نتیجہ میں عدالت عظمی (سپریم کورٹ) میں 7 جائیدادیں مخلوعہ ہیں جبکہ ہائیکورٹس میں ججس کے منظورہ 1108 عہدوں میں سے 381 عہدے مخلوعہ ہیں (یکم جولائی 2022ء تک کے اعداد و شمار) اس معاملے میں سب سے بڑا المیہ یہ رہا کہ انتہائی قابل اور غیرمعمولی صلاحیتوں کے حامل وکلاء کے ناموں پر غور نہیں کیا گیا اور غور کیا گیا بھی تو بہت کم غور کیا گیا یا پھر کئی ماہ تک تقرر کو روکا گیا تب ایسے وکلاء کے نام واپس لے لئے اور ان وکلاء نے جج شپ کیلئے غور کرنے سے انکار کردیا اور تعطل کے نتیجہ میں اپنے نام واپس لے لئے۔
عدالتی تقررات سے متعلق قومی کمیشن، نیشنل جوڈیشیل اپائنٹمنٹس کمیشن(NJAC) پارلیمنٹ کے ایک قانون کے تحت قائم کیا گیا جس کا مقصد ججس کے تقررات کے ضمن میں عدلیہ اور مقننہ کو یکساں اہمیت دینا تھا۔ اس قانون میں چند خامیاں تھیں جنہیں بہ آسانی دُور کیا جاسکتا تھا لیکن کسی بھی فریق نے کوشش نہیں کی چنانچہ 16 اکتوبر 2015ء کو سپریم کورٹ نے دستوری ترمیم (99 ویں ترمیم) ایکٹ 2014ء کو ختم کردیا جس کے ساتھ نیشنل جوڈیشیل کمیشن ایکٹ بھی ختم ہوگیا (جسٹس چیلامیشور کا اختلافی فیصلہ اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ اکثریتی فیصلہ) راقم اپنے کالم (نیشنل جوڈیشیل کمیشن ایکٹ ایک معمہ مورخہ یکم نومبر 2015ء) میں فیصلہ پر شدید تنقید کی، ساتھ ہی میں نے ایک نئے قانون کی تدوین (قانون سازی) کیلئے اتفاق رائے پیدا کرنے کا مشورہ بھی دیا۔ مقننہ جو دلائل پیش کئے، وہ یہ تھے کہ دنیا کے کسی اور ملک میں ججس نئے ججس کا انتخاب نہیں کرتے، اس کے برعکس امکانی جج کے کردار اور اس عہدہ کیلئے اس کے موزوں ہونے یا نہ ہونے کا جائزہ لینے مقننہ کو ہی اہمیت دی جاتی ہے۔ دوسری طرف عدلیہ کی جانب سے جو سب سے مضبوط دلیل دی گئی، وہ یہ تھی کہ برسرخدمت ججس ، وکالت کرنے یا قانون کی پریکٹس کرنے والے ایسے وکلاء اور برسرخدمت ضلعی ججس کے بارے میں اچھی طرح جانتے ہیں جو بینچ میں ترقی پانے کے اہل ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عدلیہ اور مقننہ دونوں کے دلائل میں بہت زیادہ سچائی پائی جاتی ہے۔ اگر تعطل اسی طرح جاری رہا تو حالات مزید خراب ہوں گے۔ مخلوعہ جائیدادیں بھی زیادہ ہوں گی، زیادہ مخلوعہ جائیدادوں کا مطلب زیادہ ہوگا! کم نہیں۔ ان کی بھرتیوں میں دشواری ہوگی، مزید انکار اور دستبرداریاں ہوں گی جبکہ ہمارا قانونی نظام پہلے ہی سے کافی دباؤ میں ہے، وہ ڈھیر ہوجائے گا۔ ججس سے زیادہ کوئی غم زدہ نہیں ہوگا اور مقننہ سے زیادہ کوئی خوش نہیں ہوگا، ہاں جنہیں ناکامی ہوگی، وہ ہم ہندوستانی عوام ہوں گے اور خاص طور پر وہ لوگ جو انصاف کیلئے عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹاتے ہیں۔
امکانی حل : راقم کو یقین ہے کہ مقننہ کو ججس کے انتخابی عمل سے مکمل طور پر خارج نہیں کیا جاسکتا۔ میرا یہ بھی ایقان ہے کہ موجودہ متعصبانہ، انتقامی اور اکثریتی سیاست کے مدنظر مقننہ کو امکانی ججس کے انتخاب کا واحد اختیار تفویض نہیں کیا جاسکتا یعنی صرف مقننہ ہی ان ججس کے انتخاب کے اختیار کی واحد حامل نہیں ہوگی۔ عدلیہ اور مقننہ دونوں کو این جے اے سی 2.0 میں جگہ ملنی چاہئے۔ میں نے اپنے کالم میں اس بات کا مشورہ دیا تھا کہ کالجیم کو امیدوار کا نام پیش کرنے ؍ نامزد کرنے کا اختیار ہوسکتا ہے اور این جے اے سی کو ان امیدواروں کے انتخاب اور ان کے ناموں کی سفارش کا اختیار ہوسکتا ہے اور مقننہ کو انہیں مقرر کرنے کا (فرائض کے ساتھ) اختیار دیا جاسکتا ہے۔ بہرحال سمجھداری اسی میں ہے کہ مقننہ اور عدلیہ کو عدالتوں میں بڑھتی مخلوعہ جائیدادوں پر بھرتی جیسے مسئلہ کے حل کیلئے سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ سخت و سست الفاظ کے تبادلے سے زخم مزید گہرے ہوں گے، مندمل نہیں۔